• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

ہجرت کی تلخ داستان اور آئی اے رحمٰن

شائع August 14, 2018 اپ ڈیٹ August 14, 2020

آئی اے رحمٰن کا شمار پاکستان کے نامور روشن خیال و ترقی پسند صحافیوں، لکھاریوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں میں ہوتا ہے۔ وہ اور ان کے خاندان نے قیامِ پاکستان کے موقع پر بہت زیادہ صعبوتیں اور مظالم سہے۔ اس دوران ان کے خاندان کے بے شمار لوگوں کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ اس حوالے سے آئی اے رحمٰن اور ان کے خاندان پر ہونے والے مظالم کی کہانی کچھ یوں ہے۔

ہندوستان میں آئی اے رحمٰن کا گاؤں

آئی اے رحمٰن کا خاندان ضلع گڑ گاؤں کے قصبہ حسن پور میں مغل بادشاہ ہمایوں کے دور میں آباد ہوا۔ یہ گاؤں ایک بلوچ سردار نے آباد کیا تھا۔ اس گاؤں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔

تقسیمِ ہند کے وقت مسلمانوں اور ہندوؤں کی آبادی تقریباً مساوی تھی۔ گاؤں کی آبادی کے بیشتر افراد کا ذریعہ معاش کاشت کاری تھا۔ اگرچہ بعض افراد کے پاس وسیع قطعات اراضی تھے لیکن جاگیردار کوئی نہ تھا۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد مسلمان دہلی کے معاملات سے دور ہو گئے تھے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں جب شورش نے مختلف علاقوں میں زور پکڑا تو گڑ گاؤں کے باسی بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔ اس گاؤں کے رہنے والوں نے بھی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس گاؤں کے رہنے والے کچھ افراد پکڑے جانے کے بعد پھانسی پر بھی چڑھا دیے گئے۔ برطانوی راج سے نفرت نے حسن پور کے باسیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی وجہ سے یہاں کے رہنے والے انگریزوں سے دور رہتے تھے اور ان کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات پل رہے تھے۔

گاؤں کے باسیوں نے انگریزوں کی حکومت میں انتظامی عہدوں میں شمولیت سے بھی اپنی بیزاری کا اظہار کیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حسن پور کے باسیوں کو اسلحے کے لائسنس جاری کرنے پر انگریز ی راج نے پابندی عائد کر رکھی تھی۔ یہ گاؤں اس وجہ سے اسلحے سے پاک تھا۔

مزید پڑھیے: پاکستان کے چند عہد ساز لمحوں پر ایک نظر

گاؤں میں رواداری کے کلچر کی جڑیں بہت مضبوط تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے جس میں مذہب و نسل کی تفریق نہیں تھی۔ آئی اے رحمٰن کہتے ہیں کہ ’ایک بار گاؤں کی مسجد سے گھنٹہ چوری ہوگیا تو پورا گاؤں حیرت میں مبتلا تھا۔ اس گھنٹے کی چوری نے باقاعدہ ایک ضرب المثل کی شکل اختیا ر کرلی‘۔

تقسیمِ ہند کے فسادات

ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح حسن پور بھی تقسیمِ ہند کے وقت فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ فسادات کی آگ نے حسن پور کو بھی بُری طرح متاثر کیا۔ صدیوں سے رواج پانے والا رواداری کا کلچر راتوں رات تحلیل ہوگیا۔ ہندو اور مسلمان جو ایک دوسرے کے پڑوس میں صدیوں سے پُرامن زندگی گزا ر رہے تھے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔

پنجاب میں فسادات کی شروعات راولپنڈی سے ہوئی جہاں سے ہندوؤں اور سکھوں نے راہِ فرار اختیار کیا۔ راولپنڈی سے شروع ہونے والے فسادات کی آگ نے قریبی ضلع جہلم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ فسادات سے متاثرہ ہندو اور سکھ جب گڑ گاؤں، امرتسر، انبالہ، گورداس پور اور اطراف کے علاقوں میں پہنچے تو فسادات کی آگ نے ان علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اگست 47ء کا مہینہ حسن پور گاؤں کے لیے پُرسکون رہا لیکن ستمبر کے مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی فسادات نے حسن پور گاؤں میں پنجے گاڑنا شروع کر دیے۔ سیکڑوں جنونیوں نے حسن پور گاؤں کو گھیرلیا۔ وہاں ایک تھانہ بھی قائم تھا جہاں پولیس اہلکاروں کی ایک مناسب نفری موجود رہتی تھی۔

تقسیمِ ہند کے بعد بھارت ایک الگ ملک کے طور پر قائم ہو ا تو سردار ولبھ بھائی پٹیل اس کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ سردار پٹیل نے پولیس کے محکمے میں ایسے پولیس افسروں کو تعینات کردیا جو متعصب اور مسلمان دشمنی میں رنگے ہوئے تھے۔ فسادات میں بچ جانے والوں میں سے بعض نے بتایا کہ بلوائیوں نے حسن پور گاؤں پر حملہ کرنے کے لیے پہلے پوری طرح تیاری کی اور اس حملے کے لیے ایک فضا بھی تیار کی۔

آئی اے رحمٰن کہتے ہیں کہ اگرچہ حسن پور کے مسلمانوں کے قریبی دیہاتوں کے اطراف میں بسنے والے لوگوں سے خوشگوار تعلقات تھے، لیکن دریائے جمنا کے پانی کی تقسیم کا ایک تنازعہ تھا اور 1940ء میں اسٹیبلشمنٹ کے کمشنر نے حسن پور کے مکینوں کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد معاملہ حل ہوگیا تھا۔ مگر شاید بلوائیوں کو مال غنیمت لوٹنے کی امید تھی یا وہ جنون تھا جس نے پورے پنجاب کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔

تقسیمِ ہند کے بعد بھارت ایک الگ ملک کے طور پر قائم ہو ا تو سردار ولبھ بھائی پٹیل اس کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ سردار پٹیل نے پولیس کے محکمے میں ایسے پولیس افسروں کو تعینات کردیا جو متعصب اور مسلمان دشمنی میں رنگے ہوئے تھے۔

آئی اے رحمٰن کی بھانجی فاخرہ آفتاب کے والد، نانا، ماموں، چچا، خالائیں اور بہت سے ان گنت رشتہ دار اس فساد میں شہید ہوئے۔ وہ اپنے بھائی محمد شمیم اور چند قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ وہ بچپن کی یادداشتوں پر زور دیتے ہوئے فسادات کے وقت کی صورتحال کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں، ’بلوائیوں نے حسن پور کا کئی دنوں تک گھیراؤ کیے رکھا۔ حسن پور کے مکینوں کے پاس جدید اسلحہ نہیں تھا، شاید ایک دو بندوقیں تھیں اور قدیم نوعیت کے ہتھیار تھے۔ جب بلوائیوں کا گاؤں میں داخل ہونے کا امکان بڑھ گیا تو سارے خاندان والے نانا کی حویلی میں جمع ہوئے جہاں آخری معرکہ ہوا۔

’میری رشتہ کی بہن عائشہ بیگم کے شوہر خان محمد خان (مرحوم) کہتے تھے کہ حسن پور کے مکین بے جگری سے لڑے۔ یہ مقابلہ کئی دنوں تک جاری رہا۔ دہلی کا ایئرپورٹ حسن پور سے خاصہ نزدیک تھا۔ دہلی ایئرپورٹ سے پرواز کرنے والے طیارے کا پائلٹ کئی دنوں تک حسن پور کا منظر دیکھ رہا تھا، شاید یہ پائلٹ انگریز ہوگا۔ اس پائلٹ کے توجہ دلانے پر برطانوی فوج کے دستے حسن پور پہنچے اور یہ گھیراؤ ختم ہوا۔ فوجیوں نے زخمیوں کو اسپتال بھیج دیا اور گاؤں کے باقی افراد کو ٹرکوں میں بٹھا کر مہاجرین کے کیمپ میں بجھوا دیا‘۔

عائشہ بیگم کے مطابق، ’مقامی انتظامیہ نے راولپنڈی سے ہجرت کرکے آنے والے ایک ایسے پولیس افسر کو حسن پور تھانے کا ایس ایچ او مقرر کیا جس کے خاندان کے افراد ہندو مسلم فسادات کے دوران قتل ہوگئے تھے۔ اس پولیس افسر نے اپنے انتقام کی آگ حسن پور کے باسیوں کے قتل عام سے بجھائی۔ یوں حسن پور کے مکین ایک مال گاڑی میں سوار ہوئے اور پھر ان مکینوں کا ایک اور خوفناک سفر شروع ہوا۔

ایک کٹھن سفر

’پنجاب میں ہر طرف بربریت کا راج تھا۔ ریل گاڑیوں کے ڈبے انسانی لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ ریل کی پٹری کے دونوں طرف لاشیں بکھری ہوئی نظر آتی تھیں۔ بلوائی ریل گاڑیوں پر منظم انداز میں حملے کرتے تھے۔ اس مال گاڑی پر کئی دفعہ حملہ ہوا مگر حسن پور کے مکینوں کی اس دفعہ قسمت کچھ بہتر تھی۔ مال گاڑی کے ڈبوں کی دیواریں انہیں دور سے آنے والی گولیوں سے بچاتی رہیں۔ یہ مال گاڑی واہگہ سے ہوتی ہوئی ملتان کے راستے شجاع آباد پہنچ کر رک گئی۔

‘حسن پور کے باسیوں نے کافی دن مال گاڑی کے ڈبوں میں گزارے۔ یہ وہ وقت تھا جب بارشیں زوروں پر تھی، جس کی بناء پر وبائی بیماریاں پھیل گئی تھیں۔ حسن پور والے جب گاؤں سے نکلے تھے تو بہت معمولی سامان ساتھ لاسکے تھے۔ اس سامان کا بھی ایک حصہ راستے میں لٹ گیا، یوں موسم تبدیل ہونے اور مناسب کپڑے دستیاب نہ ہونے کی بناء پر بہت سے لوگ خاص طور پر بچے بیمار پڑگئے۔

مزید پڑھیے: خصوصی رپورٹ: بانیانِ پاکستان 1947 سے 1951

پھر کئی ہفتے بعد انتظامیہ نے شجاع آباد کے ان خالی مکانوں تک جہاں ان کی رسائی تھی وہاں ہندوستان سے آنے والے لٹے پٹے لوگوں کو آباد کیا۔ یہ بھی ایک المیہ تھا کہ آباؤ اجداد کے مکانات اور قبروں کو چھوڑ کر آنے والوں کو ان مکانات میں پناہ ملی جو بلوائیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے چھوڑ گئے تھے‘۔

’پنجاب میں ہر طرف بربریت کا راج تھا۔ ریل گاڑیوں کے ڈبے انسانی لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ ریل کی پٹری کے دونوں طرف لاشیں بکھری ہوئی نظر آتی تھیں۔ بلوائی ریل گاڑیوں پر منظم انداز میں حملے کرتے تھے۔

میرے رشتے کے بھائی سعید احمد خان ایڈووکیٹ جن کے والد اور قریبی رشتہ دار اس فساد کی نذر ہوگئے تھے ان کے مطابق،’حسن پور پر حملے اور ہلاکتوں کی ایف آئی آر حسن پور تھانے میں درج ہوئی تھی۔ جب فوج کے دستے حسن پور میں داخل ہوئے تو عبدالحکیم خان کے بھائی حاجی فضل الرحمٰن جن کی اہلیہ، بیٹی اور بیٹے شہید ہونے والوں میں شامل تھے، انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی نماز جنازہ ادا کی اور تمام شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا‘۔

آئی اے رحمٰن کے بھتیجے کاشف رند اپنے بزرگوں سے سنے ہوئے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’بلوائیوں نے 3 دن تک حویلی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر شدید مزاحمت کی بناء پر یہ لوگ کامیاب نہ ہوسکے۔ حویلی کے ساتھ ہی اسکول تھا۔ حویلی میں موجود لوگوں نے حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے کچھ ہندوؤں کو گرفتار کرکے حویلی کے نچلے حصے میں بند کردیا تھا۔ ان لوگوں نے حویلی کے ساتھ ملحق اسکول کا دروازہ کھول دیا اور یوں بلوائی حویلی میں داخل ہوئے اور پھر حویلی کے مکینوں کا قتل عام ہوا‘۔

آئی اے رحمٰن عبدالرحمٰن خان ایڈووکیٹ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حسن پور کے اسکول میں حاصل کی۔ پھر اپنے والد کے پاس پل ول چلے گئے جہاں سے انہوں نے میٹرک کیا۔ آئی اے رحمٰن کے والد نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی علیگڑھ بھیج دیا۔ آئی اے رحمٰن علیگڑھ یونیورسٹی میں انٹر سائنس کے طالب علم ہوگئے۔ علیگڑھ یونیورسٹی مسلم لیگ کا گڑھ تھی مگر یونیورسٹی میں کانگریس کے حامی اور کمیونسٹ پارٹی سے متاثر طالب علم بھی زیرِ تعلیم تھے۔

آئی اے رحمٰن اپنے والد کے خیالات سے آگاہ تھے، ان کی ملاقات کمیونسٹ پارٹی کے رہنما مطلبی فرید آبادی سے ہوئی تھی، یوں آئی اے رحمٰن علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے آغاز پر ہی کمیونسٹ نظریے سے بندھ گئے تھے۔ جب حسن پور پر ہندو بلوائیوں نے حملہ کیا تو آئی اے رحمٰن علیگڑھ یونیورسٹی میں مقیم تھے۔ انہیں ایک سامان فروخت کرنے والے شخص کے ذریعے علم ہوا کہ حسن پور کے مکینوں کو بلوائیوں نے شہید کردیا تھا۔

آئی اے رحمٰن نے گاؤں جانے کے لیے ہاسٹل کے وارڈن سے اجازت طلب کی مگر وارڈن نے مخدوش امن و امان کی صورتحال کی بناء پر انہیں ہاسٹل چھوڑنے کی اجازت نہیں دی۔ آئی اے رحمٰن کے پاس اخراجات کی رقم ختم ہوگئی تھی مگر ہاسٹل وارڈن نے ان سے کہا کہ اب سے یہ اخراجات طلب نہیں کیے جائیں گے۔ ایک ماہ بعد آئی اے رحمٰن کے والد عبدالرحمٰن ایڈووکیٹ فوجی ٹرک میں علیگڑھ آئے اور انہیں ساتھ لے گئے۔

آئی اے رحمٰن کو اپنے گھر والوں سے فسادات کی ہولناکی کا علم ہوا۔ آئی اے رحمٰن کے تایا عبدالحکیم خان کے بہت سے قریبی رشتہ دار شہید کردیے گئے تھے۔ بہت سے قریبی رشتہ دار زخمی حالت میں تھے۔ یوں عبدالرحمٰن صاحب کی قیادت میں حسن پور کے مکین ایک مال گاڑی میں سوار کرائے گئے۔ اسٹیشن پر ایک بلوائی نے عبدالرحمٰن سے وہ تھیلی بھی چھین لی، جس میں بچا ہوا قیمتی زیور تھا۔

حسن پور کے مکینوں کو لانے والی مال گاڑی آگ اور خون کا راستہ طے کرکے لاہور اور ملتان سے گزرتی ہوئی شجاع آباد کے قصبے میں رک گئی۔ حسن پور کے مکینوں کا قافلہ شجاع آباد پہنچ گیا۔

پاکستان میں زندگی کا سفر

آئی اے رحمٰن نے لاہور کے اسلامیہ کالج سول لائنس سے سائنس میں گریجوشن کیا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں ترقی پسند طلبہ کے حلقہ اثر میں آگئے تھے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم اور قومی و بین الاقوامی موضوعات پر خاصی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ رحمٰن صاحب نے اپنا پہلا مضمون لاہور سے شائع ہونے والے اردو اخبار روزنامہ آفاق میں لکھا۔

رحمٰن صاحب نے شاید مطلبی فرید آبادی کی ایماء پر پاکستان ٹائمز میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت عظیم شاعر فیض احمد فیض پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ مظہر علی خان، احمد ندیم قاسمی، عبداﷲ ملک، سید سبط حسن، حمید اختر اور حمید ہاشمی کی قیادت میں ترقی پسند صحافت کے اہم ستون پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز میں موجود تھے۔ بعد میں معروف دانشور سبط حسن ہفت روزہ لیل و نہار کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیے: 23 مارچ 1940 سے 23 مارچ 2017 تک کی تصویری کہانی

فیض احمد فیض کی زیرِ نگرانی آئی اے رحمٰن نے پاکستان ٹائمز کے قلمی صفحے کی ادارت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ آئی اے رحمٰن صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک ہوئے۔

بعدازاں فیض احمد فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا اور مظہر علی خان پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ وہ اس زمانے میں پاکستان ٹائمز کے اداریہ لکھنے والی ٹیم میں شامل ہوئے۔

آئی اے رحمٰن واحد مثال ہیں جنہوں نے قلمی صحافت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا مگر پھر قومی اور بین الاقوامی مسائل، کلچر، معیشت اور مزاحمتی تحریکوں پر اتھارٹی بن گئے۔ آئی اے رحمٰن بعد ازاں انسانی حقوق کے محاذ پر سرگرم ہوئے اور اس میں مدارج طے کرتے ہوئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈاکٹر توصیف احمد

ڈاکٹر توصیف احمد طویل عرصے سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور جامعہ اردو میں شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ مختلف اخبارات میں اپنے خیالات کا بھی بھرپور اظہار کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

نسترن رضا Aug 15, 2018 10:56am
اختر بلوچ صاحب آپ کی تحریر بہت عمدہ ہے اور نوجوان نسل کیلئے سبق ہے ۔ بلاشبہ آزادی سجی سجائی نہیں ملتی یہ ایک جہد مسلسل ہے ، قطعہ اراضی اپنے نام ہوجانے کے بعد جدوجہد کے ساتھ ذمہ داریوں میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے،،شکر ہے اس ذات واحد کا کہ جس نے ہمیں موقع دیا کہ ہر سال جشن آزادی منائیں لیکن صرف جشن آزادی منانا کافی نہیں بلکہ وطن سے محبت کا ثبوت دینا بھی ضروری ہے ،اس فرق کو ضرور سمجھیں کہ یوم آزادی پر پُر جوش ہونا اور پورے سال اس آزادی کا احترام اور اس کی بقاء کیلئے محنت و کوشش کرنا دو ٘مختلف باتیں ہیں۔جوش جشن آزادی ضرور بڑھائیں لیکن وطن کی تعمیر کا جذبہ اس سے زیادہ تیزی سے بڑھنا چاہئے ۔۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024