• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

نفسیاتی مدد کی ضرورت

شائع July 26, 2013

فائل فوٹو --.چارلس مینسن
فائل فوٹو --.چارلس مینسن

امریکا کی حالیہ تاریخ میں سب سے رسوا اور اور بدنام زمانہ مجرموں میں ایک نام چارلس مینسن کا ہے-

مینسن ایک ناکام موسیقار تھا جس نے 1960 کی دہائی کے آخر میں، سان فرانسسکو میں کسی طرح نوجوان مڈل کلاس طبقے کے الجھے ہوے خانہ بدوشوں (زیادہ تر خواتین) کا ایک چھوٹا سا مسلک بنا لیا تھا-

اس نے بائیبل اور جھوٹے مذاہب جیسے سائنٹولوجی اور امریکا میں اس وقت بڑھتے ہوئے سماجی-سیاسی تناؤ سے متاثر ہو کر ایک نظریہ تیار کیا جس کے مطابق مشہور برطانوی نفسیاتی/پاپ بینڈ بیٹلز کے ایک گیت، ہیلٹر سکیلٹر، میں سیاہ فام اور گورے امریکیوں کے درمیان نسلی جنگ کی پیشنگوئی کی گئی ہے-

اس حوالے سے مینسن کی بکواس زیادہ تر، ایک طاقتور خفقانی (hallucination) دوا 'ایل ایس ڈی' کی بھاری مقدار استعمال کرنے کا نتیجہ تھی، جسے وہ اور اس کا چھوٹا سا گروہ مسلسل استعمال کر رہا تھا- اس نے اپنے ماننے والوں کو بتایا کہ انہیں لوگوں کا قتل کر کے 'ہیلٹر سکیلٹر تخلیق' کرنا ہو گا اور اس طرح نسلی جنگ کا آغاز ہوا-

اگست سنہ 1969 کو اس مسلک نے قتل وغارتگری شروع کر دی، جس میں خنجر کے وار اور گولی مار کر نو افراد کو موت کے گھات اتار دیا گیا- ان میں شیرون ٹیٹ بھی شامل تھیں جو اس وقت امید سے تھیں، ان پر خنجر کے سولہ وار کے گۓ-

ان سفاکانہ قتل سے پورا ملک سناٹے میں آ گیا- دسمبر سنہ 1969 میں مینسن اور اس کے گروہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا- لیکن جس بات نے مڈل امریکا کو سب سے زیادہ پریشان کیا وہ کچھ جوان مرد اور خواتین تھیں جو کہ اس کورٹ کے باہر جمع ہو گۓ، جہاں مینسن کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور اسے آزاد کرنے کے لئے مظاہرے اور مطالبے شروع کر دیے-

مارچ سنہ 1971 میں، کورٹ نے مینسن اور اس کے گروہ کے تین ممبران کو قتل میں براہراست ملوث ہونے کے الزام میں سزاۓ موت دے دی- سنہ 1972 میں گروہ کے ایک اور ممبر کو سزاۓ موت دی گئی-

لیکن یہ سزائیں خود بخود عمر قید میں تبدیل ہو گئیں جب کیلی فورنیا نے ریاست میں سزاۓ موت ختم کر دی-

بہت سے امریکی ماہر نفسیات اور ماہر سماجیات نے ان محرکات کی تفتیش کرنے کی کوشش کی جن کے تحت مڈل کلاس جوانوں نے 9 بیگناہ معصوم افراد کے قتل میں مینسن کی پیروی کی وہ بھی ایک بلکل غیر منطقی اور فرضی مقصد کی خاطر-

اور ان سے بھی زیادہ دلچسپ، ان مرد و خواتین کی ذہنی حالت کی جانچ تھی جنہوں نے مینسن اور اس کے گروہ کے ساتھ ہمدردی اور دل جوئی کا مظاہرہ کیا، جبکہ ان جرائم کی سفاکانہ اور تصویری تفصیلات منظر عام پر آچکی تھیں-

ایک مشہور تھیوری ان نفسیاتی جانچ کے ذریعہ یہ پیش کی گئی کہ مینسن کے مداح اور عذر خواہوں نے، ان جرائم کو اپنی خود کی پوشیدہ سماجی اور جنسی محرومی اور غصّے کی نظر سے دیکھا، جس کو وہ خود کسی قتل یا تشدد کا ارتکاب کرکے نکال باہر کرنے کے اھل نہیں ہو سکتے-

دوسرے الفاظ میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر قاتل مجرمانہ خبط کا شکار ہیں تو ان کے جرائم کی تاویل پیش کرنے والے اور تعریف کرنے والوں کی بھی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہوتی-

چناچہ پاکستان کے سیاق و سباق میں، میں سوچتا ہوں اگر یہی سب ان لوگوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے جنہیں ٹیلی ویژن کیمرے میں ممتاز قادری پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے دیکھا گیا- وہ شخص جس نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا کیوں کہ اس کے خیال میں سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تھے-

اور ان نوجوان، تعلیمیافتہ مڈل کلاس مرد و خواتین کے بارے میں کیا کہیں گے جو سماجی ویب سائٹوں پر، سوات سے تعلق رکھنے والے ایک سولہ سال کی لڑکی پر دشنام طرازی اور لعنت ملامت کی بوچھاڑ کر دی جسے گزشتہ سال مذہبی شدّت پسندوں نے سر پر گولی ماری تھی-

ملالہ یوسفزئی اس حملے میں بال بال بچی، اور صحتیابی کے لئے پاکستان میں فوجی ڈاکٹروں اور یو اے ای اور یو کے میں سرجنوں نے اسکا علاج کیا-

اس کے بعد اس بچی نے اقوام متحدہ میں کے سامنے ایک غیر معمولی تقریر پیش کی، جس میں عالمی امن اور تعلیم نسواں کے لئے درخواست کی گئی- سننے میں اپنی بدگوئی کرنے والوں سے کی گنا زیادہ سمجھدار، معقول اور متاثر کن محسوس ہوئی-

جس شام اسکی تقریر پیش کی گئی، میں نے ٹویٹر اور فیس بک کا فوری جائزہ لیا، اور ان پاکستانیوں کے پروفائل دیکھے جو ملالہ کی تقریر کے بعد جیسے آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے تھے-

حالانکہ زیادہ تر پاکستانیوں نے اس بہادر لڑکی کے لئے نمایاں تحسین و آفریں کا مظاہرہ کیا، میں نے فیس بک اور ٹویٹر پر ایسے بیشمار، دیکھنے میں بلکل نارمل مرد و خواتین کی بڑبراہٹ دیکھیں جنہوں نے اس پر امریکی/مغربی ایجنٹ ہونے، ایک جھوٹ، اور دھوکہ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا-

تمام بدگو، دیکھنے میں تعلیمیافتہ نوجوان شہری تھے جن کی دلچسپی پاپ میوزک، بالی ووڈ/ہالی ووڈ فلموں اور دوسرے تفریح میں تھی- اس کے ساتھ ہی ان میں سے زیادہ تر عمران خان کے مداح بھی نظر آۓ-

ایک پی ٹی آئی کراچی کے ممبر نے مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ، خان جنہوں نے ملالہ کی تقریر والے دن کچھ بھی ٹویٹ نہیں کیا تھا، یہ واضح ہونے کے بعد کہ ملالہ کے بارے میں ٹویٹر اور فیس بک پر بدگوئی کرنے والوں کی بڑی تعداد کی ڈسپلے پکچر پر خان کی تصویر لگی ہے یا وہ پی ٹی آئ خاندان سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو آخرکار، خان صاحب نے، ملالہ کی تعریف میں ٹویٹ کیا-

تاہم، تمام لوگ پی ٹی آئ یا عمران خان کے مداح نہیں تھے- میں کچھ مہذب، عقلمند اور ہمدرد لوگوں کو بھی جانتا ہوں-

لیکن سوال پھر وہیں رہتا ہے کہ: کوئی کس طرح، جس کی اپنی نوجوان بہن یا بیٹی ہو یا کوئی ہم جماعت ہو، ایک ایسی اسکول کی بچی کے بارے میں بدگوئی کر سکتا ہے جسے ایک شخص نے بھرپور نفرت کے ساتھ گولی ماری ہو، جو یہ سوچتا ہو کہ اس کے علاوہ باقی سب لوگ گناہ گار ہیں اور مارے جانے کے لائق ہیں-

ہم اس مفروضے کی طرف واپس چلتے ہیں جس میں مینسن کے مداحوں کی نفسیاتی-پروفائل بنانے کی کوشش کی گئی تھی- کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان میں وہ لوگ جو مرد، خواتین اور بچوں کا قتل عام، مذہب اور ایمان کے نام پر کر رہے ہیں مجرمانہ خبطی ہیں تو کیا وہ جو بندوق کا ٹریگر نہیں دباتے، یا خود کو مسجدوں، مزاروں یا مارکیٹوں میں بم سے نہیں اڑاتے، لیکن ہمیشہ سفاکیت کے ان مظاہروں کا دفاع کرتے ہیں، تاویلیں پیش کرتے ہیں، حد یہ کے انکی عظمت کے گن گاتے ہیں، کسی حد تک فاترالعقل نہیں ہیں؟

میں کوئی ماہرنفسیات نہیں ہوں، اور ہو سکتا ہے غم و غصّے میں، میں ان پر پاگل ہونے کا لیبل لگا دوں- لیکن ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے، اپنے بیحد پرسکون لمحات میں بھی، میں یہ فریاد کرنے پر مجبور ہوں کہ اگر یہ لوگ فاترالعقل نہیں بھی ہیں تو پھر بھی کسی حد تک ذہنی پسماندہ ضرور ہیں اور انہیں نفسیاتی مدد کی اشد ضرورت ہے-

اور جس طرح سے اس ملک میں معاملات چل رہے ہیں ہم سب کو شاید ضرورت ہے-


ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

نفسیاتی مدد کی ضرورت -Siasi Tv Aug 05, 2013 07:39pm
[…] http://urdu.dawn.com/2013/07/26/smok…ot-quite-sane/ […]

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025