• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

نیپال کی حمایت کرنے پر منیشا کوئرالہ کو بھارت سے نکل جانے کے طعنے

شائع May 21, 2020
منیشا کوئرالہ کا تعلق نیپال سے ہے—فوٹو: ٹوئٹر
منیشا کوئرالہ کا تعلق نیپال سے ہے—فوٹو: ٹوئٹر

سرحدی تنازع پر انڈیا کے بجائے اپنے آبائی ملک نیپال کی حمایت کرنے پر بولی وڈ اداکارہ 49 سالہ منیشا کوئرالہ کو بھارتی شہریوں نے ہندوستان چھوڑ کر چلے جانے کے طعنے دینا شروع کردیے۔

منیشا کوئرالہ کا تعلق نیپال سے ہے، ان کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم بھی نیپال میں ہی ہوئی تاہم انہوں نے کیریئر بنانے کے لیے بھارت کا رخ کیا اور زیادہ تر غیر ملکی افراد کو لگتا ہے کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔

منیشا کوئرالہ نیپال کے ایک سیاسی ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں، ان کے والد نیپال کے وزیر رہ چکے ہیں جب کہ ان کے دادا 1950 کی دہائی میں نیپال کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔

منیشا کوئرالہ کے خاندان کے افراد جہاں سیاست میں متحرک ہیں، وہیں ان کے اہل خانہ کے افراد شوبز، فیشن اور میڈیا سے بھی وابستہ ہیں اور منیشا کوئرالہ نے اداکاری کو اپنانے کے بعد 1990 کے بعد بھارتی فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگئیں۔

منیشا کوئرالہ نے متعدد بولی وڈ فلموں میں شاندار اداکاری کے بدولت کافی ایوارڈز بھی حاصل کیے اور پوری دنیا میں بولی وڈ انڈسٹری کا نام روشن کیا تاہم اب بھارتی شہری انہیں سیاسی طور پر نیپال کی حمایت کرنے پر ملک سے چلے جانے کے طعنے دے رہے ہیں۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق منیشا کوئرالہ نے نیپال کے وزیر خارجہ پردیپ گیاولی کی ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ انہیں اُمید ہے کہ بھارت، نیپال اور چین اپنے سرحدی تنازع کو خوش اصلوبی سے حل کرلیں گے۔

اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے نیپال کے وزیر خارجہ کا نیپال کی قوم کا کیس بہادری سے لڑنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔

اگرچہ منیشا کوئرالہ نے اپنی ٹوئٹ میں کوئی سیاسی بات نہیں کی اور انہوں نے واضح طور پر نیپالی حکومت کے مؤقف کو درست قرار نہیں دیا تاہم ان کی جانب سے نیپالی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کرنے پر بھارتی شہریوں نے انہیں طعنے دینا شروع کردیے اور انہیں بھارت چھوڑ کر جانے کو کہا۔

منیشا کوئرالہ کی ٹوئٹ کے بعد متعدد لوگوں نے سوشل میڈیا پر انہیں قومیت کے طعنے دیے اور کہا کہ اگر انہیں بھارت میں اتنا ہی برا لگ رہا ہے تو وہ یہاں سے نیپال چلی جائیں اور وہاں جاکر پیسے کمائیں۔

کئی افراد نے اداکارہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ بھارت کی فلم انڈسٹری نے ہی انہیں پہچان دی اور اب انہیں شرم ہی نہیث آ رہی اور وہ بھارت کے خلاف ہی باتیں کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کالاپانی سے اپنی فوج واپس بلائے، نیپالی وزیراعظم

زیادہ تر لوگوں نے انہیں بھارت چھوڑ کر نیپال چلے جانے کے طعنے دیے مگر اداکارہ نے خود پر ہونے والی تنقید پر کسی کو کوئی جواب نہیں دیا۔

منیشا کوئرالہ کو جہاں عام افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں بھارت کی سابق وزیر خارجہ سوشما سوراج کے شوہر قانون دان سوراج کشال نے بھی ان سے اختلاف کیا اور اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں اداکارہ کو سرحدی تنازع کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کیا۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق سوراج کشال نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں منیشا کوئرالہ کو بیٹی کہہ کر مخاطب کیا اور انہیں نیپال اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع پر تفصیل سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی اداکارہ پر واضح کیا کہ وہ سرحدی تنازع کے معاملے پر اداکارہ کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔

سوراج کشال نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں اداکارہ کو بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ دراصل جس متنازع سرحدی مقام کو وہ نیپال کا حصہ سمجھتی ہیں، وہ تاریخی طور پر بھارت کا ہے۔

سرحدی تنازع کیا ہے؟

بھارت اور نیپال کے درمیان کم از کم 200 سال سے دونوں ممالک کی سرحد پر موجود (کالا پانی علاقہ) کے نام سے موجود علاقے پر کشیدگی جاری ہے۔

تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ نیپال کا حصہ تھا مگر 1816 میں ریاست نیپال اور اس وقت متحدہ ہندوستان کی برٹش انڈین حکومت کے درمیان اس علاقے سے متعلق ایک معاہدہ ہوا جسے سگولی معاہدے کا نام دیا گیا۔

اس معاہدے کے تحت نیپال کی ریاست، کالاپانی کے علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے سے دستبرداری ہوگئی تھی مگر ساتھ ہی معاہدے کے تحت کچھ حقوق نیپال کو بھی دیے گئے تھے، علاوہ ازیں نیپال کی ریاست کو برٹش انڈین حکومت نے بدلے میں دوسرے علاقوں تک بھی رسائی دی تھی۔

مگر 150 سال بعد جب متحدہ ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور بھارت ایک الگ ملک بنا تو اس نے دیگر علاقوں کی طرح اس علاقے کو بھی اپنی حدود میں شامل کرلیا مگر نیپال نے اس وقت سے ہی اس پر احتجاج شروع کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت اور نیپال کے درمیان کالا پانی تنازع شدت اختیار کرگیا

بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ 1816 میں ہونے والے معاہدے کے تحت اب کالا پانی کا علاقہ اس کی ملکیت ہے جب کہ نیپال کا مؤقف ہے کہ اس علاقے کی اصل ملکیت نیپال کے پاس ہی ہے مگر معاہدے کےتحت اس کے بعض انتظامات بھارت سنبھال سکتا ہے۔

لیکن حال ہی میں اس معاملے پر اس وقت دونوں ممالک میں کشیدگی دیکھی گئی جب بھارتی حکومت نے اس علاقے میں ایک روڈ بنانے کا افتتاح کیا تھا جو چین اور بھارت کو ملاتا ہے۔

بھارت کی جانب سے متنازع علاقے کو اپنی ملکیت سمجھ کر نیپال سے تجویز لیے بغیر ہی روڈ بنانے پر نیپال نے برہمی کا اظہار کیا اور نیپالی حکومت نے ایک ایسا نقشہ جاری کردیا جس میں کالاپانی کے علاقے کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

کالا پانی کا علاقہ زمینی طور پر بھارت کی ریاست اترا کھنڈ اور نیپال کے صوبے سدر پشچم پردیش کے درمیان واقع ہے اور دلچسپ بات ہے کہ ان دونوں ممالک کی سرحد کے ساتھ چین کا متنازع علاقہ تبت بھی واقع ہے، جس پر بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔

کالا پانی کا علاقہ لمپیادھورا اور لپولیکھ نامی علاقوں کا ایک مجموعہ ہے اور یہ علاقے ہمالیہ پہاڑوں کے دامن میں تین ممالک یعنی نیپال، بھارت اور چین کی سرحد پر واقع ہے، جس کی وجہ سے تینوں ممالک میں کشیدگی جاری رہتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

VIJAY KUMAR SHUKLA May 22, 2020 07:21am
منیشا کوئرالہ گو بھارت سے باہر کوئی نہیں نکال سکتا اپنے ملک کی جمعیت عزت کرنا کوئی غلط بات نہیں منی شا جتنی نیپال کی ہے اس سے زیادہ ہندوستان کی ہے

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024