• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

ٹنڈو محمد خان کا 10 سال سے زیرِ تعمیر اسکول

جس عمارت کو ہاسٹل کا کام دینا تھا، وہاں پر آوارہ کتوں نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔
شائع July 30, 2018 اپ ڈیٹ August 1, 2018

ٹنڈو محمد خان کے ایک زیرِ تعمیر اسکول میں آنے والوں کا استقبال ایک پراسرار خاموشی کرتی ہے۔ بیرونی دیوار میں مرکزی دروازہ نہیں ہے، چنانچہ کوئی بھی اس احاطے میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ یہ گورنمنٹ پبلک ہائی اسکول ٹنڈو محمد خان ہے جو کہ اب اپنی تعمیر کے کم از کم دسویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔

یہ پورا اسکول جو کہ دو تدریسی عمارتوں، ایک آڈیٹوریم، ایک کینٹین، اور ایک بوائز ہاسٹل پر مشتمل ہے، کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ تدریسی عمارتیں عظیم الجثہ ہیں اور ایک وقت میں سینکڑوں طلبا یہاں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

مگر سرکاری غفلت اس منصوبے کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اسکول ایسی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سیم کا پانی زمین کے اوپر موجود ہے جس سے اسکول کا ڈھانچہ اپنی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی پانی رسنے کی وجہ سے برباد ہو رہا ہے۔

ایک مقامی اسکول ٹیچر اور سماجی کارکن حکومت کو غلط منصوبہ بندی کا الزام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "منصوبے کے لیے منتخب کردہ زمین سیم کی وجہ سے تعمیرات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پلاسٹر اور پینٹ دیواروں سے اکھڑ رہا ہے۔"

یہ منصوبہ اس وقت شروع کیا گیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ کے ارباب غلام رحیم سندھ کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ اس وقت سے اب تک دو صوبائی حکومتیں اپنا دور مکمل کرچکی ہیں مگر اسکول اب بھی تباہ حال ہے اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ یہ مستقبل قریب میں مکمل ہوگا۔

جس عمارت کو ہاسٹل کا کام دینا تھا، وہاں پر آوارہ کتوں نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے جبکہ جھاڑیاں اور لمبی گھاس عمارت میں داخلہ مشکل بنا دیتی ہیں۔ ہاسٹل میں زیرِ تعمیر کمروں اور ٹوائلٹس کے لکڑی کے دروازے بھی غائب نظر آتے ہیں جبکہ دیواروں پر فحش نقوش، وال چاکنگ اور سیاسی نعرے لکھے نظر آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کس طرح کے لوگ آتے ہیں۔

ہاسٹل کا بیرونی حصہ۔— بلال کریم مغل
ہاسٹل کا بیرونی حصہ۔— بلال کریم مغل

ہاسٹل کے اندر لکڑی کے دروازے خستہ حالت میں موجود ہیں۔— بلال کریم مغل
ہاسٹل کے اندر لکڑی کے دروازے خستہ حالت میں موجود ہیں۔— بلال کریم مغل

ہاسٹل کا اندرونی حصہ۔— بلال کریم مغل
ہاسٹل کا اندرونی حصہ۔— بلال کریم مغل

یہی حال تدریسی عمارت کا بھی ہے جو ایک ہاسٹل اور کینٹین سے چند سو فٹ کے فاصلے پر موجود ایک بڑی دو منزلہ عمارت ہے۔ یہ عمارت اپنی تکمیل کا انتظار کرتے کرتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی ہے۔

دیواروں پر جابجا سیم کے نشانات ہیں۔ کچھ کمروں میں غیر استعمال شدہ تعمیراتی سامان رکھا گیا ہے، جبکہ کچھ میں کباڑ اور استعمال شدہ چیزیں نظر آتی ہیں۔ اس عمارت میں فرش پر سگریٹ کے خالی ڈبے اور شیشے کی خالی بوتلیں بھی جابجا نظر آتی ہیں۔

تعمیرات کی کچھ حالیہ علامات نظر آتی ہیں جن میں عمارت کے نئے تعمیر شدہ حصوں کو سہارا دینے والے بانس شامل ہیں، مگر تعمیراتی مزدور کہیں نظر نہیں آتے۔ ایک مقامی صحافی کہتے ہیں کہ ایسا کام کی انتہائی سست رفتار کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "کوئی نہیں جانتا کہ وہ کام کرنے کب آتے ہیں اور کام کس وقت کیا جاتا ہے۔"

مرکزی تدریسی عمارت کے ساتھ ہی ایک آڈیٹوریم قائم ہے جو کہ کسی جزیرے کی طرح پانی سے بھرے میدان میں کھڑا ہے۔ ویسے تو اس پر باہر سے ٹائل اور رنگ کا کام مکمل کیا گیا ہے مگر اس کا اندرونی حصہ بیرونی حصے کے بالکل متضاد، یعنی نامکمل ہے۔ کئی جگہوں پر آڈیٹوریم کی دیواروں میں دراڑیں نظر آتی ہیں جس سے کام کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس میدان کا منظر جہاں پر آڈیٹوریم قائم ہے۔ — بلال کریم مغل
اس میدان کا منظر جہاں پر آڈیٹوریم قائم ہے۔ — بلال کریم مغل

آڈیٹوریم کا بیرونی حصہ۔ باہر سے آڈیٹوریم مکمل نظر آتا ہے۔— بلال کریم مغل
آڈیٹوریم کا بیرونی حصہ۔ باہر سے آڈیٹوریم مکمل نظر آتا ہے۔— بلال کریم مغل

اندر داخل ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابھی بھی مکمل نہیں۔— بلال کریم مغل
اندر داخل ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابھی بھی مکمل نہیں۔— بلال کریم مغل

آڈیٹوریم کی دیواروں میں موجود دراڑیں کام کے معیار کا پتہ دیتی ہیں۔— بلال کریم مغل
آڈیٹوریم کی دیواروں میں موجود دراڑیں کام کے معیار کا پتہ دیتی ہیں۔— بلال کریم مغل

ادھورے وعدے

مقامی ٹیچر کے مطابق ضلعے نے کئی انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی تبدیلی دیکھی مگر کسی بھی انتظامیہ نے منصوبے کی تکمیل کا وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "مقامی اساتذہ اور سول سوسائٹی کے ارکان نے کئی مرتبہ منتخب نمائندوں اور حکام سے ملاقاتیں کیں، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکنِ صوبائی اسمبلی سید اعجاز حسین شاہ بخاری، جنہوں نے حال ہی میں پی ایس 53 ٹنڈو محمد خان (جہاں پر اسکول یا اس کا ڈھانچہ قائم ہے) سے اپنا دور مکمل کیا ہے، نے اسکول کی تعمیر میں حائل رکاوٹوں پر تفصیلاً گفتگو کی۔ انہوں نے اس دفعہ اسی نشست پی ایس 62 ٹنڈو محمد خان-1 (سابقہ پی ایس 53) سے انتخاب لڑا جو وہ جیت چکے ہیں۔

رابطہ کرنے پر اعجاز حسین شاہ بخاری نے تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے والے کچھ مسائل گنوائے جن میں فنڈز کی کمی اور انتظامیہ کی بار بار تبدیلی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "گزشتہ سال ہمیں منصوبے کی تکمیل کے لیے مطلوبہ فنڈز نہیں ملے، جبکہ تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔"

تدریسی عمارت کو جانے والا راستہ۔— بلال کریم مغل
تدریسی عمارت کو جانے والا راستہ۔— بلال کریم مغل

مرکزی تدریسی عمارت کا ایک زیرِ تعمیر حصہ۔ — بلال کریم مغل
مرکزی تدریسی عمارت کا ایک زیرِ تعمیر حصہ۔ — بلال کریم مغل

تکمیل اگلے سال متوقع

جب ان سے اس ایک دہائی طویل تاخیر کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ ایکسیئن ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ کا خالی عہدہ بھی ہے، جو کہ درمیان میں تقریباً 2 سال کے لیے خالی رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اب ہمارے پاس گزشتہ ایک سال سے ایک قابل افسر موجود ہیں جنہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اسکول کی تعمیر اگلے سال تک مکمل ہوجائے گی۔" انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اسکول 2019 میں اپنا کام شروع کر دے گا اور بچوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ بدعنوانی کے اداروں کی اس منصوبے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سے بھی سرکاری افسروں میں تحقیقات کے ڈر سے منصوبے کو ہاتھ نہ لگانے کا رجحان موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اگر سرکاری حکام کے سروں پر ہر وقت تحقیقات کا خطرہ منڈلاتا رہے گا تو وہ درست انداز میں کام کیسے کر پائیں گے؟" ساتھ ہی انہوں نے اضافہ کیا کہ نئے افسر نے تعمیر کی بروقت تکمیل کا وعدہ کیا ہے۔

عمارت کا ایک زیرِ تعمیر حصہ۔— بلال کریم مغل
عمارت کا ایک زیرِ تعمیر حصہ۔— بلال کریم مغل

تعمیراتی سامان ایک کلاس روم میں رکھا گیا ہے۔— بلال کریم مغل
تعمیراتی سامان ایک کلاس روم میں رکھا گیا ہے۔— بلال کریم مغل

نئے تعمیر شدہ حصے کو سہارا دینے کے لیے لگائے گئے بانس۔— بلال کریم مغل
نئے تعمیر شدہ حصے کو سہارا دینے کے لیے لگائے گئے بانس۔— بلال کریم مغل

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زمین پر کھڑا ہوا پانی درحقیقت سیم نہیں، بلکہ ایک واٹر کورس سے سیراب ہونے والی قریبی زمین سے "رسنے والا پانی" ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ضلعی انتظامیہ نے متعلقہ زمیندار کو سوراخ بند کرنے کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے تاکہ پانی کا رساؤ بند کیا جا سکے۔" انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل ہوجائے گا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی ضلعی رینکنگز میں ٹنڈو محمد خان کا تعلیمی انفرااسٹرکچر کے حوالے سے 93 واں نمبر ہے۔ تنظیم کی 2017 میں جاری کی گئی رپورٹ میں 'عمارتوں کی حالت' کے زمرے میں ٹنڈو محمد خان نے 26.33 جبکہ مجموعی طور پر 43.77 کا اسکور حاصل کیا۔

اس کے مقابلے میں خیبر پختونخواہ کا ضلع ٹانک اسی زمرے میں عمارتوں کی حالت کے حوالے سے 92.27 اور مجموعی طور پر 98.45 کا اسکور حاصل کر کے ملک بھر کے ضلعوں میں پہلے نمبر پر رہا۔


ہیڈر فوٹو بشکریہ لکھاری: آڈیٹوریم اور مرکزی تدریسی عمارت کا بیرونی منظر۔


انگلش میں پڑھیں۔

یہ خبر ڈان اخبار میں 30 جولائی 2018 کو شائع ہوئی۔