ایک صدی میں داخل ہونے والے ضعیف العمر سکھر بیراج کی کہانی
دریا تہذیبوں کے خالق ہوتے ہیں، مصر، روم، فارس، یونان سے لے کر وادئ سندھ کی قدیم تہذیب کے پیچھے دریاؤں کے ہی کمالات ہیں، کاروبار، تجارت، زراعت اور اس پر کھڑی معیشت ان دریاؤں کے ہی دم سے ہے۔
سبط حسن اپنی کتاب ’ماضی کے مزار‘ میں لکھتے ہیں کہ وادئ دجلہ و فرات میں کھیتی باڑی کی ابتدا 7 ہزار سال قبلِ مسیح میں ہوئی۔ ابتدا میں خوراک کی ضروریات، پھر آمدنی اور وقت کے ساتھ ساتھ معیشت، یہ سب زراعت کے ساتھ پانیوں سے جڑی ہیں، ان تمام ضروریات کو دیکھ کر ہی آبپاشی نظام کی ترقی پر غور و غوص ہونا شروع ہوا۔
تحقیقات، ایجادات اور تعمیرات کے نتائج انقلاب کی صورت میں سامنے آتے ہیں، جس کے اثرات برسا برس بلکہ صدیوں تک دیکھے جا سکتے ہیں، پھر وہ انقلاب سائنسی ہو، معاشی ہو یا زرعی۔ اس انقلاب کے پسِ پردہ کارفرما انتھک محنت اور جدوجہد کا ہم میں سے کچھ لوگوں کو ہی علم ہوتا ہے حالانکہ وہ ایک تاریخ ہوتی ہے۔ ان انقلابی تبدیلیوں کے پس منظر میں ہونے والی کوششیں،کاوشیں، محنت اور لگن کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک اس کا پھل نہ ملے۔
آبپاشی کا پہلا مربوط نظام چین کے شہر سیچوان میں دیوجانگانا اریگیشن نظام کو کہا جاتا ہے جو 256 قبلِ مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی طرح شام کا کوانٹینہ بیراج 1309 سے 1304 قبل مسیح میں بنایا گیا۔ اسپین کے پروسپیرنا اور کورناویلا ڈیم پہلی صدی کی تعمیرات ہیں، اسی طرح جاپان اور ہندوستان میں بھی صدیون پرانے ڈیم آج تک نہ صرف موجود ہیں بلکہ کارآمد بھی ہیں۔
پاکستان میں نہری پانی کا سب سے بڑا آبپاشی نظام سکھر بیراج کو کہا جاتا ہے، 66 دروازوں والا یہ بیراج اپنی عمر کے 87 برس پورے کر چکا ہے، یعنی بیراج اپنی پلاٹینم جوبلی آج سے 12 برس پہلے منا چکا ہے، یہ بیراج پون صدی سے گذر کر اب ایک صدی کے سفر پر رواں دواں ہے۔
1923ء میں رائج برطانوی راج کے وقت کنگ جارج پنجم انڈیا یعنی برِصغیر کے بادشاہ تھے، اس دور کے بمبئی کے گورنر جارج لائیڈ نے 24 اکتوبر 1923ء کو اس بیراج کا سنگِ بنیاد رکھا۔ 66 دورازوں والے اس بیراج کی تعمیر 9 برس کے قلیل عرصے میں اپنی تکمیل کو پہنچی۔ 13 جنوری 1932ء کو اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ولنگڈن نے اس زرعی انقلابی منصوبے کا افتتاح کیا۔
87 برس کی ضعیف العمری کے باوجود یہ بیراج آج بھی دریائے سندھ کے مست، سرکش اور آوارہ سیلابی ریلوں کو اپنے کمزور، ڈھیلے ڈھالے، زنگ زدہ 55 دروازوں کی چوکھٹ پر ایک لمحے کے لیے روک کر، اس مستی کو دھیما کرکے ایک حد تک ضابطے میں لاتا ہے، پھر ایک منظم انداز میں اپنے دروازوں سے گزار کر آگے کا راستہ دکھاتا ہے۔
میں 66 دروازوں والے اس بیراج کے 55 دروازوں کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ بیراج بننے کے کچھ برسوں بعد اس وقت کی سرکار نے 9 دروازے فنی بنیادوں پر بند کردیے تھے، 6 دروازے اس وقت بھی خراب ہیں اس کا ذکر آگے کرتے ہیں۔
سکھر بیراج کی بظاہر عمر تو 87 برس ہے لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس کو بنانے کے لیے پالیسی سازی، منصوبہ بندی، حکمت عملی، محنت اور کوششیں پھر تعمیر اور تکمیل اور آج تک اس سے فراہمی آب اور ارض وطن کو سیراب کرنے کا وقت 3 صدیوں پر محیط ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ 19ویں صدی میں دریائے سندھ پر اسی جگہ ڈیم یا بیراج بنانے کے لیے اس وقت کی سرکار نے سوچنا شروع کیا اور کئی اقدامات بھی اٹھائے گئے، پھر 20ویں صدی میں یہ بیراج شروع اور مکمل ہوا، اب 21ویں صدی میں یہ بیراج 80 لاکھ ایکڑ سے زائد کے رقبے کو پانی فراہم کر رہا ہے۔
1843ء میں دوبے کے مقام پر انگریزی فوج نے تالپور حکمرانوں کو شکست دے کر سندھ کو فتح کیا، چارلس نیپئر کو سندھ کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا اور کراچی کو دارالخلافہ بنایا گیا۔ 3 برس بعد 1847ء میں برطانوی حکومت کی منظوری سے سندھ کی علیحدہ وطن کی حیثیت ختم ہوئی، انگریز نے گورنر راج کے خاتمے کے ساتھ سندھ کو بمبئی سے ملا دیا۔
انگریز نے سندھ کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد اس کی زراعت اور آبپاشی کو للچائی نظروں سے دیکھنا شروع کیا، کیونکہ ایک طرف دریاؤں کا بادشاہ دریائے سندھ یہاں بہتا تھا اور دوسری طرف سونا اگلنے والی سندھ کی ذرخیز مٹی تھی۔ انگریز سرکار نے شروعاتی برسوں میں دریائے سندھ کے پانی کی منتقلی، کینالوں کا جائزہ لینا، زراعت کی ترقی اور آبی منصوبوں پر کام کرنا شروع کیا۔
انگریز سے پہلے بھی سندھ میں کاشتکاری، آبپاشی اور زراعت کا نظام موجود تھا۔ کچھ محققین کا ماننا ہے کہ زراعت کو ترقی دلوانے کے لیے دریائے سندھ سے کینال نکالنے کا کام سمہ حکمرانی سے شروع ہوا۔ جام نظام عرف جام نندو کے وزیراعظم دولہہ دریا خان نے ٹھٹہ کے قریب خانواہ اور سہون کے قریب ساوہ کینال بنوائے، کلہوڑا بادشاہی میں بھی کوئی 10 کینال نکالے گئے، جن میں پران، نارا، گھونی، نجاری، گونگڑو، لکھی، سیتا، بگھاڑ، امرکس، نصرت اور سرفراز کینال شامل ہیں۔ جن میں سے چند کینال آج بھی قائم و دائم ہیں جبکہ کچھ کے اثرات اور کھنڈرات اب بھی باقی ہیں۔ تالپور دورِ حکمرانی میں باگو واہ، میرواہ اور کھورواہ جیسے کینال اور آرٹریز بنیں۔
معروف محقق اور تاریخدان ایچ ٹی سورلے نے اپنی تصنیف سندھ گزیٹئر کے ذریعے سندھ کی تاریخ، ارضیات، حیوانات، نباتات، زراعت، تعلیم، امن و امان، سماجی بہبود اور انتظامات کے ساتھ سندھ کے قدیم آبپاشی نظام پر کافی کچھ لکھا ہے۔ اپنی تصنیف کے صفحہ نمبر 14 پر وہ لکھتے ہیں کہ نوابشاہ کا نور واہ (کینال) کلہوڑا دور سے بھی پہلے کی تعمیر ہے، حالانکہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ نور واہ میاں نور محمد کے دور میں بنا۔ سورلے آگے لکھتے ہیں کہ ’سندھ 3 ہزار قبلِ مسیح میں بھی زرعی اعتبار سے مالا مال تھا وہی زراعت معاشی طور پر موئن جو دڑو اور ہڑپہ کو مضبوط کیے ہوئی تھی۔‘ اس سے مراد اس وقت بھی کوئی آبپاشی کا نظام موجود ہوگا۔
1843ء میں انگریز دور میں سب سے پہلے والٹر اسکاٹ کی سربراہی میں شعبہ کینالز قائم ہوا، لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ ختم ہوگیا۔ ایچ ٹی سورلے نے سندھ گزیٹئر میں لکھا ہے کہ انگریز آبپاشی انجنئیر فائیف آر ای نے 1855ء میں سندھ کے آبپاشی نظام کو بہتر کرنے کے لیے اپنی سرکار کے پاس ایک جامع رپورٹ پیش کی کہ صوبے نے ایک برس میں آبپاشی نظام کی خامیوں کی وجہ سے 31 لاکھ ضائع کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں دریا سے 4 کینال نکالنے کی سفارش بھی کی گئی کہ پہلا کینال روہڑی کے پاس سے، دوسرا سکھر، پھر دو کینال جھرک کے نزدیک سے نکالے جائیں۔ یہ وہی جنرل فائیف ہیں جن کو سندھ کے ایک مایہ ناز زرعی ماہر، محقق اور تاریخدان ایم ایچ پنہور سندھ کے فادر آف اریگیشن سسٹم آف سندھ مانتے ہیں۔
1932ء میں تعمیر ہونے والے سکھر بیراج سے 7 بڑے کینال نکلتے ہیں۔ بائیں کنارے سے نارا کینال، میرواہی کینال، روہڑی کینال، ابو واہ، جبکہ دائیں طرف سے دادو کینال، رائس کینال اور بلوچستان کو پانی فراہم کرنے والا کھیرتھر کینال شامل ہے۔
بائیں طرف سے نکلے 4 کینال اور ان سے نکلتی آرٹریز سندھ کے 12 اضلاع سکھر، خیرپور، نوشہرو فیروز، نوابشاہ، سانگھڑ، میرپورخاص، بدین، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہیار اور تھرپارکر تک زمین کو سیراب کرتی ہیں، جبکہ دائیں طرف کے 3 کینال شکارپور، لاڑکانہ، قمبر- شھدادکوٹ اور دادو کی زمینوں کو آباد کرتے ہیں اور کھیرتھر کینال بلوچستان کے ضلع ڈیرہ مراد جمالی کو سیراب کرتا ہے۔
یہ جو بیراج کی صورت میں ہمیں زرعی انقلاب کا سامان نظر آتا ہے اس کے پیچھے اس وقت کی سرکار نے جو بھی محنت کی ہے اس کو جناب ایم ایچ پنہور نے اپنی کتاب میں مفصل انداز میں بیان کیا ہے، ان کی کتاب Six thousand years of history of irrigation of Sindh سندھ کے آبپاشی نظام پر ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب کے 32 ویں باب میں سندھ کے نظامِ آبپاشی کی بہتری اور سکھر بیراج کے کوششوں کے حوالے سے تمام تر تفاصیل موجود ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’1846ء میں لیفٹینٹ کرنل والٹر اسکاٹ نے دریائے سندھ پر سکھر کے مقام پر آبپاشی مقاصد کے لیے ڈیم بنانے کی تجویز دی، اسکاٹ کی یہ تجویز اس بنیاد پر رد ہوئی کہ دریائے سندھ رخ تبدیل کرسکتا ہے۔ پھر 1855ء میں جے جی فائیف نے ’اسکیچ آف اریگیشن ان سندھ‘ کے نام سے ایک رپورٹ تیار کرکے دریائے سندھ سے پانچ نئے کینال نکالنے کی تجویز دی۔ 1857ء میں انڈین کورٹ نے اس رپورٹ کو نامکمل قرار دیا۔ ایک سال بعد یعنی 1858ء میں جے جی فائیف نے ایک اور رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے بیان کیا کہ آبپاشی مقاصد کے لیے دریا سے 1426 کیوسکس گنجائش رکھنے والا ایک مستقل (پیرینئل) کینال نکالا جائے۔ یہ تجویز جب اس وقت کے کمشنر بارٹل فیرئیر کو ملی تو انہوں نے اسے انڈین سرکار کو بھیج دی، لیکن 7 برس تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ 1866ء میں اس وقت کے انسپیکٹر جنرل اریگیشن کرنل اسٹراکی نے سندھ کا دورہ کیا تو انہوں نے پرینئل کینالز کی ضرورت کو محسوس کیا۔ ایک سال بعد اس اسکیم کو منظور کرکے جے جی فائیف کو اس منصوبے کا ازسر نو جائزہ لینے کا کہا گیا۔‘
ایم ایچ پنہور اسی باب میں لکھتے ہیں کہ ’1871ء میں انگریز سرکار نے سندھ ٹرپل پراجیکٹ کی تجویز دی۔ یہ اصل میں وہی منصوبہ تھا جس کو آگے چل کر سکھر، گڈو اور کوٹری بیراج کی صورت میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ 1872ء میں تب کے وائسرائے لارڈ نارتھ بروک نے سندھ کا دورہ کیا۔ 1895ء میں جنرل فائیف نے سندھ میں الگ چیف انجنئیر لگانے کی تجویز دی۔ ان ہی برسوں میں سندھ میں آبپاشی نظام کی بہتری کے حوالے سے بیراج، ڈیمز اور کینال بنانے کی کئی تجاویز تھیں جن پر بحث مباحثے چلتے رہے۔ 1901ء میں لارڈ کرزن نے انڈس ایریگیشن کمیشن بنایا جس نے سب سے اہم فیصلہ یہ کیا کہ سندھ کی منظوری کے بغیر دریائے سندھ کا پانی کہیں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔
14 برس بعد 1915ء میں مسٹر اے اے مسٹو کو سندھ بھیجا گیا کہ مستقل کینال کے منصوبے کو سکھر بیراج کا نام دیا جائے۔ یہ آبپاشی انجنئیر اور آرکیٹکٹ تھے۔ اس کو بیراج بنانے کا اصولی فیصلہ کرنے کے بعد سکھر بھیجا گیا۔ 16 دسمبر 1918ء کو بمبئی میں مسٹر جارج امبروز لائیڈ نئے گورنر مقرر ہوئے، انہوں نے 1919ء کو سندھ کا دورہ کیا۔ پھر 1920ء میں آئے، ان کا تیسرا دورہ 1921ء میں ہوا۔ ان کے یہ تمام تر دورے سکھر بیراج میں ان کی دلچسپی کا مظہر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے ایک سال بعد اس بیراج کی بحثیت گورنر جنرل منظوری دے کر انڈین سرکار کو سفارش بھی بھیج دی تھی۔ اپریل 1923ء کو سکھر بیراج کے اس عظیم الشان منصوبے کی باضابطہ طور پر منظوری دی گئی اور اسی سال 24 اکتوبر 1923ء کو اس منصوبے کا گورنر لائیڈ نے سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ تاریخ ایک تصویر میں بھی درج ہے جو بیراج کے میوزم میں آویزاں ہے۔ گورنر بمبئی جارج امبروز لائیڈ کی دلچسپی اور کاوشوں کو دیکھتے ہوئے 1923ء میں ہی سکھر میونسپلٹی نے متفقہ قرارداد منظور کرکے اس بیراج کا نام گورنر آف ممبئی جارج امبروز لائیڈ کے نام سے منسوب کیا۔ 50 برس بعد اس کا نام تبدیل کرکے سکھر رکھا گیا لیکن نام تبدیل کرنے سے خدمات تبدیل نہیں ہوتیں، لوگ آج بھی سکھر کے بیراج کو لائیڈ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔‘
سکھر بیراج کے سرکاری دستاویز اور بروشر میں اس منصوبے کی لاگت بتائی گئی وہ 20 کروڑ روپے بنتی ہے، لیکن اس حوالے سے مفصل بیان ایم ایچ پنہور کی کتاب میں ہے، یہ 1932ء کی بات ہے، اس منصوبے پر کل 15 کروڑ پاؤنڈ کی لاگت آئی، اس میں بیراج اور ہیڈ ورکس پر لاگت 43 لاکھ پاؤنڈ یعنی 5 کروڑ 58 لاکھ 97 ہزار روپے ہے۔ بیراج کے تمام ساتوں کینالز کے لمبائی چھ ہزار 473 میل ہے۔47 ہزار میل کے فاصلے پر محیط واٹر کورس بنائے گئے۔ کینالز کی کھدائی پر 46 ڈرلنگ مشینز لگائی گئیں جس پر ایک کروڑ 66 لاکھ 60 ہزار روپے، مشینری اور افرادی قوت پر کل خرچہ 4 کروڑ 53 لاکھ 33 ہزار روپے آیا۔
یہاں تک بات تھی بیراج کی تعمیر کے حوالے سے تاریخی کوششوں کی، اب اس بیراج کی سیر بھی کرلیتے ہیں۔ بیراج پر لگے ایک دروازے کا وزن 40 ٹن ہے، جبکہ دروازے کے اوپر سیمنٹ کے بنے کاؤنٹرویٹ 80، 80 ٹن کے ہیں، دورازے کو اوپر اٹھانے کے لیے کاؤنٹر ویٹ کو نیچے لانا پڑتا ہے۔ مشینوں کے ذریعے ایک دروازہ 8 منٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ کام ہاتھ سے کیا جائے تو 50 منٹ درکار ہوتے ہیں۔
ہم سکھر بیراج کے اوپر اس حصے پر تھے جہاں پانی کے دباؤ سے دروازوں کو اوپر اٹھانے اور نیچے گرانے کے لیے کرینز،جنریٹر اور دوسری مشینری لگی ہوئی ہے۔ اب تو اس مشینری اور بیراج کے دروازے اٹھانے والی زنجیر کو بھی زنگ لگ چکا، یہ مشینری اس تیز رفتار سے کام بھی نہیں کرتی لیکن پھر بھی ضروت پڑنے پر کام چلا لیا جاتا ہے۔ اس مشینری، جنریٹر اور کرینز پر مینوفیکچرنگ کی تاریخ، کمپنی کے نام اور تمام تفصیل درج ہے۔ بیراج کی یہ مشینری رینسم اینڈ آئی پی اس وچ رپیئر لمٹیڈ کمپنی انگلینڈ کی تیارہ کردہ ہے جس پر 1929ء کا سال لکھا ہوا ہے۔
حکمرانوں اور افسران بالا کو بیراج کا دورہ کروانے کے لیے اسی برس ایک چھوٹی سی ریل گاڑی بھی منگوائی گئی تھی۔ ہمیں بیراج کے ملازم نے بتایا کہ بڑے اور آرمدہ جہازوں میں سفر کرنے والے تمام حکمران اس ٹرین کی سواری کر چکے ہیں۔ یہ ٹرین بیراج کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چلتی تھی جو اب خراب ہوچکی ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک تمام وزراعظم، جنرل ایوب خان سے آصف علی زرداری تک ملک کے تمام صدور اس ٹرین پر سوار ہوچکے ہیں۔ اب تو آبپاشی افسران کی مہربانی سے اس چھوٹی بیراج ٹرین کے انجن کی بیٹری تک نکالی جا چکی ہے۔ اب تو انجن کی انجن موٹر بھی خراب ہے۔
ہم بھی ٹرین کا آسرا ترک کرتے ہوئے میوزیم دیکھنے پیدل چل دیے۔ اس میوزیم میں سکھر بیراج کا پورا ماڈل، اسٹرکچر، وہ پتھر، ریتی، بجری، سیمنٹ اور وہ تمام مٹریل رکھا ہوا جس سے یہ بیراج بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک کمرے میں وہ مشینری جس میں اسٹون کریشر، بلڈوزر، لیتھ مشین، لوہا پگھلانے والی مشین، یہاں تک کہ اس وقت کی سرکاری خط و کتابت کے لیے ٹائپ رائیٹر اور فوٹو کاپئیر جسے سائکلو اسٹایل مشین کہا جاتا ہے اس کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔
اسی میوزیم میں بیراج کے معمار، آرکیٹکچر آرنالڈ البرٹ مسٹو، بیراج کی سفارش کرنے اور منظوری دینے والے گورنر جارج امبروز لائیڈ اور بیراج کی تکمیل کے بعد اس کا افتتاح کرنے والے گورنر اور وائسرائے لارڈ ولنگڈن اور بانی پاکستان کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ یہ میوزیم ای این ای کمپنی نے گوٹھ سدھار سنگت کے تعاون سے بنایا تھا جس میں ایک کنسلٹنٹ سندھ کا سپوت مومن بلو بھی تھا جس نے دن رات محنت کرکے چیزیں سمیٹیں اور اس میوزیم پر اہلکاروں کا قبضہ چھڑوانے کے ساتھ اس کو ایسا کردیا کہ اب سکھر گھومنے والے اس جگہ پر گھومنے ضرور جاتے ہیں۔
اب اس تاریخی اور زرعی انقلاب کے عظیم منصوبے کو درپیش خطرات پر بھی بات ہونی چاہیے، کیونکہ حال ہی میں پارلیامنٹ کی ایک کمیٹی میں فلڈ کمیشن آف پاکستان نے جون جولائی میں پاکستان میں بڑے سیلابوں کا خدشا ظاہر کیا ہے۔ یہ بیراج بننے کے بعد کئی سیلاب دیکھ چکا ہے، مجھے آبپاشی ماہر نور محمد بلوچ بتا رہے تھے کہ سب سے پہلے 1971ء کا سیلاب آیا، پھر بالترتیب 2015،2010،2005 ،1995 ،1988،1976 کے سیلاب آئے اور اس بیراج کو کمزور کرتے چلے گئے۔ بیراج جب کمزور ہوتے ہیں تو سب سے پہلی ترجیح نئے بیرا ج بنانے کی ہوتی ہے لیکن سندھ کی زراعت کی ریڑھ کی اس ہڈی کی مانند بیراج کی مرمت کرانے میں بھی ہمیشہ ’چونکہ، چناچہ’ والا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ملک کے باقی بیراج بھی ہیں، جن میں سے سلمانکی، پجند، ترموہ اور جناح بیراج کو از سر نو تعمیر کیا گیا یا مکمل مرمت کرکے نیا کردیا گیا ہے جبکہ تونسہ کا کام بھی تقریباً مکمل ہوا چاہتا ہے۔
سابق سیکریٹری آبپاشی سندھ ادریس راجپوت نے بتایا کہ سکھر بیراج کی مرمت تو اپنی جگہ لیکن اب ایک نئے بیراج کی بھی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیراج کے 5 دروازے خراب ہیں، یہ ہی بات چیف انجنئیر شفقت ودھو بھی مانتے ہیں، کہ بیراج کے 6 دروازے کی تبدیلی ممکن ہے اور اس منصوبے کے لیے عالمی بینک نے مدد دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس میں سے 6 دروازوں کا پی سی ون منظور ہوچکا ہے لیکن ٹینڈرنگ اور ڈاکیومینٹیشن کے کئی مراحل ابھی باقی ہیں۔
خود سندھ حکومت نے سکھر بیراج کی مرمت کے حوالے سے جو جانچ کروائی تھی اس میں بھی بیراج کو کئی خطرات لاحق ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے، یہ بات طے ہے کہ سیلاب کی صورت میں کمزور دروازے پانی کا بڑا سیلابی ریلا گزارنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، 2010ء میں 12 لاکھ کیوسک کا ریلا اس بیراج کو بڑا جھٹکا دے چکا ہے۔ اس کے ساتھ بیراج کے دونوں اطراف میں کناروں کے ساتھ کینالوں سے آگے قائم تالابوں میں مٹی کا بھرجانا خود خطرے کی نشاندہی ہے۔
کینالوں میں مٹی بھرچکی ہے، بیراج کے اندر بائیں کنارے کے ایک دروازے کے نزدیک گہرا گڑھا پڑ چکا ہے جسے عارضی طور پر بھرا گیا تھا۔ اس جانچ پڑتال میں مانا گیا ہے کہ بیراج آپریشن اور الیکٹرانک مشینری کا ناکارہ بن جانا بھی ایک خطرہ ہے۔ اس وقت اس بیراج سے پانی گزرنے کی گنجائش 9 لاکھ کیوسک ہے۔ بیراج کے پلرز میں تو کریک پہلے بھی پڑے تھے پھر 1949ء میں مسٹر مسٹو نے خود آکر اس کا جائزہ لیا اور کنکریٹ کے ساتھ ان کریکس کو بھر لیا گیا تھا۔ سکھر بیراج کا دروازہ نمبر 31 بیراج کی گولڈن جوبلی کے وقت گرپڑا تھا، جس کو ہنگامی بنیادوں پر مرمت کرکے لگایا گیا اور بڑے نقصان سے بیراج کو بچایا گیا۔2004ء میں بیراج کے دائیں طرف سے ایک 60 فٹ لمبا اور 40 فٹ چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا جس کی ہنگامی بنیادوں پر مرمت کی گئی اور ایف ڈبلیو نے 80 کروڑ روپے کی لاگت سے وہ گڑھا بند کردیا۔
سندھ حکومت کے سرکاری دفاتر میں ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل تک جاتے فائلز سے لگتا نہیں کہ اس عظیم اور سندھ کی زرعی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند سکھر بیراج کی مرمت کا منصوبہ اس سال بھی مکمل ہو، کیونکہ سرکاری افسران بتا رہے ہیں کہ ابھی تو صرف 6 دروازے تبدیل کرنے کے لیے کنسلٹنٹ نامزد ہوئے ہیں، ٹینڈرنگ ہونا ابھی باقی ہے۔ وہ بھی ہوجائے پھر بھی باقی ڈاکیومینٹیشن اور دیگر سرکاری لوازمات کے ساتھ سرکاری سستی کے کئی مراحل ہیں، پھر فلڈ کمیشن نے اس برس بھی بڑے سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا ہے اگر اس بار 12 لاکھ کیوسکس کا ریلہ آیا تو اس ضعیف بیراج کا کیا بنے گا؟
ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں