• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

کورونا کے سبب بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کی کہانی

شائع July 7, 2020

یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات نے ہزاروں افراد کو ذہنی و جسمانی اذیت اور معاشی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ فضائی سفر کی بندش یا محدود سہولت بھی ایسا ہی اہک اقدام ہے جس نے اپنے دیس سے پردیس جانے والوں اور ان کے پیاروں پر ذہنی پریشانیوں کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔

جب پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں طے شدہ فضائی سفر کی سہولت متاثر ہوئی تو مسافر غیر ملکی سرزمین پر پھنس کر رہ گئے۔ انہی میں سے ایک پاکستانی افروزہ بیگم ہیں جو بنگلہ دیش میں پھنس چکی ہیں اور تمام تر کوششوں کے باوجود واپسی کے راستے کھلتے دکھائی نہیں دے رہے۔

ڈان اخبار میں 9 اپریل 2020ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 300 پاکستانی طلبہ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس خبر کے مطابق اس وقت تک ڈھاکہ میں 218 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے تھے اور 20 مریضوں کی اموات ہو چکی تھی۔

جہاں تک طلبہ و طالبات کی بات ہے تو بہت سے پاکستانی طالب علم وہاں سارک اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی اسکالرشپ پر بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ افروزہ بیگم جیسے افراد کی بھی اچھی خاصی تعداد وہاں موجود ہے جو وزٹ ویزے پر بنگلہ دیش گئے ہوئے تھے۔

افروزہ بیگم کس مشکل میں ہیں؟

'حکومتِ پاکستان، لندن، دبئی اور امریکا سے تو اپنے شہریوں کو واپس لانے کا انتظام کر رہی ہے لیکن ہم جیسے بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کی فریاد کوئی نہیں سن رہا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹ بند ہوئیں اور ہم مشکل میں آگئے۔ فضائی راستے بند ہیں اور میرے ویزے کی تاریخِ تنسیخ 25 اپریل تھی'۔

یہ کہنا تھا افروزہ بیگم کا جو 25 فروری 2020ء کو اپنے خاندان سے ملنے ڈھاکہ پہنچی تھیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں پھنسے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو واپس بھیجنا زیادہ ضروری کیوں؟

افروزہ بیگم کا کہنا تھا کہ 'میں اپنے میکے 18 سال بعد آئی ہوں۔ آخری مرتبہ بڑے بھائی کی شادی پر آئی تھی۔ اس کے بعد امّاں ابّا کا انتقال ہوا اور بہن بھائیوں کی شادی ہوئی، مگر میں خوشی غمی کے کسی بھی موقعے پر شریک نہیں ہوسکی‘۔

افروزہ بیگم بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے آگے کھڑی ہیں
افروزہ بیگم بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے آگے کھڑی ہیں

وہ مزید کہتی ہیں کہ 'کبھی بچوں کی تعلیم تو کبھی کوئی اور وجہ، سفر نصیب میں نہیں تھا۔ 18 سال پہلے تک میں ہر 2 سال بعد چکر لگاتی تھی۔ 2 ماہ رہتی اور واپس آجاتی تھی۔ پہلے تو فاصلے اور سفر کی تھکن کا اتنا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ پچھلے 6 سال سے ویزا کے لیے درخواست دے رہی تھی لیکن بنگلہ سفارت خانہ ویزا ہی نہیں دیتا تھا۔ دسمبر 2019ء میں ایک عرصے بعد ویزا ملا تھا۔ اس سے پہلے بھی بڑے بھائی ڈھاکہ جانے کی وجہ بنے تھے اور اس بار بھی۔ پہلے بڑے بھائی کی شادی تھی اور اب وہ بیمار ہیں۔ دل کے عارضے میں مبتلا بھائی کی فروری 2020ء میں انجو پلاسٹی ہوئی ہے‘۔

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے افروزہ بیگم نے کہا کہ 'ڈھاکہ میں میرے 2 بھائی، 2 بہنیں اور خاندان کے چند دیگر افراد رہتے ہیں۔ والدہ کے انتقال پر نہ آنے کا دکھ تھا۔ سوچا تھا کہ بہن بھائیوں کے درمیان رہوں گی۔ تھوڑی گھر سے بھی بے فکری تھی لیکن کورونا نے ہر چیز کا مزہ خراب کردیا۔'

افروزہ بیگم نے ویزے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اپنی واپسی کی سیٹ بک کرائی ہوئی تھی۔ انہیں 20 اپریل کو کراچی میں اپنے شوہر اور بچوں کے درمیان ہونا تھا۔

محمد پور، ڈھاکہ میں پچھلے 4 ماہ سے پھنسی افروزہ بیگم حکومتِ پاکستان سے چاہتی ہیں کہ ان جیسے پاکستانیوں کے لیے بھی پروازوں کا انتظام کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ایک بہن 5 مارچ کو کینیڈا سے ملنے آئی تھیں اور انہیں واپس کینیڈا گئے ایک ماہ ہوگیا ہے۔ کینیڈین سفارت خانہ بہن سے مسلسل رابطے میں تھا، بہن کو سفارت خانے سے میل آئی کہ فلائٹ کا انتظام کیا جارہا ہے اور آج وہ اپنے گھر والوں کے درمیان اپنے گھر بیٹھی ہیں۔

انہوں نے اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا کہ ان کے خاندان نے ڈھاکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے رجوع کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ کراچی سے میرے شوہر اور یہاں ڈھاکہ سے میرے بھائی نے بھی 2 بار پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔

کراچی میں مقیم ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے کہ کورونا کی وجہ سے دفاتر بند ہیں لیکن میل کا جواب تو دیا جاسکتا ہے۔ وہ پاکستانی سفارت خانے کو 3 میل کرچکے ہیں لیکن ہر طرف خاموشی ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے بُری خبر: مزید عالمی وبائیں پھن پھیلائے کھڑی ہیں

کراچی میں موجود افروزہ بیگم کی بیٹی کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دفاتر میں لوگوں کا آنا جانا بند ہے جس کی وجہ سے ویزے میں توسیع کی درخواست بھی نہیں دی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میرے ماموں جب بھی کسی شخص کو وہاں بجھواتے ہیں تو ہر بار یہی سننے کو ملتا ہے کہ دفتر بند ہے۔ ہم بس انتظار کر رہے ہیں کہ سفارت خانے سے کوئی ہم سے رابطہ کرے۔ جتنے کا ٹکٹ ہوگا اور جس فلائٹ سے کہیں گے، ہم تمام لوازمات پورے کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں بس اپنی والدہ کو واپس لانا ہے'۔

12مئی کو ایک خصوصی فلائٹ ڈھاکہ میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے بھیجی جو شاہ جلال ایئرپورٹ سے 120 پاکستانیوں کو وطن واپس لائی تھی۔ اس فلائٹ میں 66 پاکستانی طلبہ و طالبات بھی شامل تھے لیکن افروزہ بیگم سفارت خانے کے رابطے میں نہیں آسکیں اور ان کے شوہر کی طرف سے بھیجی گئی میل پر بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی طلبہ کیا کہتے ہیں؟

خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ باسط خان مکینیکل انجینئر بننے ڈھاکہ آئے۔ وہ اسلامک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے طالب علم ہیں اور کیمپس میں پاکستانی طالب علم ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم کی اسکالرشپ پر 3 سال سے یہاں مقیم ہیں۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ 15 پاکستانی طالب علم اسی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔

کیمپس میں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث انہیں بھی مختلف مسائل کا سامنا رہا۔ باسط نے بتایا کہ کلاسیں بند تھیں اور ہمیں کیمپس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ کھانے پینے کی تنگی بھی رہی۔

بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالب علموں کا گروپ فوٹو
بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالب علموں کا گروپ فوٹو

پاکستانی ہائی کمیشن ہم سے وقتاً فوقتاً رابطے میں رہتا ہے۔ فلائٹ کے وقت بھی کال آئی تھی لیکن میں نہیں گیا۔ اس کے پیچھے 2 وجوہات ہیں۔

  • پہلی یہ کہ میرا ویزا ختم ہو رہا تھا اور پھر کرایہ بھی زیادہ تھا جو میرا خاندان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ سب کی طرح ہمارے گھر والے بھی پریشان تھے لیکن ہم نے انہیں سمجھا دیا کہ یہاں رہنا ہی ٹھیک ہے۔ کلاسیں کب شروع ہوجائیں اور پھر بھاگم بھاگ واپس آنا پڑے جو میرے گھر والوں کے لیے مزید مالی بوجھ کا سبب بنتا، لہٰذا میں نے واپس گھر جانا مناسب نہیں سمجھا۔
  • دوسری وجہ یہ کہ میرا ویزا ختم ہو رہا تھا۔ اب اسلام آباد جاکر ویزا بڑھوانے سے بہتر ہے کہ یہیں رہتے ہوئے یہ کام کرلیا جائے۔

پنجاب کے شہر میانوالی سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ آصف خان اسلامک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ڈھاکہ میں انجینئرنگ کے شعبہ مکینیکل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔ 5 سال پہلے اسلامی تعاون تنظیم کی اسکالرشپ پر وہ یہاں آئے تھے۔ وہ رواں برس جون میں پاکستان جانا چاہتے تھے کیونکہ 2 ڈھائی سال سے وہ اپنے گھر والوں سے نہیں ملے۔

ڈھاکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی تعریف کرتے ہوئے آصف نے بتایا کہ پاکستانی سفارت خانہ گاہے بگاہے طلبہ کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے اور اس کے علاوہ بھی سفارت خانہ قومی دنوں اور دیگر تقریبات میں طالب علموں کو مدعو بھی کرتا ہے۔ تقریباً تمام ہی طلبہ و طالبات سے سفارت خانے نے اس وقت بھی رابطہ کیا تھا جب خصوصی پرواز پاکستان واپس جارہی تھی۔ ان کی جانب سے اطلاع دی گئی تھی کہ اگر کوئی پاکستان واپس جانا چاہتا ہے تو وہ سفارتخانے کو اپنے دستاویزات بھیج دے۔

لیکن ٹکٹ کی قیمت معمول سے کچھ زیادہ تھی اور میرے گھر والے اتنی مہنگی ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں جو طالب علم پاکستان جانا چاہتے تھے وہ پاکستان جاچکے ہیں جبکہ دیگر طلبہ تعلیمی سال کو ختم کرکے جائیں گے۔

ان بحران زدہ حالات میں پردیس میں زیرِ تعلیم اپنے جگر گوشوں کی فکر کسے نہیں ہوگی؟ لیکن معاشی حالات اچھے نہ ہونے اور کرایوں میں اضافے کے سبب بہت سے طالب علموں نے پردیس سے خود ہی اپنے خاندان کو مطمئن کیا ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'یہاں کے عام عوام بہت اچھے اور سیاسی نظریات سے دُور ہیں۔ گاؤں کے لوگ پاکستانیوں کی کافی عزت کرتے ہیں'۔

آصف نے لاک ڈاؤن کے دوران کی کہانی کچھ اس طرح سنائی کہ 'ہم 3 ماہ سے آئسولیشن میں تھے اور ہماری کلاسز بھی نہیں ہو رہیں تھیں لیکن یکم جولائی سے آن لائن کلاسوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہمیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ ہی ہمیں کھانا فراہم کر رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کھانوں کی لذت تو کچھ بدلی ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اب سب کچھ یونیورسٹی کے اندر ہی مل رہا ہے اور ہم ٹھیک ہیں'۔

میانوالی میں مقیم آصف کے چچا محمد اقبال خان کا کہنا تھا کہ مشکل حالات میں اپنے بچے سے کون دُور رہنا چاہے گا مگر آصف کی واپسی میں سب سے بڑا مسئلہ جہاز کا کرایہ تھا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'اب اگر ہم انہیں بلوالیں اور پھر کچھ ہی دنوں میں دوبارہ واپس جانا پڑجائے تو اخراجات ہماری استطاعت کی حد پار کرجائیں گے۔ آصف سے روز بذریعہ فون بات کرکے تسلی ہوجاتی ہے کہ وہاں ان کا خیال رکھا جا رہا ہے‘۔

بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالب علموں کا گروپ فوٹو
بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالب علموں کا گروپ فوٹو

پنجاب کے شہر خوشاب سے تعلق رکھنے والے حسین نواز خان نے حال ہی میں محمد عبدالرحیم میڈیکل کالج، دیناج پور سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی ہے۔ انہیں یہاں آئے ہوئے 6 سال ہوگئے ہیں لیکن پچھلے 2 سال سے گھر نہیں جاسکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ کورونا وائرس کے ہی دوران انہیں انٹرن شپ کا موقع مل گیا تھا۔

نیورو سرجری میں دلچسپی رکھنے والے حسین نواز کا کہنا تھا کہ 'لاک ڈاؤن کے دوران انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا البتہ پاکستان میں گھر والے تھوڑا پریشان تھے کیونکہ میں ہسپتال میں کام کر رہا تھا اس لیے وہ چاہتے تھے کہ میں واپس آجاؤں'۔

حسین طویل عرصے سے بنگلہ دیش میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے یہاں مطمئن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں لوگ اور ادارے بھی اچھے ہیں اور پاکستانی ہائی کمیشن بھی رابطے میں ہے۔ انہوں نے شروع میں ہی بتایا تھا کہ خصوصی فلائٹ کا انتظام کیا گیا ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ معاملات میں بگاڑ آگیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ صورتحال واضح ہوگئی۔

وہ کہتے ہیں کہ 'یہاں کی خصوصیت لوگوں کا سادہ مزاج ہونا ہے۔ آسانی کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں اور زبان کی رکاوٹ کا زیادہ مسئلہ پیش نہیں آتا، اگر کوئی یہاں کی زبان شوق سے سیکھنا چاہے تو 3 ماہ کے عرصے میں سیکھ سکتا ہے۔ یہاں کا فطری حسن بھی کمال کا ہے۔

افتخار احمد خان کا تعلق پنجاب کے شہر میانوالی سے ہے۔ وہ کومیلا میڈیکل کالج میں آخری سال کے طالب علم ہیں۔ وہ گزشتہ تقریباً 4 برس سے یہاں زیرِ تعلیم ہیں لیکن وہ بھی 2 سال پہلے ہی گھر گئے تھے۔

پاکستانی سفارت خانے نے ان سے بھی 12مئی کی فلائٹ سے پہلے رابطہ کیا تھا لیکن اس کے بعد سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق میڈیکل میں تقریباً 15 پاکستانی ابھی بھی یہاں ہیں۔ جہاں تک طالبات کی بات ہے تو ان میں سے زیادہ تر واپس جاچکی ہیں۔

مزید پڑھیے: کورونا کے دوران دبئی میں گزرنے والے دن اور رات!

افتخار احمد خان کے بڑے بھائی شفقت خان کا کہنا ہے کہ افتخار کو گھر آئے 3 سال ہوگئے ہیں۔ کرایہ اس کے نہ آنے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ بنا ہے۔ اپنے بھائی سے وبا کے دنوں میں دُور رہنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن ہم سفری اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ صرف ایک طرف کے ٹکٹ کی قیمت ایک لاکھ 92 ہزار ہے اب آپ خود ہی مالی بوجھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ڈھاکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانہ اس مسئلے پر کیا مؤقف رکھتا ہے؟

پاکستانی سفارت خانہ ڈھاکہ کے فرسٹ سیکریٹری آف ویزا اور کونسلر سروس وقار احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نے 12 مئی 2020ء کو پی آئی اے کی خصوصی ایئر بس پرواز کے ذریعے 120 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کا بندوست کیا تھا جن میں تقریباً 70 طلبہ و طالبات بھی شامل تھے۔

سفارت خانے کے ریکارڈ کے مطابق 116 پاکستانی طالب علم بنگلہ دیش کے تعلیمی اداروں میں اپنی ڈگری مکمل کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ سیلف فنانس اور کچھ سارک اور آو آئی سی کی مختلف اسکالرشپس پر یہاں آئے ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ متعدد طالب علموں نے واپس جانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ سفارت خانے کے نمائندے کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہم اپنے طلبہ سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں۔ انہیں کھانے پینے اور دیگر ضرورت کی اشیا بھی مہیا کرتے رہے ہیں۔ ویزا کے مسائل ہوں یا دیگر دشواریاں، انہیں مدد فرہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

سفر سے متعلق مشکلات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس اور دیگر عوامل کی وجہ سے پروازوں کے عمومی شیڈول متاثر ہوئے ہیں۔ ہم چند کمرشل فلائٹس سے خدمات حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ پاکستان واپسی کے منتظر افراد کا ڈیٹا بھی جمع کر رہے ہیں۔ افروزہ بیگم سے متعلق سوال کرنے پر انہوں نے بتایا کہ سفارت خانہ افروزہ بیگم سے رابطے میں آچکا ہے اور دیگر پاکستانیوں سے رابطہ کیا جارہا ہے۔

بیرونِ ملک پھنسے ہزاروں پاکستانیوں کے لیے ایک بڑی خبر 16 جون کو سامنے آئی جب وزیرِاعظم پاکستان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو واپس بلانے کے لیے انتظامات کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پروازوں کو بحال کیا جائے گا۔ تاہم اب بھی بہت سے پاکستانی دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔

جہاں دنیا کے دیگر حصوں میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانا ضروری امر ہے وہیں بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے طلبہ کے ساتھ دیگر شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی وطن واپسی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ ہر ایک مہنگے ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا لہٰذا ایسی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے جس کے تحت سستے اور سہل انداز میں ہر ایک پاکستانی واپس لوٹ سکے۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024