کراچی کی ’نمائش چورنگی‘ کا نام ’نمائش چورنگی’ کیسے پڑا؟
شہرِ کراچی میں یوں تو ملیر سے لے کر ٹاور تک اور نئی کراچی سے کیماڑی تک شاید ہی ایسی کوئی عوامی ٹرانسپورٹ ہو جو بندر روڈ سے نہ گزرتی ہو۔
بندر روڈ جو اب ایم اے جناح روڈ ہے، اس پر کئی اسٹاپ آتے ہیں جو مختلف عوامی ناموں سے مشہور و معروف ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے مقبول چوراہے کا نام 'نمائش چورنگی' ہے۔
کراچی کے قدیم باسی اسے 'پرانی نمائش' بھی کہتے ہیں۔ اگر اس چورنگی کے اطراف میں موجود عمارتوں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ مشہور مزارِ قائد ہے یعنی کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ۔ یہاں ایک اور تاریخی مقام محفل شاہ خراساں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ایک قدیم بنگلے میں قائدِاعظم اکیڈمی کا دفتر بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس چوراہے سے گزرنے والی ہر بس، منی بس یا کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا کنڈیکٹر جب اس چوراہے پر پہنچے تو بلند آواز میں کہتا ہے 'نمائش والے! نمائش والے!' وہ نہ تو مزارِ قائد کا نام لیتا ہے اور نہ ہی کسی اور تاریخی عمارت نام۔ تو آخر ایسا کیوں ہے؟
یہ سوال بڑے عرصے سے ہمارے ذہن میں تھا۔ کراچی کیا پاکستان میں بسنے والا شاید ہی کوئی ایسا شہری ایسا ہو جس نے نمائش چورنگی کا نام نہ سنا ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس چورنگی پر ہونے والے احتجاجی دھرنے، مظاہرے اور بھوک ہڑتالیں ہیں۔
دھرنے، مظاہرے اور احتجاج تو کراچی پریس کلب پر بھی ہوتے ہیں، اور یہاں ہونے والی سرگرمیاں ایک یا 2 روز نہیں بلکہ بعض اوقات تو مہینوں پر محیط ہوتی ہیں۔ ویسے یہ مظاہرے پریس کلب پر کیوں ہوتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے، اس کا ذکر پھر کبھی لیکن یہ یاد رہے کہ پریس کلب پر ہونے والے مظاہروں سے صرف صدر اور شارع فیصل کا علاقہ متاثر ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے سیاسی و مذہبی جماعتوں میں شامل ان کے میڈیا سیل نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر نمائش چورنگی پر احتجاج کیا جائے تو اس کا مطلب پورا کراچی بند، یہ بات درست نکلی اور اب ایسے تمام مظاہرے نمائش چورنگی پر ہوتے ہیں۔
یہاں مظاہرے کے لیے کوئی بہت زیادہ افرادی قوت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، فقط 40 سے 50 لوگ کافی ہیں۔ ویسے آپ چاہیں تو سیکڑوں لوگ بھی اکٹھے کرسکتے ہیں لیکن جب کام کم لوگوں سے ہورہا ہو تو سیکڑوں کو جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہمارے نوجوان صحافی دوست بلال ظفر سولنگی سے اس بارے میں بات ہو رہی تھی تو وہ بولے ہوسکتا ہے کہ اس مقام پر کوئی نمائش لگی ہو، کوئی تھیٹر ہو، یا پھر کوئی سنیما رہا ہو۔
ان کی بات تو ٹھیک تھی لیکن اس مقام پر ایسی کسی چیز کا کوئی سراغ نہیں تھا۔ لیکن پھر یہ نام آخر کیوں پڑا، ہم نے اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
ایک روز پاکستان انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (پی آئی آئی اے) لائبریری میں ڈان اخبار کی پرانی فائلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک خبر پر نظر پڑی جس کی سرخی کچھ یوں تھی International Fair Opens Today۔ اس خبر کے مطابق یہ نمائش 20 نومبر تک جاری رہی تھی۔
اس کا افتتاح وزیرِ تجارت وحید الزماں نے کیا تھا۔ یہ نمائش کنٹری کلب روڈ پر ہوئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنٹری کلب روڈ کہاں ہے۔ اس حوالے سے ہم نے استاد ماہرِ تعلیم ڈاکٹر معین الدین عقیل سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی روڈ ہی دراصل کنٹری کلب روڈ ہے۔
دوسرا معاملہ یہ تھا کہ اگر کنٹری کلب روڈ یہ ہے تو نمائش کہاں ہوتی تھی؟ قائدِاعظم اکیڈمی کے چیئرمین رضی حیدر عابدی نے بتایا کہ یہ بالکل وہی جگہ ہے جہاں آج ایکسپو سینٹر قائم ہے۔ وہ اپنے بچپن میں وہاں گئے تھے۔ روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق اس نمائش کی نمایاں بات ہالینڈ کی کمپنی فلپس کی جانب سے 200 ٹیلی وژن کراچی کے مختلف کلبوں، تنظیموں اور ہوٹلوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔
اس وقت تک دوسری صنعتی نمائش کے لیے یکم مارچ 1952ء سے 16 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ بعدازاں اس کے افتتاح کی تاریخ بڑھا دی گئی۔
لیکن اب دوبارہ آتے ہیں اس بات پر کہ جب قیامِ پاکستان کے بعد صنعتی نمائشیں جو 1950ء اور 1952ء میں ہوئیں ان کا مقام کنٹری کلب روڈ پر تھا، اور یہ وہی جگہ ہے جہاں اب ایکسپو سینٹر قائم ہے، تو پھر نمائش چورنگی کا نام نمائش کیوں ہے؟
یہ عقدہ ہم پر اس وقت کھلا جب ریگل پر پرانی کتابوں کے تاجر یوسف بھائی نے ہمیں کہا کہ پیر کے روز ان کے گودام لائنز ایریا میں ان سے ملوں۔ میں نے کہا خیریت تو ہے جس پر انہوں نے کہا تمہارے کام کی ایک چیز ہاتھ لگی ہے، قیمت تم دے نہیں پاؤگے فوٹو کاپی کروالینا۔ خیر ہم اگلے روز یوسف بھائی کے گودام پہنچے اور انہوں نے کتاب نہیں بلکہ ایک کتابچہ دیا جو 1939ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے آل انڈیا صنعتی نمائش کے بارے میں تھا۔
ہمیں اندر سے خاصی مایوسی ہوئی لیکن ہم نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا۔ کتابچہ لے کر اردو بازار پہنچے اور فوٹو کاپی کروا کر کتابچہ دوبارہ یوسف بھائی کے حوالے کردیا۔
کافی دنوں بعد کتاب پر سرسری نگاہ ڈالی تو کتاب پر A-3 سائز کا نقشہ دیکھا۔ یہ نقشہ اس مقام کا تھا جہاں صنعتی نمائش منعقد ہوئی تھی اور یہ مقام بالکل وہی جگہ ہے جہاں اس وقت مزارِ قائد کے نقشے میں سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے اسکول آئی دار یو (IDARIEU) کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
کتابچے میں مختلف اکابرین کے پیغامات بھی شامل ہیں۔ اس وقت کراچی کے میئر حاتم علوی کے پیغام میں لکھا ہے کہ کراچی میں پراپرٹی ٹیکس 14 فیصد ہے جبکہ بمبئی میں 10فیصد اضافے سے یہ دوگنا ہوجائے گا۔ بمبئی کے کاروباری حلقوں کو کھلی دعوت ہے کہ وہ کراچی پر نظر ڈالیں۔ وہ بجا طور پر کچھ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ بمبئی سے وزراء جن کا تعلق شہری علاقوں سے ہے، جب وہ ٹیکسوں میں 10فیصد اضافی بوجھ ڈال سکتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سندھ اسمبلی کے اراکین جو زیادہ تر دیہی مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں ان کا عمل نئے قائم شدہ دارالحکومت کے ساتھ مختلف ہوگا۔
یعنی کہ آج سے 80 برس پہلے بھی سندھ میں دیہی اور شہری تضاد موجود تھا۔ خیر نمائش کے کتابچے میں مختلف کمپنیوں کے اشتہارات میں موجود ایک منفرد اشتہار چندو حلوائی کا بھی ہے۔ پنجابی چندو حلوائی تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان منتقل ہوگئے تھے، ان کے خانوادے کی برانچیں ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔
نمائش کے اسپیشل افسر ٹی جے بھوجوانی اپنے مضمون میں چندو حلوائی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہوٹل اور ریسٹورینٹ کے ساتھ ایک اسٹال پر چندو حلوائی کی مٹھائی خصوصاً بادامی حلوہ دستیاب ہے جو 'میرٹھ' کے کاریگر تیار کرتے ہیں۔ اب اس کا انحصار میلے میں آنے والوں پر ہے کہ وہ حلوہ چکھنے کے بعد طے کریں کہ ہوٹلوں پر ملنے والی اشیاء زیادہ لذیذ ہیں یا چندو کا حلوہ۔ چندو حلوائی کا وہ حلوہ اب بھی بھارت میں کراچی حلوہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
اب چونکہ جناح صاحب کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے لیے اسی مقام کا انتخاب کیا گیا تھا اس لیے اس کے بعد صنعتی نمائشوں کے لیے مقام تبدیل کردیا گیا۔ گمان غالب ہے کہ 1939ء کی آل انڈیا صنعتی نمائش کے بعد اس علاقے کا نام نمائش پڑ گیا تھا۔
اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (21) بند ہیں