• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

'مشرقِ وسطیٰ میں بڑھکنے والی آگ کئی براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے‘

شائع June 15, 2019 اپ ڈیٹ October 12, 2019

پورے مشرقِ وسطیٰ میں 2 سب سے اہم ترین مقامات آبنائے ہرمز اور باب المندب ہیں۔ جمعرات کو انہی 2 میں سے ایک مقام پر 2 آئل ٹینکروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اگر یہ ایک منظم حملہ ہوا ہے تو اس کی چنگاریاں تمام مشرقِ وسطیٰ کو جنگ کی آگ میں دھکیل دینے کی سکت رکھتی ہیں۔

انگریزی زبان کے ممتاز شاعر جان ملٹن نے 1667ء میں اپنی نظم ’پیراڈائز لاسٹ‘ میں لکھا تھا، ’شیطان ہیروں اور جواہرات سے مزین ایک شاہی تخت پر بیٹھا ہے اور اس کا قبضہ ہندوستان سے لے کر ہرمز کے خزانوں پر ہے۔‘

قیمتی موتیوں کی وجہ سے آبنائے ہرمز کو اس وقت بھی دنیا کے پوشیدہ خزانوں کا مقام قرار دیا جاتا ہے۔ جان ملٹن فارس کے ساحل کے سامنے واقع پہاڑی جزیرے کو اس وجہ سے بھی جانتے تھے کہ پرتگالیوں نے اسی کو بیس بناتے ہوئے کئی عشروں تک عیسائی سلطنت کا دفاع کیا تھا۔ یورپ اور ہندوستان کے طویل تجارتی راستے میں یہ ایک اہم فوجی اڈہ تھا۔

آج بھی آبنائے ہرمز کو عالمی تجارت اور اقتصادیات کی شہہ رگ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے خلیج میں کوئی بھی بحران دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

ابھی تک یہ تو واضح نہیں ہے کہ ناروے اور جرمنی کے بحری جہازوں کو کس وجہ سے نشانہ بنایا گیا؟ تاہم جہاز رانی سے متعلق اخبار ’ٹریڈ وِنڈز‘ نے اندرونی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان میں سے ایک بحری جہاز کو ٹورپیڈو میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

اگر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس حملے میں کسی ملک کا ہاتھ ہے یا پھر حملہ کرنے والوں کو کسی ملک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ٹورپیڈوز حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی اس کا استعمال کوئی عام گروپ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے۔ عام بموں کی طرح انہیں کوئی عام دہشت گرد گروپ تیار بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی تیاری کے لیے صنعتی مہارت چاہیے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پہلے ہی شک ہے کہ چند روز پہلے ایک پائپ لائن اور 4 دیگر ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ تھا۔

دوسری جانب ایران کے پاس حقیقتاً پاسدارانِ انقلاب کا ایک ایسا یونٹ موجود ہے، جو آبنائے ہرمز میں ایسی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس یونٹ کی ایسی تصاویر بھی موجود ہیں، جن میں انہیں اسلحے سے لیس دکھایا گیا ہے۔

امریکا نے بھی الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے، ’ہمیں یقین ہے کہ ان واقعات کے پیچھے تہران کا ہاتھ ہے۔‘ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا بیان بھی اسی سے مِلتا جُلتا ہے، لیکن ایران نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی ان حملوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش ضروری قرار دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ بھی امریکی دعوؤں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ویسے بھی ان حملوں کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے، ابھی تک ان واقعات کی تحقیقات جاری ہیں۔ خارجہ امور کے ماہر اور قدامت پسند میکس بوٹ کی طرح کئی امریکی تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ واقعات خود کروائے ہوں تاکہ انہیں جواز بنا کر ایران کے خلاف جنگ شروع کی جاسکے۔

میکس بوٹ نے 1964ء کی مثال دی ہے، جب امریکا نے جان بوجھ کر ایک ٹورپیڈو میزائل حملے کا ڈرامہ رچایا تھا تاکہ ویتنام جنگ کی راہ ہموار کی جا سکے۔

لیکن اس مرتبہ بڑا فرق یہ ہے کہ ویتنام کی نسبت خلیج کی اس ممکنہ جنگ کے انتہائی تباہ کُن نتائج سامنے آئیں گے۔

اگر واقعی جنگ ہوتی ہے تو ایران آبنائے ہرمز کو بند کرسکتا ہے، جو عمان کے بھی قریب واقع ہے اور جس کے کنٹرول کے لیے 500 سال قبل پرتگالیوں نے لڑائیاں کی تھیں، جمعرات کو اسی علاقے میں 2 ٹینکروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تیل ٹرانسپورٹ کرنے والے ایک تہائی سے زیادہ بحری ٹینکر اسی راستے سے گزرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دنیا بھر میں خام تیل کا 20 فیصد حصہ یہیں گزرتا ہے۔

آبنائے ہرمز خلیج کا سب سے تنگ بحری راستہ بھی ہے۔ ایک ساحل سے لے کر دوسرے ساحل کے درمیان صرف 39 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہاں پر خلیج کو کنٹرول کرنا سب سے آسان ہے۔ اگر یہ راستہ بند ہوتا ہے تو عالمی منڈیوں میں نہ صرف تیل کی قیمتیں آسمان کو چُھونے لگیں گی بلکہ اس خطے میں بے یقینی کی صورتحال پوری دنیا پر اثرانداز ہوگی۔

امریکا، متحدہ عرب امارات اور ایران گزشتہ کئی برسوں سے ایسی ہی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایران نے جب 2012ء میں آبنائے ہرمز کو بلاک کرنے کی دھمکی دی تھی تو اس وقت جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا تھا کہ ایران اس راستے کو بند کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے لیکن امریکا نے بھی اس کا توڑ تلاش کر رکھا ہے۔

تاہم امریکا اور ایران کے مابین کسی بحری جنگ کے نتیجے میں تیل یا پھر آبنائے ہرمز کی بندش کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ عالمی تجارت کے لیے اس سے بھی بڑا مسئلہ اس کے جنوب مغرب میں واقع باب المندب کا ہے۔ باب المندب کو ’آنسوؤں کا دروازہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے، جو ایشیا اور افریقہ کو ملاتا ہے۔ یہی راستہ بحیرہ احمر اور سوئز کنال کو بحر ہند سے جدا کرتا ہے۔

اس راستے سے گزشتہ برس 18 ہزار سے زائد بحری جہازوں کی نقل و حمل نوٹ کی گئی تھی۔ باب المندب ہی چین اور یورپ کے درمیان تجارت کا سب سے چھوٹا راستہ فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں اس راستے سے ہونے والی عالمی تجارت میں 77 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی بحران کا سب سے اہم مرکز باب المندب ہی ہے۔ اسی کے ساتھ واقع یمن میں ایران نواز حوثی ملیشیا نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ امریکا کا حمایت یافتہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا فوجی اتحاد گزشتہ 4 برسوں سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ یمن میں ایران اور سعودی عرب ایک ایسی جنگ میں پیسہ اور ہتھیار پھینک رہے ہیں، جو یورو-ایشیا تجارت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

حوثی باغیوں کو ایسے ایرانی راکٹ اور ڈرون فراہم کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے وہ سعودی دارالحکومت ریاض تک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حوثی باغیوں نے فخر سے اعلان کیا تھا کہ سعودی آئل پائپ لائن کو ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ابھی چند روز قبل ہی ابہا کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 2 درجن سے زائد عام سعودی شہری زخمی ہوئے۔

حالیہ چند برسوں میں ایران نے ڈرون ٹیکنالوجی میں کافی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی فضائی حدود میں جو ڈرون داخل ہوا تھا وہ بھی ایران ہی کا ہی تیار کردہ تھا۔

حوثی باغیوں نے بھی حالیہ کچھ عرصے میں بحری جہازوں کے خلاف ڈرون حملوں میں اضافہ کررکھا ہے۔ اگر ان پانیوں میں آگ بھڑکتی ہے تو کئی براعظم متاثر ہوں گے اور اس کے شعلے یقیناﹰ پاکستان تک بھی پہنچیں گے۔

پاکستان کی گوادر بندرہ گاہ بھی یہاں سے دُور نہیں ہے۔ اقتصادی مفادات کی وجہ سے پاکستان کا ایران کی نسبت سعودی عرب کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستانی مفادات کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

امتیاز احمد

امتیاز احمد جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے بطور صحافی وابستہ ہیں۔ یونیورسٹی آف بون سے ایشین اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ سیاحت اور فوٹوگرافی ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔

انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Rizwan Jun 16, 2019 03:16am
بہت اچھا لکھا۔ اس جنگ اور حالت جنگ ہر حال میں بُرا عام انسانوں اور پاکستان کا ہے۔ امن سلامتی سب کے لیے ۔
منصور حیدر راجہ Jun 16, 2019 07:38am
پاکستان کی دوسرے کسی بھی اسلامی ملک سے زیادہ گہرے تعلقات کی بنیادیں ایران کے ساتھ استوار ہیں ُ قیام پاکستان سے لیکر ایران کے موجودہ انقلاب تک تقریبا تین دہایٌیوں سے زایٔد عرصے کی تاریخ ایران اور پاکستان کے درمیان یک جہتی اور باہمی تعلقات کی بہترین مثال ہے ۔ اس دوران پاکستان اور انڈیا کے درمیان جو دو بڑی جنگیں ہویٔیں ‘ ان میں بڑی جرات اور فراخدلی سے ایران نے پاکستان کا دو ٹوک انداز میں ساتھ دیا َ‘ مسلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی ہمیشہ کھل کر تایٔید کی َ انیس سو ستر کے دورانیہ میں جب چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ پہلی بار سامنے آیا تو ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو اس منصوبے میں شرکت کی دعوت دی َ امام خمینی کے انقلاب کو مولانا مودودی نے پرزور انداز میں سراہا اور اس انقلاب کی کامیابی کے لیے دعا گو رہے ۔۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر ین تعلقات پر مبنی ان جیسے درجنوں نکات اور حقایق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ایران حقیقت میں کبھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں جا سکتے ۔ان دونوں ممالک کا توانا اور مستحکم رہنا ایک دوجے کے لیے بہت ضروری ہے ْ ایران کی سیاسی اور سماجی سطح پر اس ضرورت کا ادراک موجود ہے پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور فیصلہ کن قوتوں کو بھی اس کا بھرپور احساس ہے ۔ اس تناظر میں یہ جو آج کل ادھر ادھر چوکے چھکے لگنے یا لگانے کی بظاہر کوششیں ہو رہی ہیں یہ میچ میں عوام کی دلچسپی یا کچھ دیگر عوامل کا سبب تو ہو سکتی ہیں مگر یہ کبھی بھی ایران اور پاکستان کے مظبوط تعلقات پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں ۔ ایران زندہ باد ۔۔ پاکستان پا
منتظری Jun 16, 2019 12:55pm
حوثیوں کوب70 فیصدسے زاید یمنی عوام کا حمایت حاصل ہے۔ آپ انھیں کس بنا پر باغی کھتے ہیں؟ جبکہ یمن کے سابق صدر مستعفی ہو کر سعودی عرب بھاگا ہوا ہے۔ کیا کسی بھاگنے والے مستعفی صدر کو دوبارہ کسی ملک پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے؟ سعودی عرب اور اسکے اتحادی 70 ھزار سے زائد یمنی عوام کو قتل کر چکے ہیں جو کہ سراسر ظلم ہے۔ سعودی عرب کو یمن کے معاملات میں دخالت کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نھیں۔ اب اگر یمن کے حوثی اپنی دفاع کیلۓ کچھ میزائل سعودی پر گراتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ پاکستانی کی خارجہ پالیسی امت اسلامی کے درمیان ثالثی ادا کرنے کا روش ہے ، یک طرفہ جانبداری ھماری ملکی مفادات کے مخالف ہیں۔
Zunera Jun 17, 2019 12:49pm
Good one! very informative.
Kosher Jun 17, 2019 01:28pm
There is no rocket science needed to understand the situation here, who will benefit from this drama, we all know. I am not a great admirer of Iran but no doubt Iran has been dealing with the situation in a very sensible way, while at the other hand US and West is desperate to start a war to save its multi billion arm industry. Israel will also be biggest beneficiary of this conflict. Not sure, how long will it take this to start but for sure once started, it will lead to third world war. All I can say is aggressors need to have some sense and put their head straight. Pakistan will have a big strategic role in this war and have to and no doubt will be able to defend on various positions of confrontation.
hasanu Jun 17, 2019 03:25pm
@منتظری ڈالر اور ریال کے بنیاد پر اور کس بنیاد پر۔ پاکستانی میڈیا کی سب سے مضبوط بنیاد یہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024