لفظ تماشا: احتساب دل و جان سے ہورہا
علامہ اقبال خیر سے ’حکیم‘ بھی تھے اور ’ڈاکٹر‘ بھی، وہ ایک بڑے پتے کی بات کہہ گئے ہیں:
صورت شمشير ہے دست قضا ميں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
بعض کائیاں شارحین کے مطابق اقبال کے اس شعر میں ’نیب‘ کے قیام کا مشورہ تھا اور قومی شاعر کی خواہش کا احترام کیا گیا۔ ’قومی ادارہ برائے احتساب‘ وجود میں آگیا جہاں احتساب دل و جان سے کیا جاتا ہے۔ ’دل وجان‘ والا راز چیئرمین نیب کی ویڈیو لیک ہونے پر کُھلا، ’ہرچند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے۔‘
چیئرمین نیب کہتے ہیں، ’مگر مچھوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا۔‘
لفظ ’مگر مچھوں‘ جمع کا صیغہ ہے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ ’مگر مچھ‘ ایک سے زیادہ ہیں۔ جب کہ لیک ہونے والی ویڈیو میں ایک ہی نظر آرہا ہے۔ خیر ’سانوں کی۔‘
ہمیں تو فقط اتنا عرض کرنا ہے کہ آج کل مگر مچھ نوالے بنا بنا کر نہیں کھاتے، شکار سالم ہی نگل جاتے ہیں۔ جیسے نگلنے والے قومی امنگیں اور عوامی مینڈیٹ نگل گئے۔ ویسے محاورے کی رُو سے نوالہ مگر مچھ کے نہیں غریب کے منہ سے چھینا جاتا ہے، جو کہ چھینا جاچکا ہے، اب تو جامہ تلاشی ہورہی ہے، ’دیکھیے اس جامۂ صد چاک سے کیا کیا نکلے۔‘
ایک محاورہ ’شیر کے منہ سے شکار چیھننا‘ ہے۔ ممکن ہے جناب چیئرمین شیر ہی کہنا چاہتے ہوں، مگر انتخابی نشان کا لحاظ کرتے ہوئے ’شیر‘ کو ’مگر مچھ‘ بنادیا۔ ویسے وہ کتا بھی بنادیتے تو کون پوچھنے والا تھا۔ جانور کی تبدیلی سے عہدے کی آبرو رہ گئی اور محاورہ بے آبرو ہوگیا، ’بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔‘
میر تقی میر زبان کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ لکھنؤ کے سفر میں ہمسفر سے اس لیے بات نہیں کی کہ ’زبان بگڑتی ہے‘۔ معاملہ میر ہی پر تمام نہیں ہوا، خلافِ محاورہ بات پر بھڑک اٹھنے والے اور بھی تھے۔ مختار مسعود لکھتے ہیں، ’خواجہ حسن نظامی نے ایک بار رسالہ ’منادی‘ میں معافی نامہ شائع کیا جس میں لکھا تھا کہ میں مولوی اشرف علی تھانوی سے اس بات کی معافی مانگتا ہوں کہ میں نے بہشتی زیور پر فحش نگاری کی تہمت رکھی تھی، مگر میں اپنی اس رائے کے لیے معافی نہیں مانگ سکتا کہ انہیں اردو لکھنی نہیں آتی‘۔
ایک اور دلی والے کا دعویٰ تھا:
نسیمِ دہلوی، ہم موجدِ بابِ فصاحت ہیں
کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں
اردو سمجھنا تو دُور کی بات اب لوگ اردو ہی کو کچھ نہیں سمجھتے۔ بازار میں ’انگریزیائی‘ ہوئی اردو کا ’ٹرینڈ‘ ہے، جسے یار لوگ ’مِنگلش‘ کہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کسی جنابِ ’قصود‘ کی سعی نا مسعود کا کرشمہ تھی۔ کتاب کا نام پڑھ کر جذبات میں جو اُبال آیا، اس کے اظہار کے لیے اردو کے ذخیرہ الفاظ کو ناکافی پایا۔ آپ بھی کتاب کا نام پڑھیں اور سر دھنیں:
’جدید اردو نظم اور اس کے چند لیجنڈ شعرا‘
نہیں معلوم اردو نظم میں انگریزی لیجنڈ (legend) کیا کررہا ہے جبکہ اس جگہ ’ممتاز یا نمایاں‘ لکھنے سے قلم کو لقوہ تو نہیں مار جاتا۔چونکہ ’لیجنڈ‘ ہی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ باقی کتاب کا معیار کیا ہوگا، لہٰذا
دہلیز کو چوم کے چھوڑدیا
دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
گمان ہے کہ کتاب میں جن شعرا کا ذکر ہے وہ راہیِ ملکِ عدم ہوچکے ہیں اور تب نہیں مرے تو کتاب کا نام پڑھ کر مرگئے ہوں گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ابھی ’لیجنڈ‘ کا گھاؤ تازہ تھا کہ سکھر میں نجی ٹی وی چینل کا نوخیز رپورٹر فرطِ جذبات میں میر معصوم شاہ کے مینار پر چڑھ گیا اور اس بلندی سے پستی کے مکینوں کو جو معلومات فراہم کیں ان میں 2 باتیں آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔
اول یہ کہ، ’مینار کی بلندی پر حفاظتی ’جالی‘ لگائی گئی ہے‘، جبکہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ رپورٹر جسے ’جالی‘ پکار رہا ہے وہ ’جنگلہ‘ ہے۔
اس رواں تبصرے کا دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ ’یہ ’جالی‘ مینار سے کُود کر ’خود سوزی‘ کرنے والوں کو روکنے کے لیے لگائی گئی ہے۔‘ ظالم کو کوئی تو بتاتا کہ ’خود سوزی‘ کا مطلب خود کو آگ لگانا ہے۔ یہاں ’خود کشی‘ کا محل تھا۔ ممکن ہے رپورٹر کا خیال ہو کہ ’خود کشی‘ کے مقابلے میں ’خود سوزی‘ کے بیان سے ساتھی رپورٹرز پر رعب پڑسکتا ہے۔ ویسے اتنی اہم معلومات کی فراہمی کے بعد احتیاطاً خود رپورٹر کو بھی مینار سے کُود جانا چاہیے تھا۔
لفظ ’کُش اور کُشی‘ کا تعلق فارسی مصدر ’کُشتن‘ سے ہے، جس کے معنی ’مارنا‘ ہیں۔ اسی سے ’خودکُش اور خودکُشی‘ کی تراکیب ہیں، جو اپنے آپ کو مارنے کا مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ اس ’کُشتن‘ سے لفظ ’کُشتی‘ بھی ہے جس میں پہلوان ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔ اس مارا ماری کی نسبت سے ’مقتول‘ کو بھی ’کُشتہ‘ کہتے ہیں۔ میر کہہ گئے ہیں
حالِ دل میر کا، اے اہلِ وفا مت پوچھو
اس ستم کُشتہ پہ جو گزری جفا مت پوچھو
ایک ’کُشتہ‘ وید اور حکیم راجاؤں اور رئیسوں کے لیے بناتے تھے۔ اس کی تفصیل مناسب نہیں لہٰذا آگے بڑھتے ہیں۔
محاورہ ہے ’گُربہ کُشتن روز اول۔‘ جس کے معنی ہیں ’پہلے ہی دن بلی مار دینا‘۔ عام طور پر نو شادی شدہ جوڑے کو ہر دو جانب سے ’شبِ زفاف‘ کے موقع پر ’بلی مارنے‘ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ موقع بلی ’مارنے‘ کا نہیں ہوتا۔ حکمران اس محاورے کو ’غربہ کشتن روز اول‘ پڑھتے اور اسی کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔
لفظ ’کُشی‘ سے مل کر ایک ترکیب ’نسل کُشی‘ بنی ہے۔ جس کا مطلب کسی بھی جاندار (انسان ہو یا جانور) کی نسل کا خاتمہ کرنا ہے۔ جیسے امریکا میں ریڈ انڈین کے ساتھ ہوا اور فلسطین میں فلسطینیوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ جب کہ افریقہ میں جانوروں کی کئی نسلوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔
ایک لفظ ’نسل کَشی‘ ہے جو معنی میں ’نسل کُشی‘ کا بالکل اُلٹ ہے۔ ’نسل کَشی‘ کا مطلب ہے نسل بڑھانا۔ لفظ ’کَش‘ کا مصدر ’کشیدن‘ ہے۔ جس کا مطلب ہے کھینچنا۔ غالب نے ایک جگہ تیرِ نیم کش کی دہائی ہے
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
اسی کشیدن سے ایک لفظ ’کشش‘ ہے۔ اپنی جانب کھینچنے والی ہر چیز ’پُرکشش‘ کہلاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کے دوران سلگتا تمباکو گہرے سانس کی کی مدد سے پھیپھڑوں کی جانب کھینچنا ’کش لگانا یا کش مارنا‘ کہلاتا ہے۔ خود کُشی کا اس سے مہذب طریقہ اب تک ایجاد نہیں ہوسکا۔
اسی سلسلے کا ایک لفظ ’کش مکش‘ ہے، جس کا لفظی مطلب ’کھینچ تان‘ ہے۔ اقبال کہہ گئے ہیں
اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی
قبل اس کے کہ قارئین پیچ تاب کھائیں اور ’کھینچم تانی‘ پر اتر آئیں ہمیں اجازت دیں۔ اللہ حافظ
تبصرے (4) بند ہیں