• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

افسانہ : تیسرے پہر کا خواب

شائع November 5, 2019

اسے محبت ہوئی تو یوں محسوس ہوا کہ یہی وہ کیفیت تھی جس کی تلاش میں وہ مدتوں مارا مارا پھرتا رہا۔ پھر ایک شام وہ لڑکی جو اس کی سچی محبت تھی اسے یہ کہہ کر کسی اور کی محبت میں گرفتار ہوگئی کہ وہ ایک بالکل بکواس نوجوان ہے۔

آدمی کی بکواسیت کا تعلق اس کی معیشت سے ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل عجیب تھی لیکن وہ اپنی خالی جیب کو کیسے بھر سکتا تھا؟ زندہ رہنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے اور کام ملنے کے لیے سفارش چاہیے تھی جو اس کے پاس نہیں تھی۔ کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا سوائے خواب دیکھنے کے سو وہ خواب دیکھتا رہا۔ اسے خواب دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ سوچتا کہ یہ کیسا انوکھا کام ہے کہ آدمی جب سوتا ہے تو کسی اور جہان میں چلا جاتا ہے۔ پھر ایک شب اس نے 3 خواب دیکھے۔

تیسرے خواب میں اس نے دیکھا کہ چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا اور ہر طرف مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ دوسرا خواب زمین پر ایک ایسے بھوکے آدمی کا تھا جو اپنے پیٹ سے انتڑیاں نکال کر نچوڑ رہا تھا۔ وہ جاگا تو اس نے دیکھا کہ اس نے اپنا پیٹ پکڑ رکھا ہے۔

پہلے خواب میں اس کی سچی محبت اس کے جیب کی تلاشی لے رہی تھی لیکن اسے کچھ نہ ملا تو وہ اس کے منہ پر تھوک کر چلی گئی۔ وہ جاگا تو اسے اپنا چہرہ گیلا محسوس ہوا۔ صرف خوابوں کے سہارے تو عمریں نہیں کاٹی جاسکتیں، سانس کی آری چلتی ہے تو سارے خوابوں کو چیرتی چلی جاتی ہے۔

کب تک ناکام محبت کو یاد کرکے آنسو بہائے جاسکتے تھے جب کہ آدمی ایک ویٹر ہو؟ غریب آدمی کے پاس عموماً بہت سی باتوں کے لیے وقت کم ہوتا ہے، اس لیے وہ فوراً اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا۔

وقت پَر لگا کر اُڑتا چلا گیا، اس کی شادی ہوگئی ایک بچہ ہوگیا لیکن وہ ویٹر کا ویٹر رہا۔

دال دال دال کب تک آدمی دال کھاتا رہے جب کہ لوگ ایک ہزار کا برگر کھاکے آدھا چھوڑجاتے تھے۔

ایک ویٹر کو کبھی سچی محبت نہیں مل سکتی۔ اب بھلا جس آدمی کو مکمل کھانا نہ مل سکے اسے مکمل محبت کس طرح مل سکتی ہے؟

’منہ ہاتھ دھو کے آجاؤ دال بن چکی ہے‘، اس کی بیوی نے کہا۔

پہلا لقمہ ابھی لیا ہی تھا کہ بیوی کی آواز آئی، ’وہ سنیے دکاندار کہہ رہا تھا کہ 2 ماہ سے پیسے نہیں ملے اگر پرانے پیسے نہیں دیے تو کل سے سامان نہیں ملے گا‘۔

’یعنی اب دال بھی نہیں؟‘، اس نے دل میں سوچا۔

دوسرا لقمہ لیا تو آواز آئی کہ ’وہ بجلی کا بل 2 ہزار آیا ہے۔‘

تیسرے لقمے کی باری آئی تو خبر ملی کہ ’مالک مکان آیا تھا۔ کہہ رہا تھا اگر اس ماہ کرایہ ادا نہیں کیا تو سامان باہر پھینک دے گا، تو کیا اب ہم فٹ پاتھ رہیں گے؟‘، بیوی نے پوچھا۔

’مجھے بھوک نہیں، میں سونے جارہا ہوں‘، اس نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

’وہ میرے کسی سوال کا جواب تو دیں‘، بیوی نے پیچھے سے آواز دی۔

’کل تنخواہ مل جائے گی‘، اس نے بتایا۔

نیند آچکی تھی اور اسے خواب میں کوئی آواز دے رہا تھا۔

’یہاں سے آگے جنگل ہے۔ تمہیں یہیں سے لوٹنا ہوگا اگر تم آگے گئے تو جنگلی بھیڑیے تمہیں کھا جائیں گے‘۔

’لوٹ آؤ‘۔

’جنگل یہاں سے کتنا دُور ہے؟‘، اس نے پوچھا

’ایک قدم کے فاصلے پر جنگل ہے‘۔

’تو ابھی ہم کہاں ہیں؟‘

’جنگل میں ...‘

’پھر ایک قدم کا فاصلہ؟‘

’وہ فاصلہ صرف تمہارے ذہن میں ہے‘۔

وہ ڈر کر جاگ گیا۔

’کہاں جاؤں؟ آخر کہاں؟‘، اس نے جاگتے ساتھ ہی سوچا۔

آج آپ کی آنکھ جلد کھل گئی؟ بیوی نے اسے جاگے دیکھا تو پوچھا۔

’بس آج جلدی کام پر جانا ہے،‘ اس نے کہا لیکن اسے سمجھ نہ آئی کہ اتنی جلدی صبح کیسے ہوگئی۔ ایک خواب میں رات کٹ گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ گزشتہ زندگی بھی ایک خواب ہی تھی۔

’آج تنخواہ مل جائے گی نا؟‘، بیوی نے پوچھا۔

’ہاں شاید ...‘، اس نے کہا۔

وہ گھر سے صبح صبح نکل پڑا۔ سڑکوں پر ٹریفک جام تھا، جگہ جگہ کنٹینرز رکھے ہوئے تھے۔

’بھائی یہ گاڑیاں چل کیوں نہیں رہیں؟‘، اس نے ایک شخص سے پوچھا۔

’لگتا ہے آپ خبریں نہیں سنتے؟‘ اس آدمی نے کہا۔

’کیوں کوئی خاص خبر ہے کیا؟‘

’اپوزیشن حکومت گرانے آرہی ہے‘۔

’تو یہاں حکومت کھڑی ہوئی ہے؟‘، اس نے پوچھا۔

’بس ہڑتال ہے آج‘، آدمی نے جواب دیا۔

’کتنے روز کی؟‘، اس نے پوچھا۔

’ابھی کچھ معلوم نہیں‘، آدمی نے کہا اور دوسری جانب دیکھنے لگا۔

یہ حالات دیکھ کر بس اس کے دماغ میں ایک ہی لفظ گونج رہا تھا، تنخواہ، نتخواہ، تنخواہ۔

’کھولو سڑکیں کھولو، گاڑیاں چلاؤ‘، وہ چلّایا۔

اس آدمی کو کیا ہوگیا ہے؟ سڑک کنارے کھڑے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا۔

وہ سڑک پر دوڑنے لگا۔

’سڑک کھولو‘۔

وہ کنٹینر پر لاتیں برسانے لگا۔

پولیس والے کی نظر پڑی تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور اس پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

’اپوزیشن کی حمایت کرتا ہے سالا، کرتا ہوں میں تمہارا بندوبست‘، اسے لاٹھیاں پڑتی رہیں، پھر پولیس والا اسے گھسیٹتے ہوئے لے کر گیا اور پولیس وین میں ڈال دیا۔

’تنخواہ، تنخواہ، تنخواہ‘

’دال، دال، دال‘

’بِل، بِل، بِل،‘

جیل میں وہ جاگتا رہا پھر رات کے تیسرے پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی کا سامان باہر گلی میں پڑا ہے اور ایک عورت صندوق کے اوپر بچہ اٹھائے رو رہی ہے۔ پیچھے دیوار پر لکھا ہے۔

’بچہ برائے فروخت‘۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

شہریار قاضی Nov 05, 2019 09:07pm
آہ! دلسوز کہانی نہ جانے کتنے ہی کردار "ان رکاوٹوں "کی بھینٹ چڑھے ہوں گے
KB Nov 06, 2019 10:03am
Too Depresssing
Engineer Nov 06, 2019 11:57am
Really this is the misfortune of country there is lack of honest and humanity is society specially in higher class and leadership.
Hira Nov 07, 2019 12:20pm
Zindagi !!!!

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024