پی ایس ایل کی وہ 2 ٹیمیں جو کہیں بھی جاسکتی ہیں! (دوسری قسط)
پاکستان سپر لیگ میں 2 سب سے بہترین ٹیمیں کونسی ہیں؟ (پہلی قسط)
کچھ ٹیمیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر اتنی تگڑی نظر نہیں آ رہی ہوتیں لیکن مسلسل محنت کی بدولت نتائج آنے پر وہ وکٹری اسٹینڈ پر کھڑی ہوتی ہیں۔ اور اس پوری صورتحال میں آپ صرف سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یہ آخر یہاں تک پہنچ کیسے گئی؟
اس مضمون میں آج ہم ایسی ہی 2 ٹیموں کا ذکر کریں گے جو کہیں بھی جاسکتی ہیں، جن کے بارے میں یہ پیش گوئی کرنا کسی بھی طور پر آسان نہیں کہ یہ فاتح ہوں گی یا سب سے ناکام ترین ٹیم۔
لاہور قلندر
لاہور کی ٹیم کا صرف نام ہی ’قلندر‘ نہیں، بلکہ یہ لوگ حقیقی معنوں میں بھی درویش ہیں۔ ہنستے مسکراتے اپنی معصومانہ حرکتوں سے دل جیتتے اور خوشیاں بانٹتے رانا فواد کو سارا پاکستان پسند کرتا ہے، اور اس پسند کیے جانے میں ان کی اس درویشانہ شخصیت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ایسے شائقین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو صرف رانا فواد صاحب سے محبت کی وجہ سے لاہور کی حمایت کرتے ہیں۔ لاہور قلندرز کے لیے اب تک پاکستان سپر لیگ کا سفر کسی بھی طور پر خوش کن نہیں رہا۔ پی ایس ایل میں اس کا سفر کس قدر بُرا رہا ہے اس لیے یہی جاننا کافی ہے کہ یہ ٹیم ہر ایک سیزن میں آخری 2 ٹیموں میں شامل رہی ہے۔
لیکن اس بار معاملہ مختلف نظر آ رہا ہے۔ پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ لاہور قلندرز آگے جائیں گے اور پلے آف میں باآسانی پہنچ جائیں گے۔
لاہور والوں کے ساتھ قسمت کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ رہا ہے۔ ٹی20 کرکٹ کے بے تاج بادشاہ کرس گیل ان کے لیے کھیلے تو ان کا بلّا رنز اگلنا بھول گیا۔ پھر برینڈن میکولم آئے تو انہیں دیکھ کر بھی ایسا لگا جیسے وہ کرکٹ کھیلنا ہی بھول گئے۔ حتٰی کہ ٹی20 کرکٹ کے ایک اور ماہر اے بی ڈی ویلیرز بھی ان کے لیے کچھ نا کرسکے۔ پھر محمد حفیظ جیسا کہنہ مشق پہلے ہی ہفتے میں چوٹ لگوا کر باہر بیٹھ گیا۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قلندروں پر سپر لیگ کے دنوں میں زندگی کبھی مہربان نہیں رہی۔
عاقب جاوید کی کوچنگ اور ٹیم حکمت عملی پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے۔ کافی حد تک یہ بحث جائز بھی لگتی ہے۔ عاقب بہت ساری بنیادی غلطیاں کر جاتے ہیں، لیکن ان سب کا تذکرہ اس مضمون میں غیر ضروری طوالت کا باعث بنے گا، اس لیے ہم موضوع پر آتے ہیں۔
اس بار بھی عاقب جاوید نے ملے جلے فیصلے کیے۔ جیسے انہوں نے بین ڈنک کو بطور وکٹ کیپر چنا جن کا سیزن میلبورن اسٹارز کے لیے کچھ اتنا اچھا نہیں رہا۔ لیکن لینڈل سمنز کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے جنوبی افریقی ڈین ولاس کو منتخب کیا ہے جو ٹی20 میں وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ بڑے شاٹ کھیلنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ وکٹ کیپر بلے باز لاہور کی پرانی پریشانی ہے، جو اس بار دُور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
لاہور قلندرز کی بیٹنگ
اگر لاہور کی بیٹنگ کا ذکر کریں تو وہ بھی اس بار اچھی ہے۔ فخر زمان گوکہ فٹنس مسائل کے باعث ٹیم سے باہر رہے ہیں لیکن فخر کو ان چیزوں سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ جس دلیری کے ساتھ وہ کھیلتے ہیں، موقع ملنے پر وہ کمال کر ہی جائیں گے۔
تجربہ کار حفیظ اس بار فٹ ہیں۔ حال ہی میں قومی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے اور وہ اچھی فارم میں دکھائی بھی دیے۔ حفیظ اس سال ٹی20 ورلڈکپ کے بعد ریٹائر ہونے کا اعلان کرچکے ہیں اور قومی ٹیم میں دوبارہ شمولیت کے حوالے سے کافی تنقید کا شکار بھی ہوئے، اس لیے یہ لیگ ان کے لیے بہت اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ پھر سینئر ہونے کی وجہ سے ان کا تجربہ اور ان کے مشورے لاہور کے بہت کام آسکتے ہیں۔
کرس لین کے لیے قلندروں کی محبت پرانی ہے۔ 2018ء میں بھی انہیں منتخب کیا گیا تھا لیکن کندھے کی انجری کی وجہ سے وہ لاہور کے لیے نہیں کھیل سکے۔ موجودہ دور کے چند شاندار ٹی20 بلے بازوں میں سے ایک کرس لین اس بار پاکستان آرہے ہیں۔ وہ مکمل فٹ ہیں اور امید ہے کہ شائقین کو دیرینہ انتظار کا پورا ثمر ملنے والا ہے۔
مزید پڑھیے: نیاز اسٹیڈیم: وہ لاوارث میدان جس کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں
سلمان بٹ ایک مستند بلے باز کے طور پر ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔ سلمان کے حوالے سے عام طور پر لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں ٹی20 میں شامل کرنے کی کیا منطق ہے؟ اس کا ایک جواب تو حالیہ دنوں میں قطر میں ہونے والی قطر ٹی10 لیگ میں سلمان بٹ دیتے نظر آئے ہیں جہاں انہوں نے دکھایا کہ وہ بڑے شاٹ بھی کھیل سکتے ہیں۔ دوسرا ہم نے گزشتہ سیزن میں دیکھا کہ لاہور قلندرز بعض دفعہ پورے 20 اوورز بھی نہیں کھیل پائی، اس لیے سلمان جیسا ایک کھلاڑی ہونا چائیے جو وکٹ پر لمبا وقت گزار سکے۔
سہیل اختر کی اب تک بنیادی ذمہ داری اچھی بیٹنگ اور وقت پڑنے پر بڑے شاٹ کھیلنا رہی، مگر اس بار وہ ٹیم کی قیادت جیسی بڑی ذمہ داری بھی ادا کرتے نظر آئیں گے۔ بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انہیں رانا فواد اور عاقب جاوید اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ تو اس کا جواب سہیل اختر نے ابوظہبی میں ہونے والے کثیرالملکی کلب ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کرکے دے دیا تھا جہاں انہیں کپتانی کا موقع دیا گیا اور انہوں نے بہت ہی اچھے انداز میں قیادت کی ذمہ داریاں پوری کیں اور ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔
لاہور قلندرز میں موجود آل راؤنڈرز
ڈیوڈ ویز، سمیت پٹیل اور سیکوگے پرسننا کی صورت 3 بہترین آل راؤنڈرز بھی لاہور کے پاس موجود ہیں۔ خاص طور پر ڈیوڈ ویز تو ٹی20 کرکٹ کا ایک بڑا نام ہیں۔ اب وہ قومی کرکٹ کی بجائے سارا سال لیگ کرکٹ کھیلتے ہیں، اس لیے ان کا لیگ کرکٹ کا تجربہ لاہور کے بہت کام آسکتا ہے۔ پھر ایسے کھلاڑی کو منتخب کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ پوری لیگ کے لیے ٹیم کو دستیاب ہوتا ہے۔
اگر ہم گزشتہ سال کی جھلکیوں کو یاد کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں یاد آئے گا کہ ویز نے کئی اہم ترین موقعوں پر شاندار کھیل پیش کرکے اپنی ٹیم کو فتح دلوائی۔ سمیت پٹیل اور سیکوگے پرسننا کی شمولیت سے کئی لوگ متفق نہیں ہوں گے تاہم یہ دونوں بہترین آپشن ہیں۔ مکمل اسپنرز اور بہترین بلے بازی کی صلاحیت سے ٹیم کا توازن برقرار رکھیں گے۔
ایمرجنگ کیٹیگری
یہاں ایمرجنگ فیضان خان کی بات کرنا بھی لازمی ہے۔ ابوظہبی ٹورنامنٹ میں انہوں نے بطور وکٹ کیپر بلے باز اپنے ٹی20 کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور تینوں میچوں میں عمدہ بلے بازی کی تھی۔ اس بار لاہور والوں نے وکٹ کیپنگ آپشنز پر خاصا دھیان دیا ہے۔ فیضان خان کی شمولیت وکٹ کیپنگ کے حوالے سے لاہور کے سابقہ تلخ تجربات کا نتیجہ ہے اور اچھا ہے کیونکہ یہ نوجوان کھلاڑی آگے جانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
نوجوان بلے باز جاہد علی کا نام ہم سالوں سے سن رہے ہیں، اور اچھی خبر یہ ہے کہ قلندرز نے انہیں اس بار موقع دیا ہے، امید ہے کہ انہیں کھلایا بھی جائے گا۔
لاہور قلندرز کی باؤلنگ
باؤلنگ کی تو کیا ہی بات ہے۔ شاہین شاہ آفریدی گزرے ایک سال سے پاکستان کے سب سے بہترین اور مستقل مزاج پرفارمر کے طور پر ابھرے ہیں۔ لاہور قلندر کے لیے گزشتہ سیزن میں بھی انہوں نے کمال کیا تھا اور اس بار بھی ایسا ہی کرنے کا پورا پورا امکان ہے۔ بس ایک مسئلہ ہے کہ وہ مسلسل تینوں فارمیٹ کھیل رہے ہیں کہیں تھکن ان پر حاوی نا ہوجائے۔
حارث رؤف کی صلاحیت سے تو اب پوری دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اگرچہ لاہور کی جانب سے گزشتہ برس دی جانے والی کارکردگی سے انہوں نے خود کو بہت ہی زبردست طریقے سے متعارف کروانے کی کوشش کی، مگر اس بار بگ بیش لیگ نے تو ان پر اٹھنے والے سارے سوالات کو زمین بوس ہی کردیا۔
حارث رؤف کی عمدہ باؤلنگ ہی تھی جس کی وجہ سے میلبورن اسٹارز نے بگ بیش فائنل میں جگہ بنائی۔ بگ بیش فائنل بارش کی وجہ سے 12 اوورز تک محدود کردیا گیا تھا اور صرف 2 باؤلرز کو 3 اوورز کرنے کی اجازت تھی۔ حارث پر ٹیم کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہیں 3 اوورز دیے گئے مطلب اب وہ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو کپتان کی پہلی چوائس ہیں۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل میں خالی میدانوں سے بچنے کے لیے ’یہ کام ضرور‘ کریں
عثمان شنواری گوکہ ٹی20 میں کافی مہنگے ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی ایک خوبی ہے کہ وہ وکٹ ٹیکر ہیں۔ کرکٹ چاہے کسی بھی قسم کی ہو وکٹ لینے والا باؤلر ہمیشہ ہی کپتان کی پہلی پسند ہوتا ہے۔ شنواری کے ساتھ اکثر زیادتی ہوتی ہے کہ انہیں ایک آدھ میچ میں موقع دے کر باہر کردیا جاتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ عاقب جاوید ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔
لاہور قلندر نے ڈیویلپمنٹ پروگرام میں ایک اور کھلاڑی دلبر حسین چنا تھا۔ جسے میلبورن اسٹارز کی طرف سے کھیلنے کا موقع بھی ملا۔ انہی کے ساتھ فرزان راجا بھی اسی پروگرام سے آئے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ آیا یہ دونوں حارث رؤف کی طرح خود کو منوا سکتے ہیں یا نہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ
اسلام آباد یونائیٹڈ پاکستان سپر لیگ کی سب سے کامیاب ٹیم ہے۔ اس ٹیم نے 2 بار لیگ ٹرافی اٹھا رکھی ہے۔ اسلام آباد نے اپنی مستقل مزاجی سے سب کو حیران کر رکھا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان کی ظاہری چکاچوند بہت زیادہ نہیں ہے۔
اس ٹیم میں بڑے بڑے سپر اسٹارز تو نہیں ہیں، مگر اس کے باوجود یہ ایک متوازن ٹیم ہے۔ اسلام آباد کی حیران کن پیش رفت پر جب نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں جو سب سے اہم نکتہ نظر آتا ہے وہ ان کی تزویراتی کارکردگی کا بے مثال ہونا ہے۔
حسن چیمہ اور ریحان خان کی صورت اسلام آباد کو دورِ حاضر کی کرکٹ سمجھنے والے 2 بہترین دماغ ملے ہیں۔ دوسری ٹیموں کی طرح اسلام آباد نے بابے نہیں رکھے بلکہ اس میں نیا خون ہے جسے کھیل کی جدت آمیزی میں لپٹی ہوئی سائنس پر عبور کا ملکہ حاصل ہے۔ یہی اسلام آباد کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے۔ اس بار شاداب خان کو کپتانی دی گئی ہے تو جارحیت بھی عقل کے ساتھ شامل ہوگئی ہے۔ سو میدان سجنے سے پہلے جتنے بھی نفسیاتی معرکے ہوتے ہیں ان میں اسلام آباد آگے نظر آتا ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی بیٹنگ
بیٹنگ اسلام آباد کی مناسب ہے۔ اس ٹیم میں ٹی20 کا بڑا نام کولن منرو شامل ہیں۔ گو پاکستان سپر لیگ میں اب تک وہ اپنے ٹیلنٹ کا کھل کر اظہار نہیں کرسکے، لیکن ایسے ٹیلنٹ کو زیادہ دیر خاموش نہیں رکھا جاسکتا۔ حال ہی میں انڈیا کے خلاف ان کی کارکردگی عمدہ رہی ہے۔
کولن منرو کے بعد کولن انگرام کا نام ہے، جو سدا بہار ٹی20 کھلاڑی ہیں۔ انگرام ماضی میں پی ایس ایل میں عمدہ کھیل پیش کرتے نظر آئے ہیں اور اسلام آباد کے لیے اچھی خبر یہ بھی ہے کہ وہ پورے سیزن کے لیے دستیاب ہوں گے۔ کولن انگرام کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان کا کوئی فکس نمبر نہیں ہے، وہ اوپر بھی بیٹنگ کرسکتے ہیں اور آخری نمبروں پر بھی مخالف ٹیم کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں۔
فل سالٹ انگلینڈ کی موجودہ بدلی ہوئی نسل سے ایک اور شاہکار ہیں۔ گزرے چند سالوں میں انگلینڈ نے بہترین ٹی20 بلے باز پیدا کیے اور فل سالٹ ان میں سے ایک ہیں۔ حال ہی میں بگ بیش میں ان کی بلے بازی شاندار رہی ہے۔ چند گیندوں میں میچ کا نقشہ پلٹ دیتے ہیں۔
اسلام آباد نے جب دوسری مرتبہ ٹائٹل جیتا تو اس میں سب سے اہم کردار لیوک رونکی کا تھا۔ پورے ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی مثالی سے بھی ایک قدم آگے رہی، اور کئی میچ تو بلامبالغہ انہوں نے اکیلے ہی جتوا دیے۔ حتٰی کہ فائنل میں جب تک وہ کریز پر رہے پشاور زلمی کے ہاتھ پاؤں پھولے رہے اور جیسے ہی وہ آؤٹ ہوئے تو پھر اسلام آباد کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، تاہم آصف علی کے 3 شاندار چھکوں نے بالآخر انہیں فتح سے ہمکنار کر ہی دیا۔
یہیں سے اسلام آباد والے لیوک رونکی کو دل دے بیٹھے ہیں۔ بلاشبہ رونکی کا کھیل ماضی میں بہترین رہا ہے لیکن اس بار دیکھنا ہوگا کہ لمبے عرصے سے مسابقتی کرکٹ سے دُور رہنے والے رونکی کیا اپنی پرانی فارم حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔
اسلام آباد کے پاس حسین طلعت اور رضوان حسین کی شکل میں بہترین لوکل ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔ حسین طلعت تو بدقسمت ہیں کہ چند ڈاٹ بالز کے نام پر قومی ٹیم سے باہر کردیے گئے حالانکہ اگر انہیں مسلسل کھلایا جاتا تو ان کا اسٹرائیک ریٹ کا معمولی مسئلہ بھی اب تک حل ہوچکا ہوتا۔ خیر اگر اب بھی وہ قومی ٹیم میں جگہ بنانا چاہتے ہیں تو اس لیگ میں ان کی کارکردگی اہم ترین ثابت ہوسکتی ہے۔
نوجوان رضوان حسین اگرچہ اپنے اندر چھپی حقیقی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرسکے ہیں لیکن اس بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ان میں ایک بڑا بلے باز بننے کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ نے سیف بدر کو بھی سپلیمنٹری میں چنا ہے، جنہیں مستقبل میں ایک چمکتا ہوا ستارہ تصور کیا جاتا ہے۔
یونائیٹڈ والوں کا ذکر کریں تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ کافی سمجھدار ہیں کیونکہ انہوں نے لوکل ٹیلنٹ سے بہت اچھی طرح انصاف کیا ہے۔ اس کے 2 بڑے فائدے ہیں۔ پہلا یہ کہ غیر ملکی 4 کھلاڑیوں کے علاوہ زیادہ تر لوکل ٹیلنٹ کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ جب بھی کوئی مقامی کھلاڑی ٹیم میں جگہ بنائے گا تو یہ ٹیم اس کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔
اگر اس ٹیم کی منیجمنٹ کا ذکر کریں تو یہ ہرگز روایتی سوچ کی حامل نہیں۔ ٹیم سلیکشن میں بھی اتنی ہی محنت اور تدبر سے کام لیتے ہیں جتنا میدان میں لینا چائیے۔
وینڈر ڈوسین بوجوہ دستبردار ہوئے تو یونائیٹڈ والے ان کا زبردست متبادل ڈیوڈ ملان کی صورت لے آئے ہیں۔ ڈیوڈ ملان ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پشاور زلمی کو پاکستان سپر لیگ جتوائی تھی۔ جب کوئی پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا تو یہ بلا خوف و خطر اور بغیر کوئی بہانہ بنائے پاکستان آنے والوں میں شامل تھے۔ پھر آصف علی بھی تو ہیں۔ اگرچہ عالمی سطح پر وہ اب تک اپنے نقوش چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں، لیکن اسلام آباد کے لیے کئی مرتبہ عمدہ کھیل پیش کرچکے ہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ میں موجود آل راؤنڈرز
اس ٹیم میں شامل دونوں ہی آل راؤنڈرز پاکستانی بھی ہیں اور نوجوان بھی۔ یہاں بات ہو رہی ہے فہیم اشرف اور عماد بٹ کی۔ فہیم تو پاکستان سپر لیگ سیزن 4 کے سب سے کامیاب باؤلر بھی تھے۔ عماد بٹ کئی میچوں میں عبدالرزاق کی یاد تازہ کرچکے ہیں اور اپنی ٹیم کو کئی مرتبہ جیت بھی دلوا چکے۔ عماد بٹ 2 بار تو قومی ٹیم میں بھی منتخب ہوچکے، اور اس بار پوری امید ہے کہ وہ جلد ہی انٹرنیشنل کرکٹ بھی کھیلتے نظر آئیں گے۔
کپتان شاداب خان کی حالیہ پرفارمنس گوکہ مثالی نہیں ہے لیکن ان میں دم ہے کہ وہ کم بیک کرسکیں۔ شاداب کے لیے گزشتہ سال بالکل بھی اچھا نہیں رہا۔ انہیں فٹنس مسائل کا بھی سامنا رہا اور ان کی کارکردگی بھی اچھی نہیں رہی۔ لیکن اب وہ فٹ بھی ہیں اور کپتانی ملنے کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ اسلام آباد کو دوبارہ ان کا شاداب واپس مل جائے گا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی باؤلنگ
ان کی باؤلنگ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہیں ڈیل اسٹین کا ساتھ میسر ہے۔ اپنے کیرئیر کے آخری سال میں کھیل کے عظیم ترین فاسٹ باؤلرز میں سے ایک اسٹین چاہیں گے کہ وہ اپنے نقوش ٹی20 میں بھی چھوڑ جائیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے جو اعلیٰ مقام حاصل کیا، بدقسمتی سے وہ ٹی20 کرکٹ میں اتنا متاثر نہ کرسکے۔ لیکن چونکہ ان میں صلاحیت تو ہے، اس لیے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اسلام آباد کو وہ بہت آگے تک لے جائیں گے۔
رمان رئیس پاکستان سپر لیگ کی تلاش ہیں اور ٹی20 میں ان کا کھیل کمال ہے۔ وہ اسلام آباد کی شاندار فتوحات میں پورے حصے دار رہے ہیں۔ سیزن 4 میں ہونے والی انجری کے سبب وہ طویل عرصے تک کھیل سے دُور رہے، اور اب واپسی ہورہی ہے تو ان پر دباؤ بھی ہوگا۔ اس لیے یہ دیکھنا بہت اہم ہے کہ وہ کتنی جلدی فارم میں واپس آتے ہیں۔
نوجوان محمد موسیٰ آسٹریلیا میں اپنے ڈیبیو پر زیادہ متاثر نہیں کرسکے تاہم وقار یونس انہیں ایک بڑا باؤلر مانتے ہیں اور ان پر مسلسل محنت کر رہے ہیں۔ تیز رفتار محمد موسیٰ کے لیے یہ سپر لیگ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتی ہے یا نہیں اس سوال کا جواب ملنے کے دن آچکے ہیں۔
عاکف جاوید کا انتخاب کرکے اسلام آباد یونائیٹڈ نے ایک بار پھر اپنی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان اپنے فاسٹ باؤلرز کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے اور عاکف جاوید اس شہرت کو چار چاند لگانے والا ایک نیا اضافہ ہیں۔ اس کھلاڑی میں بہت دم ہے۔
اگر ذرا سا غور کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ راز آشکار ہوتا ہے کہ اسلام یونائیٹڈ نے زیادہ تر بیٹسمین غیر ملکی منتخب کیے ہیں، کیونکہ اس شعبے میں وہ ہم سے آگے بھی ہیں اور زیادہ قابلِ بھروسہ بھی، لیکن اگر باؤلنگ کا ذکر کریں تو تقریباً سارے ہی باؤلرز پاکستانی ہیں، کہ اس شعبے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
ایک اسٹریٹ اسمارٹ نوجوان ٹیم جو کاغذ پر اتنی عمدہ نظر نہیں آتی، وہ گزشتہ چاروں سیزنز میں تو سرپرائز دیتی آرہی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ نئے کپتان اور نئے کوچ کے بعد بھی اس کی کارکردگی پہلے جیسی رہتی ہے یا اس میں فرق آجائے گا۔
تبصرے (2) بند ہیں