الیکشن ڈے: اس بار ٹھپے نہیں لگ سکے . . .
25 جولائی 2018ء کو پاکستان میں ہونے والے 11ویں انتخابات کا معاملہ ’جتنے منہ اتنی باتوں‘ جیسا ہوگیا ہے۔ جیتنے والی جماعتوں سے انتخابات سے متعلق پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہیں لیکن جب یہی سوال ہارنے والی جماعتوں سے پوچھا جائے تو بالکل برعکس جواب دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا ہوا ہے۔
لیکن ان دونوں فریقین کے علاوہ ایک اور طبقہ ایسا بھی ہے جس نے براہِ راست ان انتخابات کو مانیٹر کیا ہے اور وہ طبقہ صحافیوں کا ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی یونین آف جرنلسٹس(دستور) کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان ’انتخابات 2018: صحافیوں نے کیا دیکھا‘ رکھا گیا تھا۔ اس تقریب میں شہر کے نامور صحافیوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اظہار خیال کیا اور جو کچھ انہوں نے انتخابات والے دن دیکھا اس کو ویسے ہی بیان کردیا۔
مبشر زیدی
سینئر صحافی، ڈان
مجھے ایک مہینے پہلے اُس ادارے کی جانب سے ایک لسٹ موصول ہوئی جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے یہ سارا انتخاب مینیج کیا ہے۔ اس لسٹ میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی اسمبلی کی 116 نشستیں ملیں گی۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ کس کو کتنی سیٹیں ملیں، سوال تو یہ ہے کہ آج کی تقریب میں جتنے صحافیوں نے انتخاب والے دن ہونے والی بدنظمی اور مینجمنٹ سے متعلق باتیں کی کیا وہ ثابت ہوسکیں گی؟ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکے گا۔ یہ صرف اسی وقت ثابت ہوسکے گا جب کوئی افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد خود یہ بتادیں کہ 25 جولائی 2018 کو کیا ہوا تھا۔
دیکھیے صورتحال یہ ہے کہ جتنے بھی تحقیقاتی صحافت کرنے والے لوگ ہیں ان سب کو معلوم تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے اور جس لسٹ کی بات میں کررہا ہوں وہ یقیناً دیگر حضرات کے پاس بھی ہوگی جس میں سب لکھا تھا کہ کس کو کتنی نشستیں ملیں گی۔ اس لسٹ کی ایک کاپی تو اب بھی میرے پاس موجود ہے۔
پھر اہم بات یہ ہے کہ جب ایک جماعت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں، صحافی برادری اور خود آبزرورز بھی یہی بات کررہے ہوں کہ ہر جماعت کو ایک جیسا ماحول نہیں دیا گیا اور نتائج بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں تو ظاہر ہے ان الزامات میں کچھ نہ کچھ حقیقت تو ہوگی۔
چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سارے الزامات غلط ہیں لیکن پھر بھی اس کی تحقیقات تو ہونی چاہیے نا، لیکن بدقسمتی سے تحقیقات کے لیے کوئی ادارہ بھی میسر نہیں ہے۔ جو ٹریبونلز موجود ہیں ان کی حالت بھی ہمیں معلوم ہے۔ یوں تو فیصلے دینے کے لیے یہ ایک ماہ کے پابند ہیں مگر چار چار سال تک یہاں سے فیصلے نہیں آتے۔
امتیاز فاران
سینئر صحافی / سابق صدر کراچی پریس کلب، نیوز ون
یہاں یہ بات کی گئی کہ الیکشن ڈے پر صحافیوں کے لیے پولنگ اسٹیشن میں داخلے پر پابندی تھی اور رپورٹنگ میں مشکل ہورہی تھی، اور ہم نے پورا دن سڑکوں پر گزارنے کے بعد خود بھی ان حالات کو برداشت کیا، لہٰذا اپنے اس تجربے کی بنیاد اور پورا دن الیکشن کو کور کرنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پری پول دھاندلی تو ہوئی، لیکن ماضی میں جہاں ٹھپے لگا کر یا دیگر طریقوں سے ووٹ کو مینج کیا جاتا اس بار ویسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ووٹ کو مینج کرنے کے بجائے رزلٹ کو مینج کیا گیا اور ہمیں آر ٹی ایس سسٹم کی خرابی پر الجھا دیا گیا جس کا رزلٹ کی تیاری سے کوئی تعلق نہیں۔
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ آر ٹی ایس سسٹم ہے کیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ 2013ء کے انتخابات میں بھی استعمال کیا گیا تھا لیکن اس سسٹم کا نتائج کی تیاری سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک کمیونیکیشن سسٹم ہے۔ ’پریزائیڈنگ آفیسر‘ کو ’ریٹرننگ آفیسر‘ سے، ’ریٹرننگ آفیسر‘ کو 'ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر' سے اور 'ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر' کو الیکشن کمیشن سے۔
یہ چھٹے عام انتخابت ہیں جسے میں نے بطور صحافی کور کیا۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ الیکشن ڈے پر سیاسی جماعتوں کے الیکشن سیل بھرپور طریقے سے کام کرتے تھے، مگر اس مرتبہ کسی ایک سیاسی جماعت کا الیکشن سیل بھی کام نہیں کررہا تھا کیونکہ سب کو ہی نتائج کے چکر میں الجھادیا گیا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ رزلٹ کو مینج کرنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔
الیکشن کمیشن اب بھی یہ بات کررہا ہے کہ فارم 45 بروقت اس لیے نہیں مل سکے کیونکہ آر ٹی ایس سسٹم خراب تھا، لیکن ان کو یہ بات کون بتائے کہ فارم 45 ایک مینوئل فارم ہوتا ہے جسے ہاتھ سے پُر کیا جاتا ہے اور اس میں صرف یہ معلومات ہوتی ہے کہ کس پولنگ اسٹیشن سے کس پارٹی کو کتنے ووٹ ملے جس پر پریزائیڈنگ آفیسر کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں پولنگ ایجنٹس کے دستخط بھی ہوتے ہیں، لہذا آپ دیکھیے گا کہ الیکشن کمیشن جب بھی نتائج جاری کرے گا اس میں 25 فیصد سے زیادہ فارم 45 شامل نہیں ہوں گے۔
سہیل رفیق
سینئر صحافی / فوٹوگرافر، جنگ
میری ذمہ داری این اے 246 لیاری میں تھی۔ میں بھی صبح صبح علاقے میں پہنچ گیا اور صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کی کوشش کی اور شناخت کے بعد مجھے آسانی سے اجازت مل گئی۔
لیاری کے بارے میں تاثر یہی تھا کہ یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) باآسانی جیت جائے گی لیکن وہاں صورتحال مختلف لگی۔ پیپلز پارٹی سے زیادہ وہاں دیگر سیاسی جماعتیں زیادہ متحرک نظر آئیں اور بڑی تعداد میں انہوں نے اپنے کیمپوں میں لوگوں کو جمع کیا ہوا تھا۔ جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی صورتحال یہ تھی کہ بعض پولنگ اسٹیشن میں ان کے پولنگ ایجنٹس بھی پورے نہیں تھے، جس کی وجہ شاید یہی ہو کہ وہ اپنی جیت کو یقینی سمجھ رہے تھے۔
لیکن جو 25 جولائی کا سب سے بڑا مسئلہ رہا وہ آر ٹی ایس سسٹم تھا۔ الیکشن کمیشن نے جب پریس کانفرنس کی تھی تو صحافیوں سے بار بار یہی سوال کیا کہ یہ سسٹم آپ نے بنا تو لیا ہے لیکن اس کی افادیت کیا ہے؟ تو جواب یہی ملا یہ سسٹم زبردست ہے اور اس کی مدد سے پریزائیڈنگ آفیسر نتائج کو الیکشن کمیشن تک بھیج دے گا اور وہاں سے ہی جلد اعلان ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز کو بھی روک دیا گیا کہ وہ الگ الگ علاقوں سے نتائج نہیں جاری کریں گے، لہٰذا چینلز بھی اور ہم سب بھی اس انتظار میں تھے کہ نتائج کب آئیں گے؟
اب سوال یہ ہے کہ دو بار ٹیسٹ ہونے کے باوجود بھی آر ٹی ایس کیوں ناکام ہوا؟ تو گراونڈ پر ہونے کی وجہ سے معلوم یہ ہوا کہ پریزائیڈنگ آفیسر کی تو ٹھیک سے تربیت ہی نہیں ہوئی ہے جو الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ٹھیک سے کام ہی نہیں ہوسکا۔ کسی پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس اینڈرائیڈ فون نہیں تھا تو کوئی سسٹم کو آپریٹ ہی نہیں کرپا رہا تھا۔
اسی طرح ہر پولنگ بوتھ پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے تھے جن کا فوکس وہ جگہیں تھیں جہاں بیلٹ پیپرز پر اسٹیمپ لگتی ہے یا جہاں ووٹ ڈالا جاتا ہے، لیکن اس سسٹم کے بارے میں بھی نہیں معلوم کہ وہ چل رہے تھے یا نہیں۔ کیونکہ جب ہم نے اندر جانے کے بعد اس کے حوالے سے پوچھا تو ہمیں جواب ملا کہ ابھی نہیں بتاسکتے یہاں کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ تو ہم نے یہی پوچھا کہ ہم تو یہ صرف جاننا چاہ رہے ہیں کہ جو سسٹم آپ نے یہاں لگایا ہے وہ چل رہا ہے یا نہیں، لیکن ہمیں وہ چیک نہیں کروایا گیا۔
لیاقت رانا
رپورٹر، دنیا نیوز
1993 سے اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے انہیں بطور صحافی کور کرنے کا تجربہ رہا ہے لیکن 25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخاب میں ایسا لگا کہ صبح پونے آٹھ بجے سے رات 12 بجے تک کوئی کام نہیں کیا۔
میری ذمہ داری این اے 244 پر تھی اور جب میں صبح پولنگ اسٹیشن نمبر 47 پر پہنچا تو ووٹروں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ چونکہ ہمارے پاس الیکشن کمیشن کی جانب سے کارڈ موجود تھا لہٰذا ہم نے اندر جانا چاہا مگر گیٹ پر موجود 2 جوانوں نے ہمیں روکا اور کہا کہ آپ اندر نہیں جاسکتے۔ جب ہم نے الیکشن کمیشن کا کارڈ دکھایا تو انہوں نے اپنے افسر کے پاس بھیج دیا اور ان سے بھی ہم نے اندر جانے کی اجازت مانگی جس پر کہا گیا کہ آپ کو اجازت نہیں ہے اور آپ پولنگ اسٹیشن سے باہر چلے جائیں۔
جس کے بعد ہم نے گلستان جوہر، گلشن جمال، محمد علی سوسائٹی، محمود آباد اور اختر کالونی کے تقریباً ایک درجن سے زائد پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیا مگر ہمیں کسی ایک بھی پولنگ اسٹیشن میں جانے کی اجازت نہیں ملی اور یہ سلسلہ شام تک یونہی جاری رہا۔
6 بجے جب پولنگ ختم ہوئی تو ہم نے پہلے ہی 3 پولنگ اسٹیشن کو ہدف بنالیا تھا کہ ہم یہاں موجود رہیں گے کیونکہ وہاں ووٹ کم تھے اور نتائج پہلے آنے کی امید تھی لیکن ہماری قسمت خراب کہ ہمیں ان 3 پولنگ اسٹیشن تو دور کی بات ایک پولنگ بوتھ کا نتیجہ بھی نہیں مل سکا۔
اس دوران ہمیں خبر ملی کہ پاکستان تحریک انصاف کے چند کارکنان خوشیاں منارہے ہیں کہ این اے 244 سے علی زیدی کامیاب ہوچکے ہیں، لیکن جب ان سے نتائج کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ نتائج تو موصول نہیں ہوئے لیکن علی زیدی یہاں سے جیت گئے ہیں۔
صورتحال کو سمجھنے کے لیے علی زیدی سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کا فون مسلسل مصروف آرہا تھا۔ جب یہ ساری صورتحال اپنے ادارے کو بتائی تو ہمیں کہا گیا کہ آپ واپس دفتر آجائیں اور پھر اگلے 12 بجے دن کو نتائج موصول ہوئے۔ اگرچہ وہی نتائج گزشتہ رات 3 مختلف چینلز دکھا چکے تھے، لیکن نہ تو یہ نتیجہ کسی امیدوار کو موصول ہوا تھا اور نہ کسی صحافی اور نہ ہی آر او اور الیکشن کمیشن کو۔
سعید غنی
سینئر رہنما، پاکستان پیپلز پارٹی
مجھے تو آج محض سہیل رفیق وہ خوش نصیب صحافی لگے جنہیں اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ مجھے شک ہے کہ وہ کوریج کے لیے باہر نکلے بھی ہیں یا نہیں، یا پھر واقعی وہ بہت خوش نصیب ہیں۔ دیکھیے، آپ صحافی بھائیوں کو تو پھر الیکشن کمیشن سے اجازت لینی پڑی ہے کہ آپ پولنگ اسٹیشنز کے اندر جاکر حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں، لیکن میں تو امیدوار تھا اور امیدوار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس پولنگ اسٹیشن پر جتنی مرتبہ چاہے جائے اور جتنی دیر چاہے رہے لیکن اس کے باوجود مجھے کہیں جگہوں پر روکا گیا۔
لیکن یہ معاملات محض الیکشن ڈے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ کہانی تو پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حکم جاری ہوا کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر نہ ووٹر اپنا موبائل فون لیکر جاسکتا ہے اور نہ میڈیا والے کیمرہ۔ اب بات یہ ہے کہ اگر ساری چیزیں ٹھیک ہی ہونی ہیں تو چیزیں چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس حوالے سے بھی ہم نے اعتراض اٹھایا کہ جہاں ووٹ ڈالا جاتا ہے وہاں کیمرے کا استعمال نہیں کیا جاسکتا، باقی تو کہیں پابندی نہیں ہے۔ لیکن چلیے ووٹر پر اگر یہ پابندی لگانی بھی ہے تو لگائیے لیکن پولنگ ایجنٹس کو تو اجازت دیجیے کہ اگر پورے دن میں اس کو کوئی پریشانی، بیماری یا دیگر مسائل ہوجائیں یا اُس کے گھر میں کوئی پریشانی ہوجائے تو اطلاع تو دی جاسکے، جس پر کہا گیا کہ بات آپ کی ٹھیک ہے اس پر غور کریں گے لیکن پھر کچھ نہیں ہوا۔
اب آتے ہیں فارم 45 پر۔ یہاں یہ بات ٹھیک کہی گئی کہ آر ٹی ایس سسٹم کا فارم 45 سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، لیکن پھر بھی یہ دینے میں کوتاہی کی گئی۔ چونکہ میرا حلقہ نسبتا چھوٹا ہے لہٰذا میں صبح 7 بجے تک اپنے حلقے میں گھومتا رہا اور آخری فارم 45 مجھے صبح 7 بجے ملا اور پوری رات مجھے حیرت انگیز طور پر ایک مسئلہ دیکھنے کو ملا اور وہ یہ کہ ہمیں یہ کہا جاتا رہا کہ پریزائیڈنگ آفیسر سے فارم 45 بن نہیں رہا۔ میں نے خود پریزائیڈنگ آفیسر سے ملاقات کی جن میں سے کچھ ڈاکٹر تو کچھ جامعہ کراچی کے پروفیسر تھے، لیکن حیرت انگیز طور پر ان سے بھی فارم 45 نہیں بن رہا تھا۔
لیکن یاد رہے کہ یہ 1990 نہیں کہ حقائق سامنے آنے میں 6 اور 8 سال لگیں گے۔ یہ 2018 ہے اور چیزیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں اور میرا یہ ایمان ہے کہ جن لوگوں نے کیا ہے انہی میں سے کچھ لوگ اٹھیں گے اور بتائیں گے کہ انہوں نے کیا کیا اور کس طرح کیا ہے۔
فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔