ایک دن زیارت اور اس کی خاموشی کے ساتھ!
آبشاریں، سبز یا سفید چادر اوڑھے بلند و بالا پہاڑ، لہلہلاتے کھیت کھلیان، نیلگوں جھیلیں، بل کھاتے دریا، بلاشبہ یہ سب قدرتی حسن کی گواہی دیتے ہیں اور آنکھوں کو بھاتے ہیں۔ مگر فطری حُسن کے دیگر ایسے بھی پہلو ہیں، جو اپنی منفرد خوبصورتی کے عجب اور دلکش رنگ پیش کرتے ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسے ہی منفرد رنگ بلوچستان کی سرزمین کو بھی بخشے ہیں لہٰذا سوچا گیا کہ کیوں نہ بلوچستان کی سیر کی جائے۔
ہم نے بلوچستان کی سیر کا آغاز زیارت سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں واقع اپنی قیام گاہ میں گزارے تھے۔ ہم اس تاریخی عمارت اور دیگر مقامات دیکھنے کے لیے چند دوستوں کے ہمراہ کراچی سے زیارت کے لیے صبح 7 بجے روانہ ہوئے اور 10 گھنٹے کے سفر کے بعد کوئٹہ پہنچ گئے۔
کراچی سے کوئٹہ کے سفر میں خوبصورت نظارے آپ کے ہم سفر بن جاتے ہیں اسی لیے تھکن کا زیادہ احساس نہیں ہوتا۔ کوئٹہ میں رات گزارنے کے بعد صبح زیارت کی طرف چل دیے۔ مقامی افراد کے مطابق کوئٹہ سے زیارت ڈھائی سے 3 گھنٹے کاراستہ ہے لیکن سیاحوں کے لیے یہ سفر طویل ہوجاتا ہے اور طوالت کی وجہ وہ نظارے ہیں جو ہر تھوڑی دیر بعد سیاحوں کو ٹھہر کر دیکھنے اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
راستے میں ایک طرف بلند وبالا پہاڑ رعب سے کھڑے تھے، جنہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی فنکار نے اپنے ہاتھوں سے برسوں محنت کرکے ان کی تراش خراش کی ہے۔ پہاڑوں پر دُور دُور تک کوئی سبزہ نظر نہیں آتا لیکن ان پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے آگے جونیپر کے جنگلات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بنجر اور چٹانی پہاڑوں کا جنگلات میں تبدیل ہوجانے کا منظر بلاشبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پہاڑی سلسلہ ختم ہونے کے بعد سیب اور چیری کے باغات نظر آنے لگتے ہیں جو بظاہر سوکھی اور بنجر زمین سے گھرے ہیں۔
چونکہ ہم یہاں پہلی بار آنے والے سیاح تھے لہٰذا ہر نظارے کو قریب سے دیکھنے کی خواہش کی وجہ سے ہم ڈھائی 3 گھنٹوں کے بجائے 4 گھنٹوں میں زیارت پہنچے، لیکن ہمیں اس تاخیر کا بالکل بھی افسوس نہیں۔
زیارت پہنچنے کے بعد سب سے پہلے بانی پاکستان قائد اعظم کی قیام گاہ کی عمارت دیکھنے کا فیصلہ کیا گیا مگر قیام گاہ کے گیٹ پر معمور سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ابھی ایک گھنٹے کے لیے ظہرانے کا وقفہ لیا گیا ہے، آپ 2 بجے کے بعد ریزیڈینسی کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب ہم یہ سوچنے لگے کہ یہ ایک گھنٹہ کہاں گزارا جائے؟ ہمارے مقامی دوست نے رہنمائی کرتے ہوئے اس مشکل کو یہ کہہ کر آسان کردیا کہ زیارت سے آگے پہاڑ کی چوٹی پر ایک خوبصورت پارک بنایا گیا ہے اور اس کے علاوہ بھی آس پاس 3 سے 4 سیاحتی مقامات موجود ہیں، کیوں نہ ان کی سیر کرلی جائے؟
ہم نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور زیارت سے 2، 4 کلومیٹر دُور پہاڑی پر بنے خوبصورت ’فاریسٹ فیملی پارک‘ پہنچ گئے۔ اس پارک میں سایہ دار بیٹھنے کی جگہوں کے علاوہ، واکنگ ٹریک، سرد رات میں الاؤ سے لطف اندوز ہونے کے لیے آگ جلانے کی مخصوص جگہیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس پارک میں سیاحوں کے لیے رات کے قیام کے لیے عارضی آرام گاہیں بھی موجود تھیں۔
پارک میں چاروں طرف چھائی خاموشی اور دھیرے سے چلنے والی ہوا کے سبب جونیپر کے پتوں کی سرسراہٹ ماحول کو ایک خوشنما ماحول بخش رہی تھی۔ پارک کی سیر کے بعد اگلی منزل تھی نرے سر نامی ایک سیاحتی مقام۔ نرے سر پارک سے تقریباً 3 کلومیٹر دُور ہے۔
نرے سر بھی پہاڑ پر واقع ہے جہاں سے نیچے دیکھنے پر چہارسوں پہاڑوں کے درمیان موجود میدانی علاقے میں سیب کے باغات نظر آتے ہیں۔ اس میدانی علاقے میں خروری بابا کا مزار بھی ہے جسے دیکھنے کے لیے سیاح نرے سر سے اتر کر وہاں جاتے ہیں۔
وقت کی کمی کے باعث ہم وہاں تو نہ جاسکے البتہ نرے سر کی دائیں طرف زیزری نامی ایک اور سیاحتی مقام کی طرف چل پڑے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے جونیپر کے جنگلات سے گزرنا پڑتا ہے، نرے سر سے یہاں تک کا فاصلہ آپ 25 سے 30 منٹ میں عبور کرسکتے ہیں۔
زیزری کے سامنے ایک اور پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کوہِ خلفت کہلاتا ہے۔ کوہِ خلفت جونیپر کے جنگلات پر مشتمل ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے، یہ جنگلات مارخور، چیتا، ریچھ، لومڑی اور خرگوش و دیگر جانوروں کا مسکن ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پہاڑوں کے دامن پر واقع آبادی کے لوگ موسمِ سرما میں برف باری کے باعث دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کرجاتے ہیں۔
دلفریب نظاروں کو چھوڑ کر جانے کا دل تو نہیں کررہا تھا لیکن قائد اعظم ریزیڈینسی کے گیٹ پر معمور سیکیورٹی اہلکار کی بات یاد آ رہی تھی کہ 5 بجے ریزیڈینسی کا گیٹ بند ہوجائے گا اور اس کے بعد عمارت میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے ہم وہاں سے ریزینڈنسی کی طرف روانہ ہوگئے اور ٹھیک وقت پر گیٹ پر آ پہنچے۔
اس عمارت کو دیکھنے کے لیے ملک بھر سے عوام کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔ اس دن بھی ہماری طرح کئی لوگ بانی پاکستان کی اس قیام گاہ کو دیکھنے کے لیے یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ اس عمارت کے باہر ہر طرف گھنے اور تناور درخت کھڑے نظر آتے ہیں جو پورے ماحول میں خوشگوار احساس پیدا کررہے تھے۔ ریزیڈینسی کی پہلی منزل پر موجود گیلری سے آس پاس کے بہت ہی خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس قومی ورثے میں ہر ایک نوادرات کو بغور دیکھنے کے بعد ہم نے اپنے میزبان سے دریافت کیا کہ، یہاں اور کون سے سیاحتی مقامات ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے ہمیں 3 سے 4 مقامات کے نام گنوادیے، جن میں چوتیر، سنڈیمن تنگی کے نام بھی شامل تھے۔
اب ہم نے ان سے مذکورہ مقامات کی وجہءِ شہرت پوچھی تو انہوں نے فوراً تمام مقامات کی منظرکشی بیان کرنا شروع کردی۔
میزبان کی باتیں سننے کے بعد ہم دوستوں نے سنڈیمن تنگی جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں جانے کی 2 بڑی وجوہات تھیں، اول تو یہ کہ یہ جگہ زیارت کے بازار سے محض 10 منٹ کی دوری پر واقع ہے، مطلب کافی قریب واقع ہے جبکہ دوسری وجہ تھی وہاں موجود ایک قدرتی چشمہ۔ چنانچہ فطرت کی مزید کاری گیری دیکھنے ہم نے فوراً سنڈیمن تنگی کی راہ لے لی۔
وہاں پہنچنے پر احساس ہوا کہ اگر سنڈیمن تنگی کو دیکھے بغیر زیارت کو الوداع کہا ہوتا اور بعد میں اس جگہ کی تصاویر دیکھی ہوتیں تو دل میں ایک ملال رہ جاتا۔
سنڈیمن تنگی ایک انگریز کے نام سے منسوب مقام ہے جو 2 بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ سا راستہ ہے۔ اس جگہ کے اندر جانے کے لیے لوہے کا ایک پل بنایا گیا ہے۔ ایک لمبے پتھر پر سے پانی نیچے کی طرف آتا ہے اور نیچے ایک بڑا ٹینک بنایا گیا ہے جہاں سے ایک پائپ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے جو پھر زراعت اور گھریلو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
سنڈیمن تنگی کے مناظر کو دیکھنے کے ساتھ ہی زیارت سے واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔
راستے میں دوستوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا مرکزی موضوع یہی رہا کہ زیارت میں اتنے خوبصورت سیاحتی مقامات ہیں لیکن عوام کی اکثریت ان سے بے خبر کیوں ہے؟
زیارت اور آس پاس کے علاقوں کی زمین کافی زرخیز ہے، یہاں سیب، چیری اور آڑو کے باغات موجود ہیں۔ مقامی باغبانوں نے بتایا کہ یہ تمام باغات عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت لگائے ہیں۔
حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اب بھی یہاں ایک بڑا رقبہ خالی پڑا ہوا ہے جس پر باغات لگائے جاسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ حکومت نے بارانی پانی اور برف پگھلنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے تو ہیں لیکن یہاں مزید ڈیمز بنانے کی گنجائش موجود ہے۔
اس کے علاوہ باغات کے لیے باغبانوں نے خود اپنی مدد اپ کے تحت ٹیوب ویل بنائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے باغات کو مناسب مقدار میں پانی فراہم نہیں ہو پارہا ہے، اگر حکومت صنعتی علاقوں کی طرح اس مقام کو بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنٰی کردے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے، یوں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی مل سکیں گے اور ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں بھی آسکیں گی۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وفاقی حکومت بلین ٹری پروگرام میں ان علاقوں کو بھی شامل کرے۔ یہاں پھل دار درخت لگائے جائیں جو ایک طرف سر سبز پاکستان کے قیام میں معاون ثابت ہوسکیں گے تو دوسری طرف ان لوگوں کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔
امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر پر بھی فالو کرسکتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں