• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

'پہاڑ نوجوانوں کے لیے اہم ہیں'

شائع December 11, 2019
فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

سال 2019 ختم ہونے والا ہے، یہ برس سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت سی اہم پیش رفت کے باعث عشرے کا یادگار سال رہے گا۔

اپریل 2019 میں سامنے آنے والی بلیک ہول کی واضح تصاویر اور اسپیس ایکس کی خلا کے سفر کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔

مگر دوسری طرف دنیا بھر کے سائنسی حلقے سارا سال بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین پر نسل انسانی کو لاحق خطرات کو اجاگر کرتے نظر آئے۔

سال کے اختتام پر مختلف سائنسی جریدوں اور تحقیقی اداروں کی جانب سے اگلے سال کے لیے جن بڑے چیلنجز کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں ان میں ماحولیاتی تبدیلیاں صف اول پر ہیں۔

فی الوقت غیر ذمہ دارانہ انسانی سرگرمیوں کے باعث دنیا کے ہر خطے میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی و موسمی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ بڑھتی ہوئے عالمی درجۂ حرارت سے انٹارکٹیکا کے گلیشئرز پہلے کی نسبت 5 فیصد تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں جس سے ساحل سمندر پر آباد بہت سے جدید شہروں کے غرق آب ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں تو دوسری جانب بارشوں کی کمی اور خشک سالی سے دنیا بھر میں کئی نایاب جھیلیں اور دریا یا تو مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں یا تباہی کے دہانے پر ہیں۔

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

دنیا بھر میں نظام قدرت میں یہ بگاڑ صرف سمندروں، دریاؤں، جھیلوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس نے بلند و بالا پہاڑوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

زمین کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی یہ بلند و بالا چوٹیاں نا صرف انسانی ارتقا میں معاون ثابت ہوتی رہی ہیں بلکہ صدیوں سے انسانوں کو پینے کے لئے صاف پانی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ بھی ہیں۔ موسم سرما میں پڑنے والی برف موسم معتدل ہوتے ہی آہستہ آہستہ پگھلتی ہے جس سے دریاؤں میں متواتر پانی آتا رہتا ہے اس کے ساتھ پہاڑوں سے بہہ کر آتا یہ پانی زمین کو نم اور زرخیز رکھنے میں مددگار ہوتا تھا۔ مگر 3 سے 4 عشروں میں غیر ذمہ دارانہ انسانی سرگرمیوں سے ان پہاڑی چوٹیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور فی الوقت ہمالیہ سے کیلی فورنیا کے پہاڑی سلسلوں تک صدیوں پرانا پہاڑوں کا موسمی نظام تبدیل ہوچکا ہے۔

انہی تبدیلیوں اور پہاڑی سلسلوں کو لاحق خطرات کو بھانپتے ہوئے ہر برس دنیا بھر میں 11 دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے عام افراد سے لیکر کوہ پیمائی کے شوقین افراد، پیشہ ور کوہ پیما اور خاص طور پر پہاڑی سلسلوں کے قریب رہنے والے مقامی آبادی میں شعور اور آگہی پیدا کی جا سکے۔

ہر برس کی طرح 11 دسمبر 2019 کو بھی یہ دن "پہاڑ نوجوانوں کے لئے اہم ہیں" کی طرز پر منایا جائے گا۔ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ پہاڑوں کو کون سے بڑے خطرات لاحق ہیں اور نوجوان نسل ان کے سد باب میں کتنی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

1- زمینی آلودگی:

زمینی آلودگی سے اس وقت سب سے زیادہ خطرہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو لاحق ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسانوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی کے بیس کیمپ اور آس پاس کے علاقے کو کسی کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیا ہے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران دنیا بھر سے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے شوقین افراد مکمل منصوبہ بندی اور ہر طرح کے سازو سامان سے لیس نیپال یا تبت والے راستے سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کے سامان میں آکسیجن اور کھانا پکانے کے لیے گیس سیلنڈر سے لیکر چڑھائی کے لیے رسی تک تمام اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ یہ افراد مہم کامیاب یا نا کام ہونے کے بعد ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ سے روانہ ہوتے ہیں تو اپنا بچا کچا سامان ساتھ لیکر جانے کے بجائے یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 79311، کلوگرام کا کچرا کوہ پیمائی کے ہر نئے سیزن میں اس چوٹی کے اطراف جمع ہورہا ہے جس میں گیس سیلنڈر قابل ذکر ہیں۔

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

اس کے علاوہ مہم جو سب سے پہلے بیس کیمپ میں اپنے خیمے گا ڑھتے ہیں اور زیادہ عرصے تک قیام کے لیے کچھ فاصلے پر برف میں کم گہرے سوراخ کرکے عارضی ٹوائلٹ بنا لیتے ہیں۔ لیکن بیس کیمپ سے رخصت ہوتے وقت ان ٹوائلٹس کو یونہی برف ڈال کر بھر دیا جاتا ہے جو بعد میں سڑ کر ماحول کو تعفن زدہ تو کرتے ہی تھے، لیکن اب ہر برس تک جاری رہنے والے اس معمول سے برف کے ساتھ ان علاقوں کا زیر زمین پانی بھی زہریلا ہو گیا ہے۔

بیس کیمپ سے قریب ترین آبادی ' گورک شیپ' نامی گاؤں ہے جسے اس بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث شدید خطرات لاحق ہیں اور خدشہ ہے کہ اگر اس صورتحال پر قابو کرنے کے لیئے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو آئندہ چند برس میں یہ کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔

لہٰذا ضروری ہے کہ نہ صرف نیپال بلکہ دیگر ایشیائی ممالک میں نوجوان نسل اس حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کرے، تعلیمی اداروں میں ورک شاپ، سیمینار یا لیکچرز کا انعقاد کر کے اس مسئلے کو ہر فورم پر اجاگر کیا جائے تاکہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ اور اطراف کے علاقوں کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ اطراف کی آبادی جو شدید سرد موسم میں زندگی سے نبرد آزما ہے انہیں ضروریات زندگی ، تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔

2- گلوبل وارمنگ:

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی صنعتوں اور ٹریفک کے باعث فضا میں کاربن اور سلفر کی مقدار بڑھنے سے عالمی درجۂ حرارت میں ہر برس بتدریج ا ضافہ ہو رہا ہے جس کا براہ راست اثر پہاڑی چوٹیوں پر بھی پڑا ہے اور ایک جدید تحقیق سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ 20 برسوں میں پہاڑوں کے اندرون کے گرم ہونے کی شرح 75 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔جن میں ایسے پہاڑی سلسلے قابل ذکر ہیں جن کی بلندی 2000 میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔

کسی دور میں تبت کے پہاڑی سلسلوں پر برف کی تفاوت کے باعث اسے تیسرا قطب یا " تھرڈ پول" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔( واضح رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ برف شمالی اور جنوبی قطبین پر ہوتی ہے)۔ ان علاقوں میں درجۂ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے پہاڑوں پر برف بہت تیزی کے ساتھ پگھل جاتی ہے۔ تبت کا یہ پہاڑی سلسلہ ایشیاء کے 10 بڑے دریاؤں کے لئے پانی کا منبع ہے جن میں دریائے سندھ، گنگا اور می کانگ بھی شامل ہیں۔

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

جو ایشیا کی 13 کروڑ سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرتے ہیں ۔ جبکہ پوری دنیا کی نصف آبادی پینے اور زراعت کے لئے پانی پہاڑوں سے ہی حاصل کرتی ہے۔ مگر ان گلیشئر ز کے تیزی سے پگھلنے سے نئے المیے جنم لے رہے ہیں۔ ایک سے دو عشروں پہلے تک برف بہار کے آغاز سے اگست، ستمبر تک بتدریج پگھلا کرتی تھی جس سے مقامی زمین زرخیز اور نم رہتی تھی مگر اب موسم سرما میں پڑنے والی برف اپریل یا مئی تک جزوی طور پر پگھل چکی ہوتی ہے اور پانی زمین میں جذب ہو کر زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے بجائے ضائع ہو رہا ہے۔

یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور تازہ اعدادو شمار ثابت کرتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں نے کرۂ ارض کے صدیوں پرانے موسمی و قدرتی نظام میں جو خلل ڈالا ہے اسے روکنا اب ممکن نہیں رہا مگر جدید ذرائع اور نوجوان فورس کو استعمال کرتے ہوئے ان تبدیلیوں کی شرح کو سست ضرور کیا جاسکتا ہے۔

3۔ ایکو سسٹم میں تبدیلیاں:

کسی بھی علاقے میں واقع بلند و بالا چوٹیوں کا اس علاقے کے مخصوص ایکو سسٹم کو بنانے میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔ وہاں رہنے والے انسان، چرند پرند ، نباتات، زرعی فصلیں اور پھل یہاں تک کہ اس علاقے کی ثقافت اور رسم و رواج پر بھی ایکو سسٹم کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ مگر دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے اب ہر علاقے کا ایکو سسٹم شدید خطرے میں ہے اور ان تبدیلیوں میں بنیادی کردار پہاڑوں کا بڑھتا درجۂ حرارت ، جنگلات کی کمی اور بدلتے موسم ادا کر رہے ہیں۔

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

پہاڑ نہ صرف سیاحوں کی توجہ مرکز رہے ہیں بلکہ پاکستان سمیت ایشیا کے کئی ممالک سیاحت سے کثیر زر مبادلہ حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومتوں کی غفلت اور نا اہلی کے باعث اب ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیاں اور ارد گرد کے علاقے جلد ہی اپنی کشش کھودیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک کی حکومتیں ان علاقوں میں زمینی و فضائی آلودگی پر قابو پانے کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے لیے ان علاقوں کے مخصوص ایکو سسٹم کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں ۔ نوجوان خصوصا طلبہ اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ بدلتے موسموں سے ساتھ کوہ پیمائی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے ۔اگر آج کی نسل صدیوں پرانے کوہ پیمائی کے انسانی شوق کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو اسے ان کی حفاظت کے لیے کوششیں بھی کرنا ہوں گی۔

4۔ پہاڑی مٹی میں کمی

دنیا بھر میں پہاڑوں پر برف کے تیزی سے پگھلنے سے پہاڑ ی مٹی میں بتدریج کمی ہوتی جارہی ہے۔ ایک جانب اس سے لینڈ سلائڈنگ، پہاڑی تودے گرنے ، اور کوہ پیمائی کے دوران حادثات کی شرح بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب پہاڑوں کی مٹی دریاؤں میں شامل ہو کر آبی حیات کے لئے نئے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ مٹی کے اضافے سے دریاؤں میں مچھلیوں کی تعداد مستقل کم ہوتی جارہی ہے۔ دریاؤں کا پانی سمندروں میں جا گرتا ہے جہاں پلاسٹک کی آلودگی پہلے ہی کئی المیے جنم دے چکی ہے سور سمندری حیات کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

پہاڑوں پر مٹی کی کمی سے نا صرف وہ پتھریلے اور بنجر ہوتے جارہے ہیں بلکہ پہاڑوں پر جنگلات میں بھی واضح کمی نوٹ کی گئی ہے۔ پہاڑی مٹی میں کمی بتدریج کمی مستقبل میں کسی بڑے ڈیسازسٹر کا سبب بن سکتی ہے۔ خصوصا پاکستان جیسے ملک میں اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں ڈیزاسٹر منجمنٹ کبھی کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔


صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024