وائرس کے خطرے سے آگاہ کرنے کیلئے موبائل فونز کی ٹریکنگ شروع
کراچی: ملک میں متعدد افراد کو ’کورونا الرٹ‘ نامی ایسے ٹیکسٹ میسیجز موصول ہوئے جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کا رابطہ کسی کورونا سے متاثر شخص سے ہوا ہے اور ساتھ ہی ضروری احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
میسیج الرٹ میں لکھا گیا کہ ’یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ آپ گزشتہ 14 روز کے دوران شاید کورونا وائرس کے مصدقہ کیس کے رابطے میں آئے ہیں، اس لیے آپ سے درخواست کی جارہی ہے کہ از خود قرنطینہ کر کے ضروری احتیاطی تدابیر اپنائیں‘۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے ساتھ پیغام میں عوام کو بخار، کھانسی، سانس لینے میں تکلیف اور جسم درد کی صورت میں علاج کی قریبی سہولت پر جانے کی ہدایت بھی کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں کورونا وائرس کے خلاف کیا اقدامات کررہی ہیں؟
پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکام نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کردی کہ میسیج حقیقی ہیں اور صرف ان منتخب افراد کو ارسال کیے جارہے ہیں’جن کی متعلقہ حکام نے اسکریننگ کر کے نشاندہی کی‘۔
ڈان کے رابطہ کرنے کے بعد پی ٹی اے کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزارت صحت کی درخواست پر ان افراد کو ایس ایم ایس الرٹ بھیجے جارہے ہیں جو سفر کے دوران اور دیگر مقامات پر ممکنہ طور پر کورونا سے متاثرہ افراد سے رابطے میں آئے ہوں۔
مذکورہ انیشی ایٹو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان پروگرام کی جانب سے کیا جارہا ہے جو موبائل فون ٹریکنگ نظام پر انحصار کرتا ہے۔
یہ نظام کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی گزشتہ 14 دنوں کے دوران لوکیشنز کی شناخت کر کے کام کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے خلاف پاکستان نے فیس بک میسنجر کو ہتھیار بنالیا
جب ایک فون کے مالک کی کووِڈ-19 سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوتی ہے تو حکام اس کی حالیہ نقل و حرکت ریکارڈ کر کے اس کے رابطے میں آنے والے دیگر فونز کے مالکان کو وائرس کے خطرے سے مطلع کرتے ہیں اور خود ساختہ تنہائی کا مشورہ دیتے ہیں۔
اس ضمن میں ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ تانیہ ایدروس نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وزارت صحت کی معاونت کے لیے خطرات کا سامنا کرنے والے زیادہ سے زیادہ افراد کی نشاندہی کرنے کے لیے ہم ٹیلی کام سہولیات فراہم کرنے والوں اور پی ٹی اے کی مدد سے تمام ممکنہ اقسام کے ڈیٹا ذرائع کا استعمال کررہے ہیں‘۔
حکومت کی جانب سے کسی وضاحت کی غیر موجودگی میں مختلف خدشات دور نہیں ہوسکے مثلاً خطرہ کا شکار فرد کو منتخب کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔
متعدد صارفین کے مطابق ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود خاندان کے صرف ایک شخص کو اس قسم کا الرٹ موصول ہوا جبکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے حیران ہیں کہ یہ ڈیٹا کہاں محفوٖظ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے مختلف ممالک میں فضائی آلودگی میں ڈرامائی کمی
تانیہ ایدروس نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ افراد کی نشاندہی کے لیے کونسا عوامی ڈیٹا استعمال کیا جارہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جو کچھ کررہے ہیں وائرس کی روک تھام کے لیے کررہے ہیں اور ان الرٹ کا مقصد افراتفری پھیلانا نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر کی حوصلہ افزائی کرنا ہے‘۔
لوگوں کی شناخت کیسے کی جارہی ہے؟
خیال رہے کہ موبائل فون کی لوکیشن متعدد طریقوں سے ریکارڈ کی جاسکتی ہے مثلاً موبائل سم کمپنیاں کس ٹاور سے کونسا فون کب کنیکٹ ہوا اس معلومات کی بنیاد پر سیل سائٹ لوکیشن انفارمیشن (سی ایس ایل آئی) کا استعمال کرتے ہوئے لوکیشن کا ڈیٹا فراہم کرسکتی ہیں۔
جب کوئی موبائل فون ٹاورز کے درمیان سفر کرتا ہے تو نیٹ ورک کال ڈیٹیل ریکارڈز (سی ڈی آر ایس) کی شکل میں مختلف چیزیں مثلاً کالز، ایس ایم ایس اور ڈیٹا کا استعمال کے ساتھ ساتھ وقت اور جگہ بھی ریکارڈ کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا نے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ حکومت روابط کو تلاش کرنے کے لیے سی ڈی آر طریقے کا استعمال کررہی ہے۔
عالمی نگرانی
پاکستان واحد ملک نہیں جو کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہے۔
سنگاپور نے موبائل فون کے لیے رابطے تلاش کرنے کی ایک ایپلیکشن متعارف کروائی تا کہ حکام کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملاقات کرنے والے افراد کی نشاندہی کرسکیں۔
دوسری جانب تائیوان نے الیکٹرونک فینس یا برقی باڑ کہلائی جانے والی سہولت ایکٹیویٹ کی ہے جو اگر کوئی ایسا شخص جسے قرنطینہ میں ہونا چاہیے اور وہ گھر سے نکل جائے تو اس کا موبائل فون ڈیٹا ٹریک کر کے حکام کو الرٹ کر دیتی ہے۔