’عورت مارچ‘ پر بحث،خلیل الرحمٰن قمر کا ماروی سرمد کیخلاف نازیبا زبان کا استعمال
خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے آئندہ ہفتے عالمی یوم خواتین پر 8 مارچ کو ملک بھر میں ’عورت مارچ‘ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور عدالت نے بھی خواتین کو اپنے حقوق کے لیے مارچ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
جہاں عدالت نے ’عورت مارچ‘ کرنے کی اجازت دی ہے، وہیں عدالت نے مارچ کے منتظمین کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مارچ کے دوران نامناسب نعروں اور بینرز کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
عدالتی فیصلے کے علاوہ بھی ’عورت مارچ‘ کے حوالے سے ملک بھر میں بحث جاری ہے اور سیاسی سماجی رہنماؤں کے علاوہ اس معاملے پر ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
’عورت مارچ‘ پر بحث کی گونج سینیٹ میں سنائی دی جب کہ عام جلسوں اور سوشل میڈیا پر بھی ’عورت مارچ‘ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔
عدالت کی جانب سے ’عورت مارچ‘ کرنے کی اجازت دیے جانے کے بعد نجی ٹی وی ’نیو‘ نے اس حوالے سے 3 مارچ کی شب ایک پروگرام نشر کیا جس میں معروف ڈراما نگار خلیل الرحمٰن قمر، سینیٹر مولانا فیض محمد اور خواتین رہنما ماروی سرمد شامل ہوئیں۔
پروگرام ’آج عائشہ احتشام کے ساتھ‘ میں تینوں شخصیات نے آئندہ ہفتے منعقد ہونے والے ’عورت مارچ‘ پر بحث کی، جس دوران ماروی سرمد نے کہا کہ ’خواتین کے جسموں پر ان کی ہی مرضی چلے گی، وہ چاہیں گی تو بچے پیدا کریں گی، نہیں چاہیں گی تو بچے پیدا نہیں کریں گی‘۔
ماروی سرمد نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’خواتین چاہیں گی تو اپنے شوہروں سے تعلقات بنائیں گی اور اگر ان کی مرضی نہیں ہوگی تو وہ ان سے تعلقات بھی نہیں بنائیں گی‘۔
ماروی سرمد نے بحث کے دوران پروگرام میں شامل مہمان سینیٹر مولانا فیض محمد کو مخاطب ہوتے کہا کہ ’وہ کیا چاہتے ہیں کہ ملک میں لڑکیوں کے ’ریپ‘ ہوتے رہیں اور وہ خاموشی سے ظلم برداشت کرتی رہیں، انہوں نے کہا کہ اب ایسا نہیں ہوگا، اب خواتین اپنی مرضی کے مطابق اپنے فیصلے خود کریں گی‘۔
ماروی سرمد نے اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا کہ عدالت نے خواتین کو مشروط اجازت دی ہے اور خواتین پر امن طریقے سے باہر نکل کر احتجاج کریں گی مگر سماج میں خواتین کو برداشت کرنے کا فقدان ہے۔
ماروی سرمد کے بعد جب میزبان عائشہ احد نے خلیل الرحمٰن قمر سے سوال کیا کہ ’عورت مارچ‘ کے متنازع نعروں پر ایسے لوگوں کو بھی اعتراض تھا جو خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اب عدالت نے بھی ایسے نعروں کو استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر اس بار خواتین اپنے حقوق کے لیے باہر نکلتیں ہیں تو کیا ان کا احتجاج ضروری ہے یا غیر ضروری؟
میزبان کے سوال پر خلیل الرحمٰن قمر نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی پروگرام کے دونوں مہمانوں یعنی ماروی سرمد اور سینیٹر مولانا فیض محمد کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ دونوں ان کی بات مکمل طور پر سنیں اور درمیان میں نہ بولیں۔
بات کا آغاز کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ ’اگر عدالت نے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے غلیظ نعرے کو استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے تو وہ جب ماروی سرمد جیسی خواتین کو اس پر بات کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کا کلیجہ ہلتا ہے‘۔
خلیل الرحمٰن قمر کے اسی جملے کے دوران ماروی سرمد نے ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ لگایا تو خلیل الرحمٰن قمر ایک دم غصے میں آگئے اور انہوں نے پہلی بار ہی ماروی سرمد کو سخت لہجے میں تنبیہ کی کہ ’درمیان میں نہ بولیں‘۔
جس پر ماروی سرمد نے ایک بار پھر ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ لگایا تو خلیل الرحمٰن قمر مزید غصے میں آگئے اور انہوں نے انتہائی بدتمیزی سے خاتون رہنما کو بولا کہ ’بیچ میں مت بولو تم، تیرے جسم میں ہے کیا، اپنا جسم دیکھو جاکے‘۔
اس دوران ماروی سرمد اور خلیل الرحمٰن قمر ایک دوسرے کی بات سننے کے بجائے مسلسل بات کرتے رہے جب کہ پروگرام کی میزبان ماروی سرمد کو یہ کہتی رہیں کہ وہ خاموش ہوجائیں اور خلیل الرحمٰن قمر کو بات کرنے دیں تاہم دونوں نے میزبان کی بات نہیں مانی اور دونوں مہمان ایک دوسرے کے خلاف بات کرتے رہے۔
اسی بحث کے دوران ہی خلیل الرحمٰن قمر نے ماروی سرمد کے خلاف انتہائی نازیبا زبان کا استعمال کیا اور انہیں ’گھٹیا عورت‘ اور ’الو کی پٹھی‘ کہنے سمیت ان کے خلاف دیگر قسم کے نامناسب الفاظ استعمال کیے۔
ڈراما مصنف نے ماروی سرمد کو ’بدتمیز عورت‘ کہتے ہوئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا میں تحقیق کر رہی ہے، بے حیائی کی تحقیق کر رہی ہے‘ْ۔
اس دوران خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ ماروی سرمد ان سے بدتمیزی کر رہی ہیں، انہوں نے متعدد بار خاتون رہنما کو براہ راست پروگرام کے دوران جسم کے طعنے دیے اور کہا کہ وہ آئینے میں اپنی شکل اور جسم دیکھیں، ان کے جسم کو کوئی دیکھے گا بھی نہیں۔
براہ راست پروگرام کے دوران دونوں مہمانوں کے نازیبا اور نامناسب بحث کے دوران خاتون میزبان صرف دونوں کو روکنے اور خاموش ہونے کی ہدایت کرتی رہیں، تاہم انہوں نے براہ راست پروگرام کو چند منٹ کے لیے بند کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔
پروگرام میں خلیل الرحمٰن قمر کی جانب سے ماروی سرمد کے خلاف نامناسب زبان استعمال کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث کا آغاز ہوگیا اور کئی افراد نے ڈراما منصنف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
بعض سوشل میڈیا صارفین نے یہ بھی کہا کہ جس طرح عورت کے جسم پر عورت کی مرضی ہے، اسی طرح خلیل الرحمٰن قمر کی زبان پر اس کی مرضی ہے، تاہم زیادہ تر افراد نے ڈراما مصنف کے رویے اور زبان کے استعمال کی مذمت کی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر نے کسی ٹی وی پروگرام میں خواتین کے خلاف نازیبا استعمال کی ہو، وہ اس سے قبل بھی خواتین سے متعلق نامناسب بیانات دے چکے ہیں۔
ماضی میں اپنے مقبول ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے کے بعد اپنے متعدد انٹرویوز میں خلیل الرحمٰن قمر نے خواتین سے متعلق نامناسب اور متنازع بیانات دیے تھے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’برابری کی بات ہے تو پھر لڑکیاں اٹھا کر لے جائیں مردوں کو اور گینگ ریپ کریں ان کا، پھر بات ہو برابری کی اور پتا چلے کہ کون سی برابری مانگ رہی ہیں'۔
مصنف کا مزید کہنا تھا کہ 'میں ہر عورت کو عورت نہیں کہتا، میری نظر میں عورت کے پاس ایک خوبصورتی ہے اور وہ اس کی وفا اور حیا ہے، اگر وہ نہیں تو میرے لیے وہ عورت ہی نہیں'۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'مجھ سے بڑا فیمنسٹ پاکستان میں کوئی نہیں، لیکن میں صرف اچھی خواتین کو سپورٹ کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ایک مرد جو اپنا سارا وقار اور سرمایہ اپنی بیوی کی مٹھی میں رکھ کر اس کے لیے کام کرنے باہر جاتا ہے، تو میں لعنت بھیجتا ہوں ایسی عورتوں پر جو شوہر کے جانے کے بعد اپنی مٹھی کو کھول لیتی ہیں'۔
اسی طرح انہوں نے اداکارہ سونیا حسین کے حوالے سے ایک پروگرام مین نامناسب بات کہتے ہوئے کہا تھا کہ ’سونیا حسین ابھی اس قابل ہی نہیں ہو سکیں کہ وہ ان کے لکھے اسکرپٹ پر اداکاری کر سکیں‘۔