بولی وڈ فلموں میں تعصب کی تشہیر: منصوبہ بندی یا محض اتفاق؟
فلم نہ صرف تفریح اور ثقافت کے فروغ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ممالک اور اقوام کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنے اور میل جول بڑھانے کا بھی موقع فراہم کرتی ہے۔ فلم بینی ہر خاص وعام کی دلچسپی کا محور رہی ہے۔ فلم اپنے ناظرین کے ذہنوں پر نمایاں نقش بھی چھوڑ جاتی ہے، اور اس میں دیے پیغام سے فلم بین کسی نہ کسی صورت ضرور متاثر ہوتا ہے۔
ادب کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ (اوپن فار ڈبیٹ) بحث کے لیے کھلا ہوتا ہے اور فلم اس کا ایک ٹول ہے، سو فلم بھی اپنے اندر بیک وقت کئی معانی رکھتی ہے۔ ہر فلم بین اسے اپنے زاویے سے دیکھتا اور اس کی تشریح کرتا ہے۔
فلم بعٖض مرتبہ دو دھاری تلوار کا کام بھی کرتی ہے، جس کا صحیح استعمال معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا جائے تو ایک اچھے اور برداشت والے معاشرے کی تشکیل ہوسکتی ہے لیکن اگر اسی فلم سازی کا استعمال غلط ہاتھوں میں چلا جائے تو عدم برداشت اور منفی سوچ والا معاشرہ جنم لے سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے سائنس بندوق تو بناسکتی ہے لیکن اسے محض حفاظت کے لیے چلانے کا کوئی طریقہ کار وضح نہیں کرتی، اس لیے یہ بندوق چلانے والے پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
دیکھا جائے تو دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت یعنی بھارتی فلم انڈسٹری میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
لیکن اگر اسی فلم انڈسٹری کا ماضی دیکھا جائے تو وہ حال سے کافی مختلف دکھائی دے گا، تقسیم کے بعد وہاں جو اچھے موضوعات پر فلمیں بنیں وہ ایک سیکولر بھارت کی پہچان تھیں۔ ابتدائی عرصے میں بننے والی شاہجہاں، انارکلی، میرے محبوب، بہو بیگم اور ممتاز محل جیسی چند ایک فلموں میں مسلم کرداروں کو قدرے اچھا اور بہتر دکھایا گیا، مگر رفتہ رفتہ ان فلموں میں مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے خلاف منفی اور متعصب رویہ پروان چڑھتا گیا اور فلم سیکولر بھارت کا ایک مسخ شدہ چہرہ بن کر رہ گئی۔
شاید اس کی وجہ ہندو انتہا پسند سیاست اور ووٹ تھا کہ فلم کو تعصب پروان چڑھانے اور ایک پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا گیا۔
ہندوستانی فلمیں ایک عرصے سے نہ صرف بھارت و پاکستان بلکہ پورے خطے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی چلی آ رہی ہیں لیکن کیا وجہ تھی کہ رومانوی اور اچھے موضوعات کی فلمیں بنتے بنتے اچانک ان فلموں کے موضوعات نے پروپیگنڈا کی شکل اختیار کرلی اور تقریباً ہر فلم اپنے اندر چھپا ایک پیغام دینے لگی کہ مسلمان خصوصاً پاکستانی دہشتگرد اور امن کے لیے خطرہ ہے؟ کیوں تقریباً بیشتر فلم مذہب جیسے حساس موضوع کو اور دونوں ریاستوں میں دشمنی کو ہوا دیتے موضوعات کو چھیڑتی نظر آتی ہے؟
کیا بھارتی سینما فساد کو ہوا دے رہا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا انتہا پسندانہ سوچ، یا پھر بولی وڈ کی مجبوری یا فلم سازوں کے بکھرتے خیالات کا مظہر؟
ایسا نہیں کہ تمام فلمیں منفی مسلم کردار دکھاتی ہیں لیکن ایسی فلمیں جن میں مسلم مثبت کرداروں کو دکھایا جاتا ہے اس کا تناسب منفی کرداروں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
فلموں میں مسلم منفی کردار
گزشتہ کئی برسوں سے بھارت میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس عدم برداشت کے پیچھے کئی عوامل میں سے فلم سازی بھی ایک ہے۔ اچھے بُرے انسان ہر قوم میں ہوتے ہیں مگر جب اقلیت کو ہدف بنا کر اسے اسٹیریوٹائیپ بنایا جائے تو یہ اس اقلیت کے لیے کئی دشواریوں کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی طرح فلم میں ذہن سازی کرنے کے لیے ایک ہندو کردار کو بھارت کے ساتھ تشبیہہ دی جاتی ہے اور اسے ایک سیکیولر کردار کے ساتھ دکھایا جاتا ہے جو فلم میں دوسرے مذاہب خصوصاً اسلام اور اسلامی تہذیب کا احترام کرتا دکھائی دیا ہے۔ مثلاً فلم بارڈر میں سنیل شیٹی پاکستان کے بارڈر پر حملے کے نیتجے میں ہونے والی تباہی کے دوران ایک مسلمان کے قرآن مجید کو جلنے سے بچانے کے لیے آگ میں کود جاتا ہے کیونکہ یہ ہندو دھرم کی تعلیم ہے۔ دوسری طرف ایک مسلمان اس کے برعکس ہمیشہ عدم برداشت اور دہشتگردی کی طرف مائل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح فلم گینگ میں 3 کردار اکرم، رنجیت اور فلپ میں سے اتفاق سے اکرم کا کردار منفی اور شیطانی ہوتا ہے۔ فلم میں اکرم اپنے دوستوں کو گینگ بنانے پر اکساتا ہے جبکہ حالات سے مجبور ہونے کے باوجود بھی باقی کرداروں کو جرم سے بے چینی ہوتی ہے اور آخر میں یہی دوست اکرم کو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں۔
فلم ’وینسڈے‘ کی بات کی جائے تو اس میں بھی دہشتگرد ابراہیم، اخلاق، ظہیر اور خورشید لالا معاشرے کے وہ کردار ہیں جن کا صفایا ہونا ضروری ہے، جس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں مسلمان ہی انتہا پسند اور فسادی ہیں جن سے ملک کا صاف ہونا ضروری ہے۔
پہلے تو بھارتی فلموں میں مسلم کردار ٹھگ اور جرائم پیشہ افراد کے طور پر نظر آتے تھے لیکن 9/11 اور 26/11 کے بعد تو جیسے دہشتگردی کا کردار مسلمانوں کے لیے ہی مختص کردیا گیا ہے۔
فلموں میں خاص طور پر عرب لباس کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے، کرمنل کردار کو پیش کرنے کے لیے اکثر و بیشتر عرب عبایا، رومال، بریف کیس کے ساتھ ایک مسلم کردار دکھایا جاتا ہے، اب تو صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فلموں میں یہ حلیہ جرائم پیشہ افراد کے لیے ہی مخصوص کردیا گیا ہے۔
فلم غلام مصطفی اور انگار میں کرداروں کو نمایاں طور پر اس حلیے میں دیکھا جاسکتا ہے، اکثر فلموں میں غنڈوں کے نام مسلمان ناموں پر رکھے جاتے ہیں، مثلاً ظفر سپاری، اسلم بھائی، غنی بھائی، یوسف بھائی، موسیٰ بھائی۔
تیرے نام فلم میں غنڈے شلوار قمیض اور عربی رومال اور ٹوپی پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بے شمار بولی وڈ فلموں میں جرائم پیشہ افراد کو مسلمانوں کے لباس میں دکھایا جاتا ہے، اگرچہ بعض اوقات مسلمانوں جیسا لباس پہننے والے جرائم پیشہ کردار غیر مسلم بھی ہوتے ہیں، تاہم ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے یہ ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ کچھ لباس، مذاہب اور زبانیں جرائم پیشہ افراد کی شناخت ہوتی ہیں، جو حقائق کے خلاف ہے۔
فلم قیامت میں دکھایا جاتا ہے کہ علی، عباس اور لیلیٰ پر مشتمل دہشتگردوں کا گروہ اور ماسٹر مائنڈ پاکستان ملٹری کا بریگیڈیئر راشد کس طرح ہندوستانی حکومت کے خلاف سازش کرتے ہیں۔
اس قسم کی فلموں میں ’انور‘، ’اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘، ’انڈر ورلڈ‘، ’انکاؤنٹر‘ و دیگر شامل ہیں۔
مسلم انڈر ورلڈ کردار
انتہا پسندی کی وجہ سے بولی وڈ فلم سازوں کی نظر میں مسلم ایک نارمل انسان نہیں ہوتا، اسلام ان فلموں کا لازمی پہلو ہوتا ہے جیسے دہشتگردی اسلام کے ساتھ جڑی ہے۔ حاجی مستان، داؤد ابراہیم اور ابو سلیم جیسے کردار ان کی فلموں میں بکتے ہیں، اسی وجہ سے انڈر ورلڈ کا کردار جب بھی آتا ہے تو وہ ایک مسلمان اور اس کا نیٹ ورک پاکستان سے جڑا ہوتا ہے۔
فلم ’گینگسٹر‘، ’دی ڈے‘، ’ونس اپان اے ٹائم اِن ممبئی‘، ’بلیک فرائیڈے‘، ’حسینہ پارکر‘، ’کمپنی‘، ’ڈیڈی‘، ’انسپیکٹر‘، ’راضی‘، ’اڑی‘، ’ایک تھا ٹائیگر‘، ’ٹائیگر زندہ ہے‘ اور ’فینٹم‘ جیسی فلموں کی چند مثالیں ہیں۔ فلم ’وانٹیڈ‘ میں بے رحم او جرم سے جڑے کردار غنی بھائی انڈر ورلڈ ڈان شہر میں تباہی برپا کرتا ہے اور ہر خرابی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
مسلم حکمران اور مسخ شدہ تاریخ
بولی وڈ فلموں کے مطابق ہر وہ مسلم حکمران جس نے ہندوستان پر حکومت کی ہے وہ ظالم، جابر اور ہوس سے بھرپور شخصیت کا مالک تھا یا تو اس کی کردار کشی کی گئی یا اسے ایک گرے ہوئے شخص کے طور پر دکھایا گیا۔ فلم پدماوتی میں علاؤالدین خلجی کا کردار تاریخ کو مسخ کرکے ایک گھناؤنے کردار میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کے کردار کو اپنی ہی ملکہ پر ظلم کرنے والا، غیروں کی خواتین پر نگاہ رکھنے والا اور حکمرانی کے لیے ہر طرح کی عیاری کرنے والا دکھایا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقی تاریخ میں فلم میں پیش کیے گئے قصے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
فلم تلاش میں ایک کردار تیمور کا ہوتا ہے، جس کو لنگڑا دکھایا جاتا ہے اور وہ بازارِ حسن میں کام کرتا ہے، کیا تیمور کا یہ کردار اتفاقی تھا یا اسے تیمور لنگ حکمران کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے؟ وہی تیمور لنگ جس نے ہندوستان کے بادشاہوں کو شکست دی اور ان پر حکمرانی کرتا رہا۔
گانوں میں اسلامی کلمات
مجھے پیار ہوا اللہ میاں
رب سے پردہ کیجیے، کہیں چرا نہ لے چہرے کا نور
ماشاءاللہ، ماشاءاللہ چہرا ہے ماشاءاللہ
سبحان اللہ، سبحان اللہ، شرم و حیا کے پردے گرا کے کرنی ہے ہم کو خطا
آئٹم سانگز میں آئٹم گرلز کے نام
لیلیٰ میں لیلیٰ، ایسی میں لیلیٰ
لیلیٰ تجھے ٹھگ لے گی
شیلا کی جوانی
رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی
انارکلی ڈسکو چلی
ثریا جان لے گی کیا
مسلم کلچر کی شکل مسخ کرنا اور لباس
بولی وڈ فلموں میں بادشاہوں، نوابوں سے لے کر روزمرہ کے کرداروں، ٹھگوں، غنڈوں اور دہشتگردوں تک تقریباً ہر جرائم پیشہ افراد کو منظم طریقے سے ایک مسلم کی طرح دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ تر فلموں میں مسلم کردار عیاش اور عورتوں کا دلدادہ، چھیڑخانی کرنے والا، بازاری اور پیسے لٹاتا ہوا نظر آتا ہے، مثلاً فلم ’پاکیزہ‘، ’نکاح‘، ’بازار‘، ’میرے حضور‘ جیسی فلموں میں ایسے کردار دیکھے جاسکتے ہیں۔
فلم چاندنی بار میں جب ممتاز نامی ایک لڑکی کی فیملی فسادات میں ماری جاتی ہے تو وہ اپنے چچا کے پاس چلے جاتی ہے جو اسے پناہ دینے کے بدلے اسے بار ڈانسر بناتا ہے اور پھر اس کا ریپ کرتا ہے۔
اسی طرح بولی وڈ فلموں میں زیادہ تر شلوار قمیص، رومال، عورت کا دوپٹہ، تسبیح، داڑھی، ٹوپی، آنکھوں میں سرمہ ہمیشہ منفی کرداروں کے حلیے اور لباس کا خاصہ ہوتا ہے۔
مسلم عورت
اتفاق سے ہر بین المذاہب رومانوی فلم میں ہیروئن کا کردار مسلم عورت کا ہوتا ہے اور ہیرو ایک ہندو ہوتا ہے جو کہ حقیقت تو ہوسکتا ہے لیکن اصول نہیں۔ یہاں تک کہ ایک لڑکی شادی کرنے کے لیے ڈھونگ بھی کرتی ہے، جیسے فلم رانجھنا میں زویا نامی لڑکی ایک سکھ سے شادی کرنے کے لیے اسے مسلمان بننے کا ڈھونگ کرواتی ہے۔ فلم ایک تھا ٹائیگر ہو یا بمبئی مسلم لڑکی کا ہندو لڑکے سے ہی افیئر ہوتا ہے، تاہم کئی فلموں میں ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے کی محبت کو بھی دکھایا جاتا ہے، تاہم ایسی فلموں میں منظم انداز میں مسلمان کردار کو ہی کسی نہ کسی طرح کمزور، کم ظرف یا بے وفا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اقلیتی مسلمان
بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور بھارتی فلموں میں مسلم کرداروں کو اگر منفی نہیں بھی دکھایا جاتا تو ان کا کردار ایک کمتر درجے کا پیش کیا جاتا ہے، جیسے نوکر، ملازم، آفس بوائے، کانسٹیبل یا سوئیپر وغیرہ، جیسے فلم منا بھائی ایم بی بی ایس میں ایک سوئیپر کے کردار کو مقصود کا نام دیا جاتا ہے۔
اسلام مخالف فلسفہ/مسلمان امن کے لیے خطرہ
اسلام مخالف فلسفہ اب اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ بولی وڈ فلموں میں تمام دہشتگرد مسلمان ہی ہوتے ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہوں گے، تعویذ پہنے، تسبیح، داڑھی والے، خیرات بھی کرتے ہوں گے، درگاہوں پر چادر بھی چڑھاتے ہوں گے مگرحقیقت میں وہ عورتوں اور بچیوں کی خرید و فروخت کرنے، ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور انڈیا کو تباہ کرنے کے درپے بدکردار ہوں گے۔ جیسے فلم اگنی پتھ میں ایک بظاہر نیک کردار رؤف لالا کا ہوتا ہے جو ہر اسلامی احکامات کی پاسداری کرتا ہے مگر اس کا اصل کاروبار ڈرگز اور عورتوں اور بچیوں کی خریدو فروخت ہوتا ہے۔ اسی طرح زیادہ تر فلموں میں تمام دہشتگردوں اور کرمنلز کا کلام السلام علیکم، خدا حافط، انشاءاللہ، ماشاءاللہ ہوتا ہے۔
پاکستان
70ء کی دہائی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں دشمنی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہوگیا۔ بولی وڈ اسی انتہا پسند سیاسی اثر کے تحت پاکستان کو اپنا ازلی دشمن ظاہر کرنے پر تلا ہے، اسی طرح متعدد فلموں میں بھارت میں ہونے والی ہر دہشگردی کے پیچھے پاکستان یا ان کے خفیہ اداروں کو ملوث دکھایا جاتا ہے۔ ممبئی بلاسٹ ہو یا ہندو مسلم گجرات فسادات یا پھر انڈین پارلیمنٹ پر حملہ تقریباً ایسے تمام واقعات میں مسلمانوں اور پاکستان کو ملوث دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
فلم ایجنٹ ونود میں ایک پاکستانی ادارے کو دہشگردی کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، بولی وڈ میں اکثر و بیشتر کشمیری حریت پسند دہشت گرد اور پاکستانی سہولت کار ہوتا ہے۔ فلم دل جلے میں پاکستان آرمی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے جو کہ انڈیا میں دہشتگردوں کو فنڈنگ کرتی ہے اور جب مشن مکمل ہوجائے تو اپنے ہی لوگوں کو مروا دیتی ہے۔ اسی طرح فلم بے بی میں ہونے والی دہشتگردی کا تعلق پاکستان سے جوڑا جاتا ہے۔ مشن کشمیر، راجا، قربان، سرفروش، یہ دل عاشقانہ اور غدر بھی اس نفسیات کی چند مثالیں ہیں۔
اسی تناظر میں بننے والی فلم بارڈر نہایت نفرت انگیزی پر مبنی ہے، جس میں انڈین آرمی کو ہیرو دکھایا جاتا ہے حالانکہ مانا جاتا ہے کہ بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہونے والے اندرونی معاملے میں ایک چھپے دشمن کا کردار ادا کیا تھا۔
تجویز
جس طرح پہلے بھی کہا گیا ہے کہ اچھے بُرے انسان ہر قوم میں ہوتے ہیں مگر جب مسلسل ایک خاص اقلیتی طبقے کو ٹارگٹ بنا کر اسے غلط انداز میں پیش کیا جائے اور انہیں صرف منفی کرداروں سے منسوب کیا جائے تو اس اقلیت کے لیے کئی دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
مسلمان بھارت میں اقلیت ہونے کے باوجود ایک بڑی آبادی رکھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہندو کرداروں کو منفی کردار دیے جاتے ہیں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور انہیں کوئی خطرہ بھی نہیں ہوگا لیکن ایک اقلیت اگر مسلسل نشانہ بنے گی تو ان کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
اگر فلم ساز تھوڑا شعور سے کام لیں اور ایک متوازن اور صحتمند انداز سے فلم سازی کریں تو مسلم اقلیت میں پھیلے اس خوف کو کم کیا جاسکتا ہے، اور باہمی بھائی چارہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک اچھی فلم سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی کشیدگی کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے فلم ساز اگر اس بہتری کے عمل میں اپنا کردار ادا کریں تو دونوں طرف صحتمند معاشروں کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں