عید الاضحٰی اور ہمارا اجتماعی رویہ
قومیں اپنے اجتماعی رویے سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری سڑکوں پر چلتی ٹریفک، ہمارے پبلک ٹوائلٹس میں صفائی ستھرائی، ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور بس اسٹاپس پر لائن بنانا، دفاتر میں عوام کے ساتھ ہونے والا سلوک، ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ہماری حساسیت، قانون کی پاسداری اور دیگر اجتماعی رویے ہماری پہچان ہیں۔
سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک کمپنی کے تقریباً 100 سے زائد ملازمین بس میں سوار ہونے کے لیے ایک طویل لائن میں کھڑے تھے اور دھیرے دھیرے بس میں سوار ہو رہے تھے، حالانکہ بس کے دروازے پر ایک جمگھٹا لگا کر بھی بس میں سوار ہوا جاسکتا تھا جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔
شدید حبس زدہ گرمی کے باوجود کسی کو ائیر کنڈیشنڈ بس میں جانے کی جلدی نہیں تھی اور تمام لوگ نہایت صبر اور تحمل کے ساتھ مسکراتے ہوئے باری باری بس میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ وہ رویہ ہے جس پر شاید ہی کسی ملک میں قانون سازی ہو کہ بس میں سوار ہونے کے لیے لائن بنانا لازم ہے ورنہ فلاں دفعہ کے تحت مجرم قرار دیا جائے گا۔ دراصل یہ بنیادی اخلاقیات ہیں جو کسی مہذب قوم کا طرہ امتیاز ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیے: ہنزہ:عید قرباں کی وہ روایت جس سے ہر گھر میں گوشت یقینی
کسی قوم کے اجتماعی رویے میں تہذیب اور بلند اخلاقیات اُس وقت منعکس ہوتی ہیں جب شرحِ خواندگی بلندیوں کو چھو رہی ہو اور اساتذہ کی اخلاقیات بھی اعلی درجے کی ہوں۔ بدقسمتی سے تاحال ارضِ پاکستان میں یہ دونوں ہی روبہ زوال ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اجتماعی رویے شرمناک حد تک خراب ہیں۔
- کیا ہم لائن بنا کر بس میں سوار ہوتے ہیں؟
- کیا ہمارے پبلک ٹوائلٹس کی صفائی اطمینان بخش ہے؟
- کیا ہم قانون توڑنا باعثِ فخر نہیں سمجھتے؟
- کیا ہم ہوٹلوں اور گھروں میں کھانا ضائع نہیں کرتے؟
- کیا ہم استاد اور امام کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے؟
- کیا ہم چلتی گاڑی سے سڑک پر کوڑا نہیں پھینکتے؟
- کیا ہم ہارن کا بے جا استعمال نہیں کرتے؟
- کیا ہم بجلی چوری نہیں کرتے؟
- کیا پورا تول ہمارا شعار ہے؟
- کیا ہمیں ملاوٹ سے نفرت ہے؟
جب کسی معاشرے میں اجتماعی رویے خطرناک حد تک بگڑ جائیں تو وہاں اخلاقی زوال شروع ہوجاتا ہے جو جلد یا بدیر مکمل تباہی پر منتج ہوتا ہے۔
آج عید الاضحیٰ کے موقع پر بطورِ مسلمان ہمارے ایک اہم اجتماعی رویے کا امتحان ہورہا ہے، لیکن اس جانب آنے سے پہلے ہم اُس عظیم قربانی کا مختصر سا ذکر کریں گے جس کی یاد میں سنت ابراہیمی کو قیامت تک آنے والے صاحبِ حیثیت مسلمانوں پر واجب قرار دے دیا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رب کے حکم پر اپنے عزیز از جان نو عمر بیٹے کی معصوم آنکھوں پر پٹی باندھی اور انہیں زمین پر لٹا دیا۔ بیٹے کی رگوں میں ابراہیمی لہو تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ آپ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تیز دھار آلہ ننھے بچے کی نرم و نازک گردن پہ چلا کر یہ ثابت کردیا کہ اللہ کی رضا ہی مطلوب و مقصود مومن ہوا کرتی ہے خواہ اس کے لیے اولاد کے گلے پر خنجر ہی کیوں نہ چلانا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے اور اپنے نبی کہ یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ آسمان سے پلک جھپکتے میں جانور نازل ہوا اور آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ لے لی اور قیامت تک کے مسلمان اس وفا اور قربانی کی یاد میں جانور ذبح کرتے رہیں گے۔
مزید پڑھیے: عید قرباں کے منفرد رنگ
عید الاضحٰی کے مبارک موقع پر نمازِ عید کے بعد ملک کے طول و عرض میں قربانیوں کا عمل شروع ہوتا ہے جو 3 دن تک جاری رہتا ہے لیکن قربانی کے جانوروں کی گندگی اور آلائشوں سے تعفن اٹھنے کا سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہتا ہے۔ لوگ اپنے جانوروں کی غلاظتوں کو ذمہ داری سے ٹھکانے لگانے کے بجائے گلی محلے کی نکڑ پر گلنے سڑنے کے لیے ڈال دیتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی و تعفن پھیلتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں اور گلی، محلے، شہر کی خوبصورتی الگ خراب ہوتی ہے۔
یہ ہمارا وہ بدترین اجتماعی رویہ ہے جسے سدھارنے میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کا یہ فرمان بھی ہم پر اثر نہیں کرتا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے‘ جس کا اطلاق انفرادی و اجتماعی صفائی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صفائی ستھرائی پر مامور ادارے و سرکاری ہرکارے جہاں اپنے کام میں سستی کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عوام الناس کی طرف سے بھی صفائی کی انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں حکومت سے صفائی کے اچھے انتظامات کا تقاضا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور عوام کے کردار پر بحث کرتے ہیں کیونکہ اصل میں عوام ہی تبدیلی کا سرچشمہ ہیں۔
اگرچہ بنیادی طور پر یہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی ہی ذمہ داری ہے کہ عید الاضحٰی کے موقع پر صفائی کے انتظامات کو یقینی بنائیں لیکن اس حوالے سے عوام الناس بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
عوام کو چاہیے کہ جس اہتمام سے وہ جانور خریدتے ہیں، اس کی خدمت سیوا کرتے ہیں، قربانی کے لیے قصائی کا بندوبست کرتے ہیں، گوشت بانٹتے اور پکا کے کھاتے کھلاتے ہیں، اسی اہتمام سے قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشوں اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی انتظام کریں۔ سب جانتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کی کوئی چیز ضائع نہیں کی جاتی اور آلائشوں کو مفت میں اٹھا کر لے جانے والے باآسانی مل جاتے ہیں۔ بس آپ کی طرف سے ذمہ داری لینے اور تھوڑی سی کوشش کرنے کی بات ہے۔
مزید پڑھیے: عید قرباں کو اور بھی مزیدار بنائیں
سرکاری اداروں پر نہ رہیں، زندگی کے اور کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں ہم اداروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ذاتی حیثیت میں کوشش کرکے اپنا اور دوسروں کا بھلا کرلیتے ہیں۔ اسی طرح اس حوالے سے بھی انفرادی کوشش کو اپنا فرض جانیں۔
یہ آپ کی گلی، آپ کا محلہ، آپ کا علاقہ اور آپ کا شہر ہے
یہ آپ کا پیارا پاکستان ہے
عید کے موقع پر یہ ایسے ہی صاف ستھرا دکھائی دینا چاہیے جیسے ہمارے گھر خوشی کے موقع پر چمک دمک رہے ہوتے ہیں۔
آئیے عہد کریں کہ ہم اس عید قربان پر صفائی کو یقینی بنائیں گے اور تاحیات ہر عید پر ایسا ہی کریں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی یہی تربیت دیں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں