• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

امریکی دھونس اور دھمکی کا توڑ کیا ہے؟

شائع August 8, 2018
لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔
لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔

1970ء کے اواخر میں چینی رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ نے کہا تھا کہ ’ترقی واحد سچائی ہے۔ اگر ہم ترقی نہیں کریں گے، تو ہمیں دھمکایا جاتا رہے گا۔‘

آج چین کو کوئی نہیں دھمکا سکتا۔ مگر پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔

25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت تمام باتوں کے ساتھ ساتھ عوام کی قومی عزتِ نفس، کرپشن اور خون نچوڑ دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی خواہش کی ترجمان ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے بلکہ اس کا خزانہ خالی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے نئی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ترقیاتی میدان میں کارکردگی دکھانا ہوگا۔

ترقی کا چیلنج بوسیدہ سیاسی و سماجی نظام کی وجہ سے مشکل ہونے کے علاوہ اس لیے بھی مشکل ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کی آنے والی حکومت کو معاندانہ بیرونی ماحول کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیے: اس بار ’آئی ایم ایف‘ کے پاس گئے تو وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا

اس حوالے سے اتفاقِ رائے بڑھ رہا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کو روکنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کو ایک اور بیل آؤٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ بدقسمتی سے یہ حاصل کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔

گزشتہ دنوں آئی ایم ایف میں سابق امریکی نمائندے مارک سوبل نے اپنے ایک بلاگ میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے متوقع پروگرام کے لیے کڑی شرائط کی حمایت کی ہے جس میں روپے کی قدر میں گراوٹ، بلند شرحِ سود، زیادہ ٹیکس محصولات اور انتظامی اصلاحات (بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، زراعت پر ٹیکس، ریاستی اداروں کی نجکاری اور دفاعی اخراجات میں کمی) شامل ہیں۔ یاد رکھیں کہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم میں ان میں سے کئی کمر کسنے والے اقدامات پہلے ہی شامل ہیں۔

مگر سوبل نے اضافہ کیا کہ ’آئی ایم ایف کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے وسائل غیر مستحکم چینی قرضوں سے بیل آؤٹ دینے کے لیے استعمال نہ ہوں۔ سی پیک کے تمام قرضوں سے متعلق جامع ڈیٹا، بشمول اس کی شرائط، اس کے میچورٹی کے دورانیے اور اس میں شامل فریقین کی تفصیلات، فنڈ کی انگلیوں پر ہونا چاہیے۔‘

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی اس مطالبے کو دہرایا۔ امریکی چینل این بی سی کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئی ایم ایف کے ٹیکس ڈالرز اور امریکی ڈالرز کو چینی بانڈ ہولڈر اور خود چین کو بیل آؤٹ دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔‘

اس بیان میں چھپی ہوئی بدنیتی پر پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ کی وضاحت نے پانی پھر دیا کہ سی پیک قرضوں پر اوسط شرحِ سود 3 فیصد ہے۔ زیادہ تر قرضوں کا 5 سالہ گریس پیریڈ ہے اور اگلے 5 سالوں میں چین کو قرضوں اور نفعے کی ادائیگی ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہوگی جو کہ مغرب کو کی جانے والی قرض ادائیگیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

یہ مطالبہ کہ پاکستان (صرف) چینی قرضوں کو ری اسٹرکچر کرے یا پھر آئی ایم ایف سی پیک منصوبوں کی شرائط اور پیش رفت کو مانیٹر کرے، واضح طور پر پاکستان اور چین دونوں کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا۔ پاکستان ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف پلان کے بغیر ہی ٹھیک ہوگا۔

امریکی 'دھمکیوں' کا مقصد اب افغانستان میں پاکستانی تعاون مزید حاصل کرنا نہیں ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بنیادی طور پر پاکستان اور عمران خان کے پیش کردہ مؤقف کو تسلیم کرلیا ہے کہ افغان تنازع صرف امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں مبیّنہ طور پر انہوں نے سہولت کاری کی ہے۔ امریکا نے تو اب تک سرکاری طور پر ان مذاکرات کی بھی تصدیق نہیں کی ہے، پاکستانی حکام کی سہولت کاری تو دور کی بات ہے۔ اس کے بجائے امریکی بیانات طالبان کی بڑھتی ہوئی دراندازی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے رہتے ہیں۔

اگر طالبان کے ساتھ اس کے مذاکرات مشکلات کا شکار ہوجائیں تو امریکا پاکستان کی مدد طلب کرنا جاری رکھ سکتا ہے۔ مگر اب جبکہ اس نے طالبان کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم کرلیا ہے تو امریکا پاکستان کی مدد کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ امریکی رپورٹس کے مطابق امریکا اور طالبان دونوں ہی شراکتِ اقتدار کے فارمولے پر لچک دار ہیں اور طالبان افغانستان میں کچھ امریکی فوجیوں کے موجود رہنے پر غور کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

مزید پڑھیے: ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت

خطے میں اب امریکی مفادات یہ ہیں:

  • چین اور روس کو اسٹریٹجک طور پر محدود کرنا،
  • ہندوستانی غلبے والے جنوبی ایشیاء کی تیاری اور
  • ایرانی اثر و رسوخ کو ریورس کرنا۔

آئی ایم ایف پیکج پر پومپیو کا مؤقف پاکستان کی مالی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر سی پیک پر عملدرآمد محدود کرنے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو نقصان پہنچانے کی امریکی خواہش کی علامت ہے۔

پاکستان کے پاس معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ چینی مالی امداد کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ ہو۔ چین اب تک پاکستان کو ادائیگیوں میں توازن میں مدد دینے میں سخی رہا ہے اور امکان ہے کہ یہ مستقبل میں بھی مددگار رہے گا۔ چین اس کے علاوہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہوسکتا ہے۔

ہندوستان اور امریکا کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے سی پیک پر عملدرآمد کو تیز تر بنایا جا سکتا ہے اور اس کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے اس میں ملازمتیں پیدا کرنے، سماجی اور انسانی ترقی اور زرعی اور صنعتی ترقی لانے کی پی ٹی آئی کی ترجیحات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

جن خصوصی اکنامک زونز کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان کے حصے کے طور پر نہایت غور و خوض سے منصوبہ تیار کیا جاسکتا ہے تاکہ غیر مسابقتی صنعتوں کو چین سے پاکستان (بجائے دوسرے ایشیائی ممالک کے) لایا جائے۔ گوادر کے اصل وژن، یعنی اسے ایک بڑے پیٹرو کیمیکل پروسیسنگ اور جہاز رانی کے مرکز میں بدلنے کو بھی عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کے اسٹریٹجک رخ نے چین کے ساتھ عالمی اور جامع انداز میں مقابلہ کرنے کے امریکی فیصلے کی وجہ سے مزید اہمیت اختیار کرلی ہے۔ امریکا واضح طور پر پاکستان کو چینی شراکت دار تصور کرتا ہے اور اب یہ اسے دشمن تصور کرنے لگا ہے۔ امریکا چین کا سامنا کرنے کے لیے ہندوستان کو مسلح کر رہا ہے جبکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اس کا مقصد ہے کہ یہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو ختم کردے۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے ظلم و ستم کا بھی حامی ہے۔

پاکستان کے خلاف ہندوستانی دھمکیاں اور دباؤ، بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں 'دہشتگردی' کے الزامات میں اور شدت آئے گی جب مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو قوم پرستی کی بناء پر 2019ء میں دوبارہ منتخب ہونا چاہے گی۔ اگر پاکستان ہندوستانی غلبے کو تسلیم کرلیتا ہے تو ہندوستان کو امریکا سے ملنے والی عسکری صلاحیتیں پاکستان کے بجائے مکمل طور پر چین کے خلاف تعینات ہوجائیں گی۔

مزید پڑھیے: پاکستان کو ہندوستان سے بات کن شرائط پر کرنی چاہیے

چنانچہ اپنے ایک جیسے اسٹریٹجک مقاصد کی بناء پر پاکستان اور چین کے تعلقات میں مزید بڑھاوا آنا چاہیے، بجائے یہ کہ 'مارکیٹ اصولوں' میں الجھ کر رہ جائے۔ یہ یقین دلانے کے علاوہ کہ پاکستان جامع بااعتماد دفاعی صلاحیتیں رکھتا ہے، چین کی پاکستان کے خلاف ہندوستانی دھمکیوں اور امریکی دباؤ کی سخت الفاظ میں مذمت جنوبی ایشیاء میں امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

نئے وزیرِ اعظم کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ دفتر سنبھالنے کے فوراً بعد چین کا دورہ کریں تاکہ ایک نئی اور مضبوط تر اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھی جا سکے۔

ظاہر ہے کہ چین کی حمایت کے ساتھ ساتھ 'اسلامی فلاحی ریاست' بنانے کے لیے درکار وسائل اکھٹا کرنے کی ایک قومی مہم بھی ہونی چاہیے۔

پاکستان امریکی دھمکیوں کی مزاحمت اور امریکا کے ساتھ باہمی تکریم و فائدے کا تعلق صرف تب قائم کر پائے گا جب یہ اقتصادی اور عسکری اعتبار سے مضبوط ہوگا۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

منیر اکرم

لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Bawa haji german al britabu Aug 08, 2018 11:07am
I wish me Imran khan good luck and if he ask for any support from oversees Pakistanis we are ready to do anything for pakistan
Aurang Aug 08, 2018 06:23pm
محترمہ منیرا کرم کی اچھی تحریر ہے۔ ویسے بھی جو بھونکتے ہیں، وہ کاٹتے نہیں اور جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں۔ ان خالی دھمکیوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو عالمہ فورمز جیسا کہ اقوامِ متحدہ پر اپنا اصولی موقف پیش کرنا چاہئے۔
yousuf Aug 08, 2018 08:26pm
agar pakistanis, vienamese ki tarah muttahid ho jaaye oar uske liye shaheed hone ko tayyar hojaye, tow koy qoum usko ghulam nahi bana sakti..

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024