• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

کلیم کہانی

کلیم میں گھپلوں کی کہانیاں آج بھی زبانِ زد عام ہیں لیکن بہت کم لوگوں نےاس حوالے سےکچھ لکھنے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا
شائع July 22, 2019

تقسیمِ ہند کے بعد جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان مہاجرین کا تھا۔ فسادات کی وجہ سے برِصغیر کے دونوں حصوں سے ہجرت جاری تھی۔ پاکستان میں آنے والوں کے لیے رہائشی سہولتیں حاصل کرنا ایک جان جوکھم کا کام تھا۔ جسے جہاں کوئی خالی جگہ مل جاتی وہاں بسیرا کرلیتا اور کوشش کرتا کہ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کسی طریقے سے اس کے نام ہوجائے۔

اُن میں سے بعض دعوے مضحکہ خیز حد تک دروغ پر مبنی ہوتے تھے۔ پاکستان کے معروف قانون دان بیرسٹر عزیزاللہ شیخ اپنی یادداشتوں پر مبنی تصنیف Story Untold (اَن کہی کہانی) میں لکھتے ہیں کہ، ’ایک بار دادا بھائی جو سندھی بولنے والے کچھی تھے اور بمبئی سے تعلق رکھتے تھے مجھ سے ملنے آئے۔ وہ متروکہ جائیداد کے کیس کے سلسلے میں میری خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے۔

’قیامِ پاکستان کے بعد ہندو آبادی نے ہندوستان کی جانب ہجرت شروع کردی اور ان کی چھوڑی جانے والی جائیدادوں کو محکمہ متروکہ وقف املاک کی سپرداری میں دے دیا گیا۔ اس محکمہ کے ذمے یہ کام بھی لگایا گیا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو ہندوؤں کی چھوڑی گئی جائیداد اور املاک الاٹ کی جائے۔ تاہم ایسا بھی ہوا کہ ہندوؤں نے مقامی مسلمانوں کو واجبی قیمت پر اپنی املاک بیچیں۔ مقامی مسلمانوں کو املاک بیچنے کا کام بہت عجلت میں کیا گیا۔ یہ املاک (Sale deed) کے تحت فروخت کی گئیں لیکن اس کی قانونی زبان کے بہت سے پہلو تشنہ تھے۔ یہ معاہدے اتنی جلدبازی میں کیے گئے کہ رجسٹرار کے سامنے دونوں فریقوں کی موجودگی کو بھی لائق اعتناء نہیں سمجھا گیا۔

اسٹوری ان ٹولڈ کا سرورق
اسٹوری ان ٹولڈ کا سرورق

’محکمہ متروکہ وقف املاک کے کسٹوڈین نے اِن معاہدوں کو مصدقہ دستاویزات تک نہیں مانا۔ کراچی کے علاقے لیاری میں واقع کچھی پاڑے میں آباد مینگھواڑ ہندو کمیونٹی نے 1948ء میں ہندوستان کی جانب ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنی تمام تر منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اپنے مسلم ملازمین کو بیچ دیں یا پھر کچھی میمن کمیونٹی کے افراد کے حوالے کردیں جو پاکستان ہجرت کرکے آباد ہوگئے تھے۔ دادا بھائی بھی اسی کچھی میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فرد تھے اور وہ مجھ سے چاہتے تھے کہ میں مجاز اتھارٹی سے ان دستاویزات کی تصدیق کرانے میں ان کی مدد کروں جو انہوں نے مینگھواڑ ہندو کمیونٹی کے افراد سے خریدی تھی۔ میں نے ان کا یہ کام 300 روپے میں کرادیا۔ یہ کام قانونی سے زیادہ انتظامی نوعیت کا تھا۔ میں نے پہلے فروخت کی دستاویزات لیں اور اس کی بنیاد پر ایک درخواست تیار کی جو میں نے نیپئر بیرکس کراچی میں واقع محکمہ متروکہ وقف املاک کے اسسٹنٹ کسٹوڈین کے دفتر میں دائر کردی۔ بعد ازاں میں نے اس دفتر سے ایک نوٹس وصول کیا جسے اخبارات میں شائع کروایا گیا تاکہ اگر کوئی اس جائیداد پر اپنی ملکیت رکھنے کا دعویدار ہو تو وہ اس نوٹس کو پڑھ لے۔ اب میں نے فقط یہ کرنا تھا کہ اخبار میں مشتہر شدہ اس نوٹس کو اگلی سماعت میں اس درخواست کے ساتھ جمع کرانا تھا جو میں نے متروکہ وقف املاک کے دفتر میں دائر کر رکھی تھی۔

مزید پڑھیے: قائد اعظم کے چہیتوں کی دربدری

’اگلی سماعت جو متروکہ وقف املاک کی عدالت میں ہوئی اس میں پیش کار نے اس جائیداد کے ہندو مالک کا نام پُکارا۔ چونکہ وہ ہندو مالک ہندوستان ہجرت کرچکا تھا اس لیے حاضر نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا عدالت نے وہ جائیداد میرے کلائنٹ کے نام پر رجسٹر کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ بہت آسان کیس ثابت ہوا۔ دادا بھائی اب اس جائیداد کے قانونی مالک تھے۔ وہ میری کارکردگی سے اتنے مطمئن تھے کہ انہوں نے بعد میں بہت سارے ایسے افراد کو میرے پاس بھیجا جو دادا بھائی والی جائیداد کی ملکیت کے حقوق کے بارے میں پریشان تھے۔

اگلے 6 ماہ میں نے اس نوع کے 24 کیس لیے اور 12 ہزار روپے کمائے، میں نے ہر کیس پر 500 روپے معاوضہ لیا۔ یہ کیس بہت منافع بخش رہے میں نے جو رقم بطور معاوضہ لی اس کا بمشکل 5 فیصد ہی ان دستاویزات کی تیاری میں خرچ ہوا جو میں نے متروکہ وقف املاک کے دفتر میں جمع کرائی تھیں۔‘

قائد اعظم محمد علی جناح بڑے تحمل کے ساتھ کراچی میں ایک مہاجر کی شکایات سن رہے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح بڑے تحمل کے ساتھ کراچی میں ایک مہاجر کی شکایات سن رہے ہیں۔

جہاں تک بیرسٹر عزیزاللہ شیخ کی جانب سے بیان کردہ واقعات کا تعلق ہے تو وہ یقیناً حقیقت پر مبنی ہوں گے لیکن انہوں نے مینگھواڑ ہندو کمیونٹی کا جو ذکر کیا ہے وہ شاید کسی غلط فہمی پر مبنی ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے علاقے میں آباد مینگھواڑ کمیونٹی ہندو کی نچلی ذات اور معاشی طور پر نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی، وہ اتنے مالدار تھے ہی نہیں کہ ان کی اپنی جائیدادیں ہوتیں جو وہ اپنے ملازمین کے نام کرجاتے۔

مینگھواڑ برادری کے لوگ عموماً جوتوں کی مرمت کا کام کرتے تھے یا پھر بلدیہ کراچی کے محکمہ صحت و صفائی میں ملازمت کرتے تھے۔معروف سیاسی رہنما اور سابقِ رکن صوبائی اسمبلی بھیرو لال بالانی نے بتایا کہ ’شیخ صاحب کو مغالطہ ہوا ہوگا کیونکہ مینگھواڑ برادری کے معدودے چند خاندان بھارت منتقل ہوئے تھے باقی اب بھی لیاری میں آباد ہیں۔ اس وقت کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی جانب سے لازمی سروس ایکٹ نافذ کرکے نچلی ذات کے ہندوؤں کے انڈیا جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی‘۔

کلیم میں گھپلوں کی کہانیاں آج بھی زبانِ زد عام ہیں لیکن بہت کم لوگوں نے اس حوالے سے کچھ لکھنے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا ہے کہ اس بہتی گنگا میں لوگوں نے کس طرح ہاتھ دھوئے اور کیسے کیسے مبالغہ آمیز دعوے پیش کیے۔ ایسی کچھ باتوں کا ذکر قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ مطبوعہ 2005ء میں یوں کرتے ہیں کہ،

’بورڈ قائم ہوتے ہی درخواستوں کا سیلاب اُمڈ آیا کہ الامان والحفیظ۔ جو کلیم داخل ہوئے ان سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ امرتسر سے لے کر دہلی، لکھنؤ اور پٹنہ تک جتنے بھی صنعتی ادارے اور سینما گھر تھے، وہ زیادہ تر مسلمانوں ہی کی ملکیت تھے۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ مطالبے ضرور جائز حقوق پر مبنی ہوں گے لیکن بہت سے کلیم صریحاً جھوٹ، فریب اور جعلسازی کی پیداوار تھے۔ جتنا بڑا آدمی ہوتا تھا، اتنا ہی بڑا کلیم ہوتا تھا اور اس کی تہہ میں اتنا بڑا جھوٹ اور فریب کارفرما تھا۔ کچھ لوگ بہ نفس نفیس بھارت جاتے تھے اور وہاں پر متروکہ املاک کے کسٹوڈین کے دفتر سے اپنی مرضی کے مطابق کاغذات اور سرٹیفکیٹ بنوالاتے تھے۔ بھارتی کسٹوڈین کے دفترمیں بھی جعلسازی کی فیکٹری کھلی ہوئی تھی۔ رشوت کے ریٹ مقرر تھے اور منہ مانگی رشوت دے کر ہر قسم کی ملکیت کی تصدیق کروائی جاسکتی تھی۔ اس صنعتی املاک کی تقسیم نے حرص وہوا کے جو دروازے کھولے، اس نے ہمارے معاشرے میں اخلاقی گلن، سڑن، بداطواری، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعلسازی کو بڑا فروغ دیا۔

شہاب نامہ کا سرورق۔
شہاب نامہ کا سرورق۔

’ایک روز میں دفتر سے گھر واپس آیا، تو برآمدے میں ایک صاحب بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے عربی لباس پہنا ہوا تھا اور عطر کی خوشبو میں بسے ہوئے تھے۔ ان کی بڑی شاندار سیاہ داڑھی تھی، آنکھوں میں سرمہ تھا اور ہاتھ میں سفید منکوں کی تسبیح کھٹا کھٹ چل رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ابھی حال ہی میں عمرہ کرکے آئے ہیں اور کل رات داتا صاحب کے مزار پر مراقبہ کر رہے تھے۔ داتا صاحب نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ میری خدمت میں حاضر ہو کر مجھے تحفہ دیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے ایک جانماز، ایک تسبیح، آبِ زم زم اور چند کھجوروں کا تحفہ دیا اور ساتھ ہی فرمایا، ’حضرت داتا گنج بخشؒ کا فرمان ہے کہ میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر ان کے مزار پر حاضری دوں۔ آپ وضو کرکے تیار ہوجائیں۔ میں آپ کو لینے آیا ہوں۔

’یہ نادر شاہی حکم مجھے عجیب سا لگا۔ بھلا داتا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک اجنبی کو اس طرح میرے پیچھے بھگاتے پھرے۔ ان کی بات کا مجھے یقین نہ آیا۔ لیکن ان کی نورانی وضع قطع کے سامنے صاف طور پر انکار کرنے کی ہمت بھی نہ ہوئی۔ میں نے کسی اور وقت حاضری دینے کا بہانہ بنایا تو وہ جلال میں آ گئے اور بزرگوں کے احکام کی نافرمانی کے سنگین نتائج سے مجھے خوب ڈرایا۔ ان کی چرب زبانی سے مرعوب ہوکر میں نے انہیں اپنی کار میں بٹھایا اور داتا صاحب پہنچ گیا۔

مزید پڑھیے: دل و دماغ پر صرف اور صرف آزادی کی آرزو طاری

’داتا صاحب پہنچتے ہی 10 سے 12 آدمیوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ایک صاحب نے سبز رنگ کے باریک ململ کا دوپٹہ میرے سر پر پگڑی کے طور پر باندھ دیا۔ کچھ لوگوں نے میرے گلے میں گیندے کے پھولوں کے ہار ڈالے اور پھر سب مجھے دھکیل دھکال کر ایک حُجرے میں لے گئے۔ حُجرے میں بیٹھتے ہی نعت خوانی شروع ہوگئی اور پھر پلاؤ، زردہ، قورمہ، کباب، مُرغ مسلم اور طرح طرح کی نعمتوں سے بھری ہوئی قابوں کا تانتا لگ گیا۔ میں نے کسی چیز کو ہاتھ لگانے سے صاف انکار کردیا۔ سب نے شور مچایا کہ یہ داتا صاحب کا تبرک ہے۔ اسے کھاکر برکت حاصل ہوتی ہے لیکن میں معافی مانگ کر اٹھنے لگا تو اچانک عربی لباس والے بزرگ نے کاغذوں کا ایک پلندا میرے حوالے کرکے کہا کہ آپ اِسے گھر جاکر پڑھیں۔ اِس میں جو لکھا گیا ہے وہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی ہدایات کے عین مطابق ہے۔ اس پر عمل کرنے سے آپ کو فلاح نصیب ہوگی۔

’یہ کاغذات ایک متروکہ سینما ہاؤس کی الاٹمنٹ سے متعلق تھے۔ میں نے دفتر سے متعلقہ فائل نکلوا کر دیکھی تو یہ عقدہ کھلا کہ عربی لباس والے بزرگ ایک شہر کے لوکل باشندے اور پیر تھے۔ وہاں پر ایک مقامی سینما انہوں نے جعلسازی سے اپنے نام الاٹ کرا رکھا تھا۔ اب انہوں نے درخواست دے رکھی تھی کہ یہ الاٹمنٹ ان کے نام کنفرم کردی جائے! میں نے داتا صاحب والے ڈھونگ کا قصہ بورڈ کے ایک اور ممبر کو سنایا تو انہوں نے بتایا کہ یہی حضرت ان کے پاس کچھ ’اور طرح کا سامان‘ لے کر تشریف لائے تھے اور غصہ میں آ کر انہوں نے ان پر کتا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے اس بات کا افسوس رہا کہ بورڈ نے صرف ان کے سینما کی الاٹمنٹ منسوخ کی اور ان پر جعلسازی کا مقدمہ دائر نہ کیا۔

’ایک صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ وہ جو جائیداد بھارت چھوڑ آئے ہیں ان میں دلی کا لال قلعہ بھی شامل ہے۔ انہیں اس کی قیمت اور تاریخی عظمت کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا شجرہ نسب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ براہ راست ملتا ہے۔

’ایک سرکس والے نے اپنے شیر کا معاوضہ مانگا تھا، جسے وہ بھارت چھوڑ آیا تھا۔ بورڈ کے ممبران نے اسے بتایا کہ ہم تو صرف غیر منقولہ جائیداد کا معاوضہ دیتے ہیں۔ شیر تو چلتا پھرتا متحرک درندہ ہے، اس کا معاوضہ دینا بورڈ کے اختیار میں نہیں۔ سرکس والے نے برجستہ جواب دیا، ’صاحب، شیر تو پنجرے میں بند رہتا ہے اور پنجرہ تو غیر منقولہ ہے۔‘

ایک صاحب 5 تانگے بھارت چھوڑ آئے تھے اور اُن کے عوض کسی فیکٹری کے طلب گار تھے۔ ان سے بھی یہی کہا گیا کہ تانگے غیر منقولہ جائیداد کے شمار میں نہیں آتے، اس لیے ہمارا بورڈ ان کا معاوضہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس پر درخواست دہندہ نے کہا، ’جناب، میرے تانگے غیر منقولہ تھے، کیونکہ میں ان میں گھوڑے نہیں جوتتا تھا۔‘

تقسیمِ ہند کے بعد غیر مسلموں کی متروکہ جائیدادیں جو پاکستان میں رہ گئی تھیں اُن پر ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کا دعوی اپنی جگہ پر تھا لیکن مقامی مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ معروف صحافی زاہد چوہدری اپنی کتاب ’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘، جُلد نمبر 4 کے صفحہ نمبر 110 اور 111 میں اس صورتحال کو یوں بیان کرتے ہیں کہ،

’پنجاب کے جاگیردار سیاسی لیڈران اور ان کے حواریوں کے پاس قومی حمیت و غیرت کا نام و نشان نہیں تھا۔ وہ محلاتی سازشوں اور جتھے بندیوں میں مصروف ہونے کے علاوہ متروکہ جائیدادوں کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے۔ وزیر خزانہ ممتاز دولتانہ کے حلیف وزیر مال شوکت حیات خان پر الزام تھا کہ اس نے متروکہ پنجاب نیشنل بینک کی املاک کے علاوہ کئی ایک دوسری متروکہ جائیدادوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نواب ممدوٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس نے ضلع منٹگمری میں ایک سکھ زمیندار کی متروکہ اقبال نگر اسٹیٹ غلط طریقے سے اپنے نام الاٹ کرالی ہے جبکہ اس کے منظورِ نظر اعلیٰ حکام خواجہ عبدالرحیم اور راجہ حسن اختر پر آزاد کشمیر، راولپنڈی اور منٹگمری میں سنگین بدعنوانیوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔‘

زاہد چوہدری مزید لکھتے ہیں کہ ’یکم اکتوبر 1947ء کو لاہور کے 7 ایڈیٹروں کا ایک مشترکہ بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مغربی پنجاب میں بعض بااثر دولتمند متروکہ زمینوں، فیکٹریوں اور دکانوں پر قبضہ کرکے مشرقی پنجاب کے مہاجرین کو اُن کے حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مروجہ رشوت ستانی، بددیانتی اور اقربانوازی کے سدِباب کے لیے ہم سے تعاون کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان برائیوں کا انسداد صرف قومی سطح پر مخلصانہ کوششوں سے ہی ہو سکتا ہے۔‘

اس بیان پر نوائے وقت کے ایڈیٹر حمید نظامی اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض کے بھی دستخط تھے اور پھر 27 نومبر کو نوائے وقت میں چک 643 تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع لائل پور کے ایک شخص محمد غنی کے مکتوب کو بطور اداریہ شائع کیا گیا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’اس ضلع میں بعض مسلم لیگی حضرات متروکہ جائیدادوں پر قبضہ کرکے زراندوزی میں مصروف ہوگئے تھے۔ چند ایک ایم ایل اے (ممبر قانون ساز اسمبلی) اسی قسم کی قبیح حرکات کے مرتکب ہوچکے ہیں اور اسی طرح میونسپل کمشنر صاحبان بھی۔‘

سندھ کے معروف صحافی میر اللہ بخش خان تالپر کی حیات پر علی مردان ملوکانی کی مرتب کردہ کتاب ’میر اللہ بخش خان تالپر‘ (جھول والے) میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:

’سیٹھ کلیان داس کی رہائشگاہ کے شمال میں میر پیر بخش جمعہ خان تالپر کی اوطاق تھی اور اس کے ساتھ شمالی سمت میں سیٹھ لکھو مل کی رہائشگاہ تھی جس کے سامنے مغرب کی جانب جہاں اب ڈاکٹر بشیر و دیگر کے گھر اور دکانیں ہیں وہ سیٹھ کی حویلی تھی۔ اس حویلی میں بھی بعدازاں کلیم رکھنے والے رہائش پذیر ہوگئے، لیکن سیٹھ لکھو مل کی رہائشگاہ کو تقسیم کے بعد میر اللہ بخش خان تالپر نے اپنی اوطاق بنایا اور یہ عمارت ’میروں کی اوطاق‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعد ازاں یہ عمارت بھی کلیم حاصل کرنے والوں نے میر خاندان سے خالی کروا لی۔

جھول شہر کے حقیقی رہائشی ہندو بنیوں اور ان کی جائیدادوں کی مکمل تفصیل جاننے کے لیے ایک فہرست حاصل ہوئی جس کے ذریعے تقسیم کے بعد تارکِ وطن ہونے والوں کی جائیدادوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس کے بعد انہیں جن لوگوں نے حاصل کیا، اس حوالے سے تمام اعداد وشمار اس فہرست میں موجود ہیں جو ڈپٹی سیٹلمینٹ کمشنر نوابشاہ کے دفتر سے 1958ء میں شائع کی گئی تھی۔ چونکہ یہ فہرست اردو زبان میں شائع ہوئی تھی اس وجہ سے ناموں میں کافی فرق تھا لیکن مقامی لوگوں کی مدد سے اس فہرست میں دیے گئے ناموں کی درستگی کے بعد یہ فہرست کتاب میں ضمیمے کے طور پر شامل کی گئی ہے۔‘

جھول کے اصل رہائشیوں کی اس فہرست سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ شہر ایک اچھا کاروباری مرکز تھا اور کاروباری ترقی میں ہندو بنیوں کا اہم کردار تھا جو کاروبار کے ساتھ ساتھ زمینداری سے بھی وابستہ تھے۔

ان کی خوبصورت حویلیاں، عمارتیں، باغات، اسکول، مندر اور کشادہ بازاروں کی وجہ سے یہ شہر بہت ہی پرکشش ہوگیا تھا، یہی وجہ تھی کہ یہاں دیہاتی لوگوں کا ہر وقت اژدھام ہوتا تھا۔ کتاب کے ضمیمے میں جو فہرست شامل کی گئی ہے اس میں 87 افراد کی جائیدادوں کی تفصیل شامل ہے۔ ہندوستان جانے والے ان ہندوؤں کی جائیدادوں کو کلیم میں حاصل کرنے والوں میں 18 افراد کا تعلق مقامی پنجابی بولنے والے مسلمانوں سے اور 3 کا تعلق اردو بولنے والوں سے جبکہ 66 کا تعلق مقامی سندھی بولنے والے افراد سے تھا، جن میں سے 3 مقامی ہندو ہیں۔ اب اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس فہرست کی تصدیق کس طرح کی جائے؟ اس بات کا ذکر ہم نے جب اپنے میرپورخاص کے دوست راشد راجپوت سے کیا تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی راؤ طاہر سے بات کروائی جنہوں نے کہا کہ ہم یہ فہرست انہیں بھیج دیں۔ بعدازاں انہوں نے جھول کے رہائشی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے رانا حامد سے ہماری بات کروائی، جس کے کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے مذکورہ بالا تفصیل ہمیں بھیجی۔

کلیم میں ملنے والے مکانات اور جائیدادوں کو معروف شاعر و کالم نگار رئیس امروہی نے بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

رئیس امروہی 14 دسمبر 1948ء کے روز نامہ جنگ میں اپنے ایک قطعے میں لکھتے ہیں کہ،

خدا کے فضل اور حکام بالا کی عنایت سے

رئیس امروہی کو ایک مکان تنگ ہاتھ آیا

اگرچہ اس میں مہمانوں کی گنجائش نہ تھی

پھر بھی قدم چومے تپ و لرزہ نے سر کا درد ساتھ آیا

15 دسمبر کو ایک اور قطعے میں وہ لکھتے ہیں کہ

مل گیا ہے تو کراچی میں ٹھکانا پر رئیس

شدت آلام ہستی سے کہاں حاصل فراغ؟

مجھ کو اتنا تنگ کمرہ تنگ دستی میں ملا

جس طرح ہندو کا دل، جیسے اکالی کا دماغ

روزنامہ جنگ کی 13 نومبر 2018ء کی اشاعت میں سپریم کورٹ کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں چیف جسٹس کے دیے گئے یہ ریمارکس شامل تھے کہ سسٹم کو شرم آنی چاہیے، لوگ انصاف کے لیے دھکے کھا رہے ہیں، 70 سال ہوگئے مقدمہ لڑتے ہوئے لیکن اراضی اور رقم آج تک نہیں دی گئی۔ خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے نازیفہ عثمان کی زمین کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سسٹم کو شرم آنی چاہیے، جب سے پاکستان بنا ہے یہ لوگ انصاف مانگتے ہوئے دھکے کھا رہے ہیں۔ درخواست گزار نے کہا کہ میرے بزرگوں نے انڈیا سے آکر کلیم کیا تھا، 70 سال ہوگئے مقدمہ لڑتے ہوئے لیکن اراضی اور رقم آج تک نہیں دی گئی۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقعے پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ اس خاتون کو انصاف مانگتے ہوئے 4 نسلیں گزر گئی ہیں، آخر کب انہیں اپنا حق دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خاتون نے آزادی کے وقت کلیم داخل کیا لیکن نہ اسے بدلے میں زمین دی گئی اور نہ اپنی اراضی کی معقول قیمت مل سکی، آخر سو یا دو سو روپے فی کنال دینا کہاں کا انصاف ہے۔

13 نومبر 2018ء کو روزنامہ ایکسپریس کی اشاعت میں معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر یونس حسنی نے اپنے ایک انٹرویو میں کلیموں کے بارے میں کہا ہے کہ، 'پاکستان غلط نہیں بنا، بلکہ غلط ہاتھوں میں چلا گیا۔ دراصل منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے، ساری گڑ بڑ انہوں نے ہی کی۔ اگر تقسیم نہ ہوتی تو یہاں کے مسلمان بھی ایسے ہوتے، جیسے آج ہندستانی مسلمان، 3 جگہ نہ بٹتے تب بھی جمہوریت کے لحاظ سے اکثریت نہ تھی۔ اسلام کے ابتدائی دور میں فیصلے صائب الرائے کرتے، ان میں ’سابقون الاولون‘ کو فوقیت ملی۔ یہاں پاکستان کے لیے تکالیف اٹھانے والے جلدی چلے گئے اور جنہیں لڈو کھانا تھا وہ رہ گئے۔ مروجہ ’مہاجر‘ قومیت کے حوالے سے وہ بولے کہ اس میں راجستھان اور گجرات سے آنے والوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے، جبکہ اس میں ٹونک ’راجستھان‘ کے سوا کہیں اردو نہیں بولی جاتی۔ یہاں ہجرت کرنے والوں کو حق تھا، کسی خالی گھر پر قبضہ کرلیں یا دعویٰ ’کلیم‘ داخل کریں۔ برنس روڈ کے گھروں میں آکر رہنے کو کسی نے نہیں روکا۔ پھر بہت سے ’کلیم‘ مبالغہ آرائی پر مبنی تھے اسی طرح سندھ میں بہت سے لوگ ہندوؤں کی زمینوں پر قبضہ کرکے زمیندار بن گئے، تقسیم کے بعد اس لوٹ نے پوری قوم کو بے ایمان بنا دیا۔

ہم نے پوچھا کہ کیا اکثریت کے ’کلیم‘ جھوٹے تھے؟ وہ بولے، اچھی خاصی تعداد میں تھے، میں ذاتی طور پر حویلیاں چھوڑ کر یہاں 100 گز کے مکان میں رہنے والوں اور ڈاکیے سے یہاں آکر پوسٹ ماسٹر بننے والوں کو خوب جانتا ہوں۔‘

بہاول پور سے شائع ہونے والے روزنامہ اتفاق رائے میں ہمارے دوست جاوید صدیقی صاحب، جن کا تعلق اتفاق سے میرے شہر میرپورخاص سے ہے، اخبار میں چھپنے والے کالم میں لکھتے ہیں کہ ’چونکہ متروکہ املاک صرف اور صرف انڈیا سے آنے والے مہاجروں کا حق قرار پائی تھیں لہٰذا ایک سازش کے تحت جھوٹے کلیم اور پودینہ کے باغ جیسی غلیظ اصطلاحات ان نفرت کے پجاری قوم پرستوں نے مقامی سندھی مسلمانوں میں مہاجروں کے خلاف پھیلانا شروع کردیں۔

سچ یہ ہے کہ کلیم کچھ جھوٹے بھی ہوں گے مگر جن کی حق تلفی ہوئی ہوگی وہ بھی مہاجر ہی ہوسکتے تھے نہ کے مقامی، کلیم کے خلاف یہ ذلیل اور زہریلا پروپیگنڈہ صرف انڈیا سے آنے والے مہاجروں کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا۔‘

ایوب کھوڑو۔
ایوب کھوڑو۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’سندھ کے 26 بڑے شہر جن میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور ٹنڈو آدم شامل ہیں، وہ 90 سے 95 فیصد ہندوؤں کی ملکیت میں تھے۔ تو اب ظاہر ہے املاک و زمین کے تبادلے کے نتیجے میں ان شہروں کی جائیدادوں پر قبضہ بھی آنے والے مہاجروں کا ہی حق تھا، ویسے بھی یہ آنے والے مہاجر انڈیا کے شہروں کو چھوڑ کر آ رہے تھے اور ان کے شہر جیسا کہ ذکر ہوا کہ اب مکمل طور پر پاکستان سے جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے قبضے میں تھے۔ ایوب کھوڑو نے مہاجروں سے حق چھیننے کے لیے ان کو ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی املاک و زمینوں پر قبضے کرنے کے الزام میں جیلوں میں بھرنا شروع کیا، جس پر فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان کے بیانات آج بھی ماضی کے اخبارات میں مل جائیں گے۔

متروکہ املاک پر لوگوں کے جائز اور ناجائز قبضوں کا ذکر عبدالستار ایدھی نے بھی اپنی سوانح حیات میں کیا ہے۔ عبدالستار ایدھی اپنی سوانح حیات مطبوعہ 23 مارچ 1998ء کے صفحہ نمبر 49 میں رقم طراز ہیں کہ،

’پاکستان ایک نئی تمکنت کے ساتھ معرض وجود میں آچکا تھا۔ قوم اپنی نئی پہچان کے لیے پُرامید تھی۔ ایک ایسی امید جو کسی بھی کام کے آغاز میں ہوتی ہے۔ ہماری گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رُکی۔ ملیر کے علاقے میں ایک خستہ حال عمارت ہمارا مقدر ٹھہری۔ یہ عمارت ایک نو تعمیر شدہ مندر کے ساتھ تھی۔ بانٹوا کے قدیم گھروں اور ناپختہ گلی کوچوں کا اس عمارت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے میں پریشان سا ہوگیا۔ ابھی تک بانٹوا کی یاد وہاں کے بڑے کھیت اور کُھلی ہوائیں ذہنوں پر چھائی ہوئی تھیں۔

وہ عمارت بہت جلد ہی کسی پناہ گزین کیمپ کا سماں پیش کرنے لگی۔ بڑی سائز کے ٹین کے صندوق پوٹلیاں چھوٹے بڑے برتن چادروں میں لپٹے بندھے جگہ جگہ پڑے تھے۔ کھانے کے ڈبے، روتے بلکتے بچے اور پریشان حال عورتیں برآمدوں میں بے ترتیب پڑے تھے۔ والدہ نے اسی کمرے کا چھوٹا کونہ کھانا پکانے کے لیے چن لیا اور چولہا جلایا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ گھر چولہا جلنے سے ہی بنتا ہے۔

عبدالستار ایدھی—عارف محمود، وائٹ اسٹار
عبدالستار ایدھی—عارف محمود، وائٹ اسٹار

یہ وہ وقت تھا جب متروکہ املاک پر قبضہ کرنے کی دوڑ ہر طرف شروع ہوچکی تھی۔ پاکستان سے جاتے وقت جو املاک خالی تھیں۔ کچھ لوگ ان پر قبضہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو پچھاڑ رہے تھے۔ والد اس قسم کے غیر قانونی قبضے کے شدید مخالف تھے۔ دوستوں نے انہیں ہر ممکن طریقے سے اس لوٹ کھسوٹ پر اُکسانے کی کوشش کی پر ان کا ایک ہی جواب تھا۔ ’ہمیں محنت و مشقت کرکے ایک قوم کو سنوارنا اور پروان چڑھانا ہے۔ کیا ہم یہاں لٹیرے بن کر آئے ہیں؟ وہ لوگوں کی ان حرکتوں کو دیکھ کر بڑے مایوس ہوئے۔‘

کلیم کے ذریعے کتنے ہی لوگ راتوں رات بنگلوں اور جائیدادوں کے مالک بن گئے اور بے شمار لوگ ایسے تھے جو اپنے جائز دعوؤں کو بھی ثابت نہ کرسکے۔

یہ موضوع ایک طویل تحقیق اور ریاضت کا متقاضی ہے، ہم نے تو صرف اس کا آغاز ہی کیا ہے۔ محدود مالی وسائل، مواد اور وقت میں اتنا ہی کام ہوسکتا تھا۔ اب اس کا انحصار تاریخ کے طالبِ علموں پر ہے کہ وہ کس طرح اس کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔