• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

لیگی رہنما کا آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دباؤ ہونے کا اشارہ

شائع January 12, 2020
خرم دستگیر کے مطابق آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اگر کوئی دباؤ تھا تو وہ ہماری قیادت پر تھا ہم جیسے رکن پارلیمان پر نہیں — پی آئی ایل ڈی اے ٹی ٹوئٹر اکاؤنٹ
خرم دستگیر کے مطابق آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اگر کوئی دباؤ تھا تو وہ ہماری قیادت پر تھا ہم جیسے رکن پارلیمان پر نہیں — پی آئی ایل ڈی اے ٹی ٹوئٹر اکاؤنٹ

لاہور: پارلیمنٹ میں آرمی ترمیمی ایکٹ کے منظور ہونے کے چند روز بعد ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر خان نے اشارہ دیا ہے کہ پارٹی کی قیادت پر اس قانون سازی کے لیے دباؤ تھا جبکہ لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت 'ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الحمرا میں افکار تازہ تھنک فیسٹ میں پارلیمنٹ ٹوڈے نامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ 'آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اگر کوئی دباؤ تھا تو وہ ہماری قیادت پر تھا ہم جیسے رکن پارلیمان پر نہیں'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کہا جارہا ہے کہ آرمی ایکٹ پر اراکین پارلیمان کی کوئی بحث نہیں ہوئی تو یہ سچ نہیں، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی تھی'۔

مزید پڑھیں: ضمانت کا مطلب یہ نہیں کہ رانا ثنا اللہ بری ہوگئے، فردوس عاشق اعوان

مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز کا کہنا تھا کہ پیش کردہ بل کا مسودہ اپوزیشن کو قانون سازی سے ایک ہفتے قبل دیا گیا تھا تاہم 'پارلیمنٹ کے اجلاس سے ایک روز قبل ہی کچھ ایسا دلچسپ واقعہ پیش آیا جس نے مجوزہ بل کے لیے حزب اختلاف کے ووٹ دینے کی راہ ہموار کردی'۔

سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں اس بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتا'۔

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ 'اس حقیقت کو ماننے کی ضرورت ہے کہ فوج کا سیاست سے تعلق ہے، ہم اسے مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت رہے گی'۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر آرڈیننس کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو آرڈیننس کا اختیار صرف ہنگامی صورتحال میں استعمال کرنا چاہیے، حکومت پارلیمنٹ کو اس وقت اہمیت دے گی جب پچھلے دروازے سے قانون سازی کا اختیار بند ہوجاتا ہے'۔

علاوہ ازیں عمران خان کے حوالے سے ڈان کی جانب سے پوچھے گئے سوال کہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے حوالے سے قانون سازی سے ایک روز قبل کیا ہوا تھا؟ کے جواب میں لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ سینئر وفاقی وزیر اپوزیشن کے قانون سازوں کو منانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'سینئر وفاقی وزیر نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور بل کے لیے ووٹ کا مطالبہ کیا اور وہ اس وقت ہی گئے جب ہم نے انہیں زبان دے دی'۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے آرمی ایکٹ قانون سازی کے مرحلے میں موقف کو واضح کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت 'ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف اور ان کی جماعت اپنے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹی ہے اور ہم عوام کو بالاتر سمجھتے ہیں'۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ 'مسلم لیگ (ن) نے آرمی چیف کی سروس کے توسیع کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ ہم اس اہم مسئلے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ تحریک انصاف کی نا اہل حکومت نے اس معاملے کو خراب کیا تھا، اس قانون سازی کے ذریعے وزیر اعظم کو تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کا اختیار حاصل ہوا ہے'۔

تاہم رانا ثنا اللہ کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو تحریک انصاف کی جلد بازی کے ایجنڈا کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری جماعت تحریک انصاف کی حکومت کی جلد بازی کا حصہ بنی جو ہمارے مطابق ایک غلطی تھی'۔

انہوں نے نواز شریف کے پیغام یاد دلاتے ہوئے کہا کہ 'جلد بازی کا حصہ نہیں بنو جس سے یہ تاثر جائے کہ یہ پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ پارلیمنٹ بن گئی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف نے الیکشن کمیشن کو خلائی مخلوق کہا ہوگا، رہنما مسلم لیگ (ن)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کی حمایت کی تھی تاہم وہ ووٹنگ کے مرحلے سے دور رہے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی خاموشی کے حوالے سے سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ 'مریم بی بی اپنے والد کی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں، کسی نے ان سے خاموش ہونے کا نہیں کہا'۔

انہوں نے واضح کیا کہ مریم نواز نے ووٹنگ کے معاملے پر اپنی جماعت کے نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ 6 ہفتوں کے لیے اپنے والد کی دیکھ بھال کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی تھیں اور وہ اس کے بعد واپس آئیں گی'۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ایوان کے اندر تبدیلوں کے ذریعے با آسانی ہٹائے جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم ہاؤس کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، ایوان کے اندر تبدیلیاں کرنا بہت آسان ہے، اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عمران خان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور نئے وزیر اعظم کو اتفاق رائے سے لانا ہوگا'۔

رانا ثنا اللہ کیس میں بری نہیں ہوئے ہیں، فردوس عاشق اعوان

دریں اثنا رانا اللہ کے پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ چند عناصر سیاسی فائدے کے لیے مذہب کو استعمال کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں اسمارٹ ایکسپو آف فیوچر ڈیولپمنٹ ہولڈنگز کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ منشیات کے کیس میں صرف ضمانت پر رہا ہوئے ہیں، وہ الزامات سے بری نہیں ہوئے اور ان کے خلاف کیس کا ٹرائل اب بھی چل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رانا ثنا اللہ عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے اپنا غصہ اپنی پارٹی کی قیادت پر اتاریں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے اپنے کارکنوں کے ساتھ رویے کا حکومت سے کچھ لینا دینا نہیں'۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 'حکومت قومی اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے تاکہ نظام میں تبدیلی آئے جبکہ عدالتی نظام میں رکاوٹ کا معاملہ بھی دیکھا جارہا ہے تاکہ طاقتور عناصر کوئی غیر ضروری فائدہ نہ اٹھا سکیں'۔

مشاورت کے بعد بل کی حمایت کا اجتماعی فیصلہ کیا، شہباز شریف

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی ایکٹ پر قانون سازی کے معاملے کو 'اجتماعی فیصلہ قرار دیا' اور کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی جماعت میں مشاورت کے بعد بل کی حمایت کا 'اجتماعی فیصلہ' کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ 'توسیع دیے جانے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا نہ کہ ماضی کی طرح آمروں نے، جنہوں نے خود اپنی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی'۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا تو کسی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا تھا پھر سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کا کہا اور ہم نے عدالتی فیصلے کے مطابق قانون سازی کی اور بل کی حمایت کی'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024