منی مرگ، فیری میڈوز تا رتی گلی: ہمالیائی گھاس کے میدانوں سے...
لاہور میں حبس بھرے گرم ترین دن گزر رہے تھے۔ ساون کا مہینہ تھا۔ میرے گھر کے برابر لگے آم کے درخت پر پپیہے کی جوڑی نے گھونسلا بنایا تھا۔ ان کی گوں گوں کی آوازیں بھری دوپہر میں میرے کمرے تک آتی رہتیں۔
کبھی کبھار جب ان کی آواز تیز ہوجاتی تو میں اپنے کمرے کی کھڑکی پر لٹکتی نیلی چق اٹھا کر ان کے درخت سے لٹکتے گھونسلے کو دیکھتا۔ مادہ اپنی چونچ سے گھونسلے کے تنکوں کو سنوارتی رہتی اور نَر اس کی مدد کو تنکے اپنی چونچ سے پکڑ کر لاتا رہتا۔
ساون کی ایک دوپہر میں بارش کی جھڑی لگی۔ پپیہے کا جوڑا اس دن خاموش تھا۔ میں نے کھڑکی کی چق ہٹا کر دیکھا۔ وہ دونوں بارش سے بچنے کی خاطر اپنے گھونسلے میں دبکے بیٹھے تھے۔ گھونسلا شاخ یوں لٹک رہا تھا جیسے درخت پر پھل آیا ہو۔ دونوں کا تنکا تنکا جوڑتے بنا یہ گھر قطرہ قطرہ بکھر رہا تھا۔ میرے ذہن میں مارموٹ کی سیٹی گونجنے لگی۔
اس دوپہر میں نے لاہور کو چھوڑ دیا۔ میرا ارادہ ہمالیائی سلسلے میں پھیلے گھاس کے میدانوں پر قدم رکھنے کا تھا۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ دنیا کا عظیم ترین پہاڑی سلسلہ ہے جو 6 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل چین، نیپال، میانمار، افغانستان اور بھارت سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہے۔ ایورسٹ اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔
یہ عظیم پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لے کر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ میرا ارادہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں واقع نانگا پربت کے دامن فیری میڈوز، ضلع استور میں واقع دیوسائی کے میدان، برزل پاس کو عبور کرتے منی مرگ و ڈومیل کی وادیوں سے واپس آکر آزاد کشمیر میں واقع سب سے بڑی جھیل رتی گلی جانے کا تھا۔ یہ سارا علاقہ کھلے گھاس کے میدانوں پر مشتمل ہے جو مارموٹ کا گھر ہے۔
مارموٹ سے میرا عجب انسیت کا تعلق ہے۔ مجھے ان کی سیٹی سننا اچھا لگتا ہے۔ ان کی آواز مجھے ناسٹالجیا کا شکار کردیتی ہے۔ مسافر کا کل اثاثہ اس کے بیتے شب و روز ہی تو ہوتے ہیں جو یاد آنے لگتے ہیں۔ لاہور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ بالاکوٹ کے آتے دھند بھری صبح دریائے کنہار پر اتر رہی تھی۔ بالاکوٹ گزرا، گاڑی ناران کی وادی میں دریائے کنہار کے ساتھ چل رہی تھی۔
ایک نئی صبح ہوچکی تھی۔ پہاڑوں پر دھند چھائی تھی۔ بادلوں نے آدھا آسمان ڈھک دیا تھا۔ سورج ایک سمت سے طلوع ہوا چاہتا تھا۔ لوئر ہمالیہ کے پہاڑ سبزہ اوڑھے دھند کی سفید چادر تانے کھڑے تھے۔ دریا کہیں نیچے چپ چاپ بہہ رہا تھا۔ مقامی لوگوں کی نقل و حمل شروع ہوچکی تھی۔ پہاڑوں میں شام جلد آجاتی ہے تو دن بھی جلد شروع ہوجاتا ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے بیتی کئی صبحیں دھیان میں آنے لگیں۔ لولوسر جھیل ویران تھی۔ سیاح اپنے ہوٹل کے کمروں میں ابھی سوئے پڑے تھے۔ اس جھیل پر سیاحوں کی بھرمار ہوا کرتی ہے۔ ایسے مقام جو آپ نے رش میں دیکھ رکھے ہوں ان کو یوں سنسان دیکھ کر دل نہ جانے کیوں اوب جاتا ہے۔
بابوسر پاس گزرا۔ سردی نے لپیٹ میں لے لیا۔ بابوسر دھند میں مکمل گُم تھا۔ سوائے سڑک کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک کوہستانی نوجوان اپنے پالتو کتے کے ساتھ سڑک کنارے چپ چاپ کھڑا نیچے دھند میں گُم وادی میں نہ جانے کیا دیکھ رہا تھا۔ سفر، سفیدی میں بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے۔ چلاس کے آتے آتے گرمی پھر سے لوٹ آئی تھی۔ دریائے سندھ ساتھ آن لگا تو پسینہ بالوں سے بہتا رہا۔ سلسلہ کوہِ قراقرم کے تپے ہوئے پہاڑوں کے بیچ گاڑی چلتی رہی۔ شیر دریا پہلو بدلتا رہا۔
رائے کوٹ پل کے آتے آتے دوپہر ہو رہی تھی۔ گاڑی کو پارکنگ میں لگا کر جیپ لی اور فیری میڈوز کی جانب سفر کا نیا باب کھلنے لگا۔ جیپ اس کچے تنگ راستے پر دھول اڑاتے بھاگتی رہی۔ تاتو گاؤں پہنچ کر رکنے تک ڈرائیور اور میں چونا مٹی کے بت بن چکے تھے۔ تاتو گاؤں جیپ کا آخری اسٹاپ ہے۔ یہاں سے فیری میڈوز کا راستہ ڈھائی سے 3 گھنٹے پیدل مسافت کا راستہ ہے۔ تنگ سے ٹریک پر چلتے، رکتے پڑتے، شام اترنے لگی۔ نانگا پربت کا منظر سامنے کھلا جس کی چوٹی پر سورج آخری آخری بوسہ دے رہا تھا۔ گھاس کا میدان تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔ کیمپ سائٹ پہنچ کر مسافر ڈھے گیا۔ قاری رحمت میری آمد کی خبر سُن کر میرے کیمپ میں آگیا۔
قاری رحمت فیری میڈوز کاٹیجز کا مالک ہے۔ اس نے جنت ارضی یعنی فیری میڈوز پر نانگا پربت کے سائے تلے ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے۔ قاری رحمت کی کہانی اس کی زبانی سُنی جو بڑی دلچسپ معلوم ہوئی۔
’صاحب میں پہلے ایک مدرسے میں قرآن پڑھاتا تھا۔ 1992ء میں مجھے 1200 روپے تنخواہ ملتی تھی مگر ایسا ہوتا تھا کہ دُور دراز سے کوئی بندہ اپنا بچہ مدرسے داخل کرانے آجاتا تو اسے چائے پانی پلانا پڑتا جو میں جیب سے یعنی تنخواہ سے بندوبست کرتا تو صاحب مہینے کے آخر تک میری ساری تنخواہ اسی چائے پانی میں صَرف ہوجاتی۔ گھر بار کے لیے کچھ نہیں بچتا تھا۔ تنگ آکر میں نے استعفی دے دیا اور پھر ایک سال بالکل بے روزگار رہا۔ اس زمانے میں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کروں۔ پڑھنا لکھنا مجھے آتا نہیں تھا نہ میرے پاس کوئی ہنر تھا۔
’ایک دن صاحب میں گلگت گیا تو وہاں ایک بندے سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھے پریشان دیکھ کر کہا کہ تم فیری میڈوز میں ہوٹل کیوں نہیں شروع کرتے؟ جگہ میں تم کو بتاتا ہوں۔ فیری میڈوز میں 1992ء میں رحمت نبی کا ہوٹل ہوتا تھا اس سے 10 منٹ پیدل مسافت پر آگے مقامی لوگوں کی مشترکہ جگہ تھی جسے ہم شاملاٹ کہتے ہیں۔ اس شخص نے مجھے وہ جگہ بتائی تو میں اسی دن وہیں سے اٹھا گلگت سے رائے کوٹ کے پُل تک مسافر گاڑی میں آیا اور پُل سے پیدل چلتا 6 سے 7 گھنٹوں بعد شام تک میں اسی جگہ پہنچ گیا جہاں آج میرا ہوٹل فیری میڈوز کاٹیجز ہے۔
’صاحب میں نے وہاں پہنچتے ہی پتھروں سے جگہ کی حاشیہ بندی شروع کردی۔ ساری رات میں پتھر ڈھو کر لگاتا رہا اور صبح تک ہوٹل جتنی جگہ کی حاشیہ بندی کردی، پھر وہاں ہوٹل بنانا شروع کیا۔ جیب میں 800 روپے تھے۔ جنگل سے لکڑی لاتا، تراشتا اور تعمیر میں لگا دیتا۔ گزارے جتنا ہوٹل کھڑا تو کرلیا مگر 5 سال بیکار رہا کیونکہ تب مقامی سیاح تو آتے نہیں تھے، صرف غیر ملکی کوہِ پیما یا سیاح آتے اور وہ بھی اپنے کیمپ لگا لیتے اور آج یہ حالت ہے کہ گرمیوں میں فیری میڈوز میں جگہ نہیں ملتی میرا ہوٹل سارا سیزن بُک رہتا ہے۔‘
میں نے اسے کہا، ’رحمت روزی تو بے شک خدا دیتا ہے مگر تم نے کبھی سوچا کہ تم ایک پہاڑ نانگا پربت کے وسیلے سے کما رہے ہو کیونکہ اسی کو دیکھنے لوگ پیدل چل کر تمہارے پاس آتے ہیں؟‘
قاری نے ہنستے ہوئے کہا، ’صاحب ہم ایک اور وسیلے سے بھی کما رہا ہے۔‘
میں نے پوچھا، ’اور کون سا وسیلہ؟‘
بولا، ’آپ سامنے ہی تو بیٹھا ہے ہمارا وسیلہ۔‘
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’مگر قاری میں نے تو فیری میڈوز پر ابھی کچھ نہیں لکھا۔‘ توصیف و تعریف جب بڑھنے لگی تو میں نے بات کا پہلو بدلنے کے لیے پوچھا ’چھوڑو، جرمن کوہِ پیما میسنر کی سناؤ۔‘ اس کے بعد قاری رحمت بولتا چلا گیا اور میں کوہِ پیماؤں کے قصے سنتا سنتا سو گیا۔
اگلی صبح اُتری تو فیری میڈوز کے گھاس کا میدان دھوپ چھاؤں کے کھیل میں مشغول تھا۔ سامنے ہمالیہ کا نگینہ دھوپ میں چمک رہا تھا۔ برف میں دبا نانگا پربت دمک رہا تھا۔ سفید جادو چل رہا تھا۔ اسی جادو کے زیرِ اثر جرمن کوہِ پیما کھچے چلے آتے ہیں۔ بابائے کوہِ پیمائی رائن ہولڈ میسنر کے بھائی کو اسی جادو نے کھا لیا تھا۔ اسی چوٹی کے دامن میں جرمن کوہِ پیماؤں سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے کوہِ پیماوں کا قبرستان ہے۔
یہ قاتل پہاڑ اب تک بیسیوں کوہِ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ آسٹرین کوہِ پیما ہرمن بہول نے 1953ء میں اسے جب پہلی بار سَر کیا تو اس سے قبل 31 کوہِ پیما اس قاتل چوٹی کے آگے جان دے چکے تھے۔ ہرمن بہول نے اپنی کتاب میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس دن وہ چوٹی سَر کرنے کو آخری چڑھائی چڑھ رہا تھا اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی چل رہا ہے۔ خیموں کی رسیاں خود بخود کٹ جاتی تھیں۔ ہرمن بہول نے غیر مرئی مخلوق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
سفید جادو کے اثر سے نکلنے تک سورج سَر پر آن کھڑا تھا۔ فیری میڈوز سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس ہمالیائی گھاس کے میدان پر میں نے آخری نظر ڈالی۔ نانگا پربت 8126 میٹر کی بلندی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ رائے کوٹ کا پل آیا۔ نئی شاہراہِ ریشم کا آغاز ہوا۔ شیر دریا پہلو بدل کر دائیں ہاتھ آگیا۔ استور جاتی سڑک کو گاڑی مڑگئی۔ یہ سڑک زیرِ تعمیر ہونے کی وجہ سے نہایت خستہ حالت میں تھی۔ دیکھ بھال کر سفر ہوتا رہا۔ دریائے استور ہمیشہ کی طرح شوریدہ، جھاگ اڑاتا ساتھ ساتھ رہا۔ استور شہر میں داخل ہوا تو ایک اور شام وادی پر اتر چکی تھی۔
گلگت بلتستان کا ضلع استور بہتے پہاڑی نالوں، ندیوں، جھیلوں اور فلک شگاف سرسبز پہاڑوں کی زمین ہے۔ کُل آبادی ایک لاکھ 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہیں سے ایک راہ راما میڈوز کی جانب مڑتی ہے جہاں چونگڑا کا پہاڑ سیاحوں کا استقبال کرتا ہے۔ ایک راہ رٹو اور ترشنگ و روپل کے گاؤں کو جا نکلتی ہے جہاں نانگا پربت کا شمالی رخ صاف نظر آتا ہے۔ ایک سڑک چلم چوکی سے ہوتی ہوئی برزل پاس اور منی مرگ کی راہ لیتی ہے تو وہیں چلم چوکی سے ایک راستہ شیوسر جھیل اور دیوسائی نیشنل پارک کو جا نکلتا ہے۔
استور کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو غازی مخپون جو کوہِ نورد تھا، فارس سے سفر کرتا اس خطے میں پہنچا۔ اس کی شادی اسکردو کے شاہی خاندان میں ہوئی۔ شہزادی سے 4 بچے پیدا ہوئے جو اسکردو، استور، روندو، اور کھرمنگ کے حاکم بنے اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا یہاں تک کہ استور مخپون خاندان سے نکل کر ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
استور بازار میں ہجوم تھا۔ جیپوں کا شور انسانوں کے شور میں گھلا جا رہا تھا۔ یہاں سے میں نے پھر ایک جیپ لی۔ آگے کا تمام راستہ کار کے قابل نہیں تھا۔ بازار گزرا۔ جیپ چلم چوکی کی سمت دوڑتی رہی۔ پاس سے گزرتے مقامی لوگ ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے تو میں بھی ہاتھ کے اشارے سے جیپ میں بیٹھا جواب دے دیتا۔ چیڑ کے درختوں کے سائے سفر جاری رہا۔ وادی کھلنے لگی۔ چلم چوکی تک پہنچتے دن کا ایک پہر گزر چکا تھا۔
فوجی چوکی پر اندراج کروا کر منی مرگ گاؤں کی جانب سفر شروع ہوا۔ گھاس کی ڈھلوانوں کے بیچ جیپ چلتی رہی۔ جنگلی پھولوں کی بہتات تھی جو گھاس سے مل کر ہوا میں لہلہا رہے تھے۔ جگہ جگہ پانی راستہ کاٹتے۔ بکروالوں کے قافلے پہاڑی ڈھلوانوں پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ ان کے مال مویشی گھاس چڑتے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ بکروالوں، جنگلی پھولوں اور بہتے پانیوں کے ہمراہ چلتے منی مرگ کا گاؤں آیا تو جیپ کی بریک سے ٹائروں کے نیچے مٹی چڑچڑائی۔
منی مرگ سلسلہ کوہِ ہمالیہ کے دامن میں بسا دلکش گاؤں ہے۔ آبادی محنت مزدوری کرتی ہے۔ لکڑی سے بنے گھروں کی چھتیں ٹین کی چادر پر مشتمل تھیں جن پر دھوپ پڑتی تو وہ آنکھیں چندھیانے لگتیں۔ فصلوں میں عورتیں کام میں مشغول تھیں۔ بچے گلیوں میں کھیلتے پھرتے تھے۔ سرسبز پہاڑوں سے ڈھکا یہ گاؤں پاکستان کا خوبصورت ترین گاؤں ہے۔ گاؤں میں گھومتے دن تمام ہونے لگا۔ گھاس کے میدان تاریک پڑنے لگے۔ شب بسری کو میرا ٹھکانہ فوجی گیسٹ ہاوس تھا۔ منی مرگ پر رات بھی خوبصورت اتری۔ ہائے وہ شب، ٹڈیوں کے ٹرٹرانے کی آوازیں اور ستاروں سے لدا آسمان۔ رات گئے نیند اتری۔ منی مرگ کا دیپ بجھ گیا۔
سورج پربت اجال چکا تھا۔ میں دیر گئے سوتا رہا۔ ڈرائیور نے بیدار کیا تو میرے دھیان میں ست رنگی جھیل آنے لگی۔ منی مرگ سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع رینبو جھیل ڈومیل گاؤں کا حسن ہے۔ ڈومیل کی جانب جیپ چلی تو گھاس کے میدانوں میں کھلے شوخ رنگے پھولوں نے جھوم جھوم کر استقبال کرنا شروع کیا۔ ان پیلے، ارغوانی، نارنجی پھولوں کو دیکھتے ست رنگی جھیل آن پہنچی۔ اس دن جھیل پر تیز ہوا بہہ رہی تھی۔ کناروں پر اُگی گھاس کے بیچ مارموٹ کی سیٹی گونجنے لگی۔ ایک مارموٹ اپنے بل سے باہر نکل کر دونوں پنجوں پر کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی سیٹی مجھے گارڈ آف آنر لگنے لگی۔ مارموٹ نے واپس اپنی بل کی راہ لی تو میں کیمرا اٹھائے جھیل کے اطراف فوٹوگرافی میں مشغول ہوگیا۔
کسی بھی جھیل کنارے چند لمحات ایسے بسر ہوتے ہیں جیسے انسان لو بلڈ پریشر کا شکار ہوچکا ہو۔ جھیلوں نے مجھے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے۔ ان کو دیکھنے کی چاہ نے بے قرار رکھا ہے۔ ان گنت جھیلوں پر میرے قدم پڑے اور بے شمار شامیں جھیلوں کنارے ڈوبیں۔ رینبو جھیل پر بیٹھے مجھے وہ منظر یاد آنے لگا جب وادی ناران کے اندر واقع دودی پت سر جھیل کنارے کیمپ کیے بیٹھا تھا۔
سرخ پھولوں کے بیچ اس دن دودی پت سر جھیل میری ملکیت تھی۔ اردگرد کوئی بندہ بشر نہ تھا۔ حدِ نگاہ تک تنہائی، پہروں خاموشی۔ اتنے میں ایک کوہستانی شخص گھوڑے پر دُور سے چلتا آیا۔ اس نے کاندھے پر بندوق لگا رکھی تھی۔ قریب آکر کہنے لگا، ’جو کچھ ہے نکال دو۔‘
میں نے اس سے بحث نہیں کی۔ بٹوہ کھولا اور ساری رقم نکال کر اسے دے دی۔ اس نے لی اور رخصت ہوگیا۔ وہ اچھی خاصی رقم تھی۔ میں پھر بھی خوش تھا کہ میرا کیمرا بچ گیا جو میرا اصل اثاثہ تھا۔ لُٹ کر بھی مطمئن بیٹھا جھیل کو تکتا رہا۔ یہی میری اصل خوشی تھی۔ میرے سامنے جادو نگری تھی۔
شام ڈھلنے تک رینبو جھیل پر مسافر کا قیام رہا۔ ہرے کچور مناظر تھے۔ یوں گمان ہوتا تھا جیسے مصور نے سبز رنگ طشتری میں گھول دیا ہو۔ بادلوں نے رنگ بدلنا شروع کیا۔
جھیل کے پانیوں میں ٹھہراؤ آچکا تھا۔ شام کی کرنوں نے پہاڑوں کی چوٹیاں تپا کر تانبا بنا ڈالی تھیں۔ ان بھڑکتی چوٹیوں کے بیچ جھیل کے سبز پانی شانت ہوئے جاتے تھے۔ شام بیت رہی تھی۔ سکون آرہا تھا۔ منظروں نے رنگ بدلے تھے۔ جادو کا نیا باب کھل کر بند ہونے جا رہا تھا۔ سحر کا اثر دیر پا رہا۔ آسمان بجھا۔ جادو ختم ہوا۔ رنگ ہوا ہوئے۔ پانی کالے ہوئے۔ ڈومیل کا باب بند ہوا۔
جس دن دیوسائی کے گھاس کے میدانوں پر قدم پڑا شیوسر جھیل پر شام اُتر چکی تھی۔ اس رات شیوسر کنارے کیمپ میں سردی سے ٹھٹھرتا رہا۔ جھیل رنگ بدلتی رہی۔ شیوسر کنارے نہ جانے کتنی شامیں بتا چکا مگر ہر بار اس جھیل نے مجھے نئے منظر دکھائے. دیوسائی کے ان گھاس کے میدانوں میں مچھر نہیں مگرمچھر پائے جاتے ہیں۔ ان مچھروں کے کاٹنے کی ٹیس کا احساس جلد زائل نہیں ہوتا، نہ ہی یہاں پر مچھروں سے بچاؤ کا کوئی حربہ کارآمد ہے۔
پورے چاند کی رات میں بادلوں نے آسمان ڈھانپ رکھا تھا، کہیں کہیں سے چاند بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا تو جھیل دودھیائی جاتی اور پھر اندھیرا چھا جاتا۔ چاند کا بادلوں سے اور میرا مگر مچھروں سے لُکن چُھپن جاری رہا۔ رات بیت گئی۔ اگلی صبح ریچھ کی تلاش مجھے دیوسائی کے میدان کے اندر آف روڈ ہوکر نہ جانے کس مقام پر لے جاچکی تھی۔ مارموٹوں کی سیٹیاں گونج گونج کر ان میدانوں میں راگ آلاپ رہی تھیں۔ میں جیپ پر دیوسائی کی مرکزی جیپ ٹریک چھوڑ کر کہیں اندرون کو آچکا تھا۔
ہمالیائی بھورے ریچھ کو میں دیوسائی میں پہلے 2 بار دیکھ چکا تھا اور مزید دیکھنے کی چاہ مجھے گُم کرچکی تھی۔ دیوسائی 2 الفاظ کا مجموعہ ہے، دیو اور سائی یعنی دیو کا سایہ۔ اس پُراسرار میدان میں زندگی بسر کرنا آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ درجہ حرارت موسم سرما میں منفی 30 ڈگری تک گر جاتا ہے۔
انسانوں سے پاک یہ میدان جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ ہمالیائی بھورا ریچھ، ہمالیائی سرخ لومڑی، گولڈن ایگل سمیت کئی نایاب جانور یہاں پائے جاتے ہیں۔ کشمیر سے گزر کر اسکردو یا استور کی راہ لینے والے بکروالوں کی گزرگاہ بھی یہی میدان ہے۔ یہ بکروال پنجاب کے میدانی علاقوں سے مال مویشی لیے چلتے ہیں اور ان کو گھاس چراتے کشمیر و دیوسائی عبور کرکے 4 سے 5 ماہ میں اپنی منزل پر پہنچنے تک ان کی بھیڑ بکریاں اور گائیں پل کر صحتمند ہوچکی ہوتی ہیں۔
بکروالوں کی زندگی مسلسل سفر ہے۔ سفر کے دوران خاندان کے جس فرد کی بیماری یا ناگہانی آفت سے موت واقع ہوجائے اس کو وہیں دفنا دیا جاتا ہے۔ ان کی قبریں پنجاب کے میدانوں سے لے کر دیوسائی کے میدانوں تک بکھری ہوئی ہیں۔
ایک بکروال اپنی بھیڑوں سمیت وہاں آ نکلا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں کو جاتے ہو؟ وہ بولا، ’اس جگہ کو چھوٹا دیوسائی کہتے ہیں۔ میں کشمیر کو عبور کرتا آ رہا ہوں اور آگے اسکردو میری منزل ہے۔‘ اس دن گھومتے پھرتے ایک چھوٹی جھیل پر جا نکلا جس کے کنارے ایک بکروال خیمہ لگا رہا تھا۔ ایک چھوٹی سی بچی گڈریا بنی اپنی بھیڑوں کو ہانک رہی تھی۔ جنگلی سفید پھولوں نے جھیل کے کناروں پر گوٹا لگا رکھا تھا۔
اس دن مارموٹ دھوپ سینکنے بلوں سے باہر بیٹھے تھے۔ سامنے کھلا پانی تھا۔ بچی اپنی بھیڑوں کو ہانکتی رہی۔ مارموٹ سیٹیاں بجاتے رہے۔ ہمالیائی گھاس کے ان میدانوں میں آخری دن بیت رہا تھا۔ میں دیوسائی سے ہوتا چھوٹے دیوسائی آن نکلا تھا اور اب یہیں گھاس پر لیٹا منظروں کو آنکھ کے پردے پر سمیٹ رہا تھا۔ گلگت بلتستان کی حدود میں ہمالیائی پٹی کا اختتام تھا۔ آگے کشمیر کی سب سے بڑی جھیل رتی گلی میری راہ دیکھ رہی تھی۔
استور و ناران گزرا، مظفرآباد آیا۔ جس دن میری گاڑی مظفرآباد میں داخل ہوئی شہر سوگ میں ڈوبا تھا۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جارحیت پر یوم سیاہ منایا جا رہا تھا۔ بازار مکمل بند تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔
مظفرآباد گنجان آباد شہر ہے۔ اس شہر کو بھی ہمیشہ بارونق دیکھا۔ اس دن ایسی ویرانی دیکھ کر دل خود ہی بجھ گیا تھا۔ اس پار بسنے والے کشمیریوں کے دل آج بھی اس پار بسنے والوں کے لیے ویسے ہی دھڑکتے ہیں۔
سرحدیں دلوں میں لکیر نہیں ڈال سکیں۔ سوگوار شہر کو چھوڑتے ہوئے گاڑی نے وادی نیلم کی راہ لی۔ دریائے نیلم کی ہمسری میں چلتے کیرن سیکٹر آیا۔
فوجی چوکی میں اندراج کے واسطے رکا تو جوان بولا ’اگر کوئی ضروری کام نہیں تو آپ آگے نہ جائیں۔ 2 دن قبل کیرن سیکٹر پر فائرنگ ہوئی ہے۔ 4 لوگ شہید ہوئے ہیں۔ یہ سڑک بالکل دشمن کے سامنے ہے۔‘ میں نے اس سے تازہ صورتحال معلوم کرکے تسلی کی اور بولا ’نیلی جھیل میری منتظر ہے، جانا ضروری ہے۔ اگر واپسی پر آپ کو نہ ملا تو میرا آخری سلام‘ جوان سُن کر مسکرایا اور سڑک پر لگا بیریئر ہٹا دیا گیا۔
وادئ نیلم کا چھوٹا سا قصبہ دواریاں آیا۔ یہیں سے رتی گلی جھیل کا راستہ نکلتا ہے۔ جیپ لی اور سفر جاری رہا۔ جیپ رتی گلی جھیل کو جاتے ٹریک پر چیونٹی کی رفتار چلتی رہی۔ یہ پتھروں کا قبرستان تھا۔ بڑے بڑے پتھروں پر مشتمل اس جیپ ٹریک پر سفر درد بھرا سفر تھا۔ ان پتھروں پر سے گزرتے جیپ میں جھٹکے سہتے ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد رتی گلی بیس کیمپ آیا۔ بیس کیمپ کیا تھا، خیموں کا شہر آباد تھا۔ سیاحوں کا ہجوم تھا۔ گھوڑے والے ہر سیاح کو روک روک کر جھیل تک لے جانے کا معاوضہ طے کر رہے تھے۔ بیس کیمپ سے جھیل تک کا ٹریک ڈھائی کلومیٹر تھا مگر یہ ساری چڑھائی تھی۔ سیاح گھوڑوں اور خچروں پر سوار جھیل کو جا رہے تھے۔
رتی گلی کا منظر کھلا تو میں چڑھائی چڑھنے کی وجہ سے ہانپ رہا تھا۔ میرے سامنے نیلگوں پانی موجود تھا۔ ایسی خوبصورت جھیل پر نظر پڑی تو طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ جھیل کے کنارے اترا اور آلتی پالتی مارے بیٹھ کر ٹکٹکی باندھے رتی گلی جھیل دیکھتا رہا۔
شام کی سنہری کرنیں پانیوں اور اطراف کے پہاڑوں پر بکھر بکھر کر انہیں اور بھی رنگین بنا رہی تھیں۔ میرے دھیان میں وہ سارے مناظر آرہے تھے جو میں دیکھتا آرہا تھا۔ گھاس کے ہرے کچور میدانوں میں چلتے، جنگلی پھولوں سے بات کرتے، مارموٹوں کی سیٹی سنتے، بکروالوں کے قافلے کے ساتھ وقت بتاتے۔
شام ڈھلنے لگی تو پیشانی جھیل کنارے سبز مخملی قالین سے مس ہوئی۔ ’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘ وہ سجدہ جو چلتے چلتے کوہ کی پتھریلی پگڈنڈی یا برفیلی چوٹی پر ہوجاتا ہے۔ جو دیوسائی کے میدانوں میں جبیں میں تڑپنے لگتا ہے۔ جو کشمیر کے حُسن پر وارا جاتا ہے اور وہ سجدہ جب انسان اپنی ہی ذات سے گھبرا کر پیشانی زمین پر رکھ دیتا ہے۔
لاہور میں حبس بھرے دن تھے۔ میں اپنے کمرے میں لیٹا سفر کی تھکن بہلا رہا تھا۔ دھوپ نیلی چق سے چھن کر فرش پر نیلاہٹ پھیلا رہی تھی۔ کھڑکی بند کرنے کو اٹھا تو حادثہ ہوچکا تھا۔ پپیہے کا جوڑا رخصت ہوچکا تھا۔ گھونسلا بکھر گیا تھا۔ آم کا درخت اداس کھڑا تھا۔ اس کا سایہ روٹھا روٹھا لگ رہا تھا۔
رونق ختم ہوئی۔ نیا گھونسلا بنانے کو پرندے کسی اور مقام پر کسی اور درخت پر بسیرا کرچکے تھے۔ مسافر کا ٹھکانہ بھی تو گھڑی بھر کا ہوتا ہے۔ میرے ہاتھ کی لکیروں میں نئے سفر کی لکیر ابھر چکی تھی۔ کسی اور مقام پر، کسی اور وادی میں، کسی اور کی ہمسفری میں۔ آنکھ ڈبڈبائی۔ کھڑکی بند ہوئی۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
لکھاری یونیورسٹی آف لاہور کے کریئٹیو آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔
ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں: سید مہدی بخاری فوٹوگرافی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔