ایک برطانوی قبرستان کی 'سیر'
اگر میں آپ سے کہوں کہ آج میں ایک قبرستان کی سیر سے متعلق کچھ بتاؤں گا تو یقیناً آپ کہیں گے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی قبرستان کی 'سیر' کی جائے؟
اس رائے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قبرستان کا جو روایتی تصور ہمارے ذہنوں میں موجود ہے وہ بلاشبہ ایک اجاڑ، مٹی اور دھول سے اٹی اور بعض اوقات 'خوفناک' جگہ کا ہے۔ مگر کچھ عرصہ قبل لندن کے ایک قبرستان کے قریبی مشاہدے نے میرے اس تاثر کی نفی کردی۔
یونہی اچانک، بیٹھے بٹھائے یہ طے ہوا کہ آج کسی پارک یا تفریحی مقام کا رخ کرنے کے بجائے قبرستان کا چکر لگایا جائے اور کچھ دیر اس شہرِ خموشاں میں گزارا جائے۔
یوں تو برطانیہ بھر میں ایسے کئی قبرستان موجود ہیں جہاں بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب، ابدی زندگی گزارنے کے لیے 2 گز زمین میسر آجاتی ہے، لیکن برطانیہ بھر میں بالعموم اور پھر لندن جیسے کثیر الثقافتی اور متنوع شہر میں بالخصوص مختلف کمیونٹیوں یا مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی روایات پر آزادی سے عمل کرنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتظام کر رکھا ہے جہاں وہ تدفین سے جڑی اپنی مذہبی رسومات پر آسانی اور سہولت سے عمل کرسکیں۔
اسی مناسبت سے ہم نے بھی مشرقی لندن میں موجود ایک مسلم قبرستان کا رخ کیا، جس کا انتظام ایک نجی کمپنی کے ہاتھ میں ہے اور یہاں اسلامی عقائد کے مطابق مکمل تجہیز و تکفین کی سہولیات ایک جگہ پر موجود ہیں۔
گزشتہ سال جب ابھی کورونا نے معمولاتِ زندگی متاثر نہیں کیے تھے تب گھر والوں اور رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے پاکستان چکر لگا۔ والد صاحب کے پاس حاضری دینے کے لیے گھر سے کچھ دُور موجود قبرستان جانا پڑتا ہے، سو رکشہ لیا اور چل دیے۔ قریب پہنچ کر بزرگ رکشہ ڈرائیور نے 2 سڑکوں کے سنگم پر، قبرستان کی باؤنڈری شروع ہوتے ہی ایک نامکمل دیوار کے پاس رکشہ روکا اور درخواست کی کہ یہاں پر ہی اتر جائیں۔ وجہ پوچھنے پر جواب آیا کہ 'سر جی، جتھوں دل کرے وڑ جاؤ، دیوار کہیڑی پوری اے'، (سر، جہاں سے دل کرے داخل ہوجائیں، کون سی یہاں کوئی دیوار مکمل ہے)۔
لیکن یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ داخلے کے لیے ایک باقاعدہ راستہ موجود تھا اور وسیع کار پارکنگ بھی۔ یہاں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد پیدل چلنے والوں کے لیے مختص راستہ پر آئے تو ایک اسٹینڈ پر رنگ برنگی چھتریاں لٹک رہی تھیں اور ساتھ ہی ایک مختصر نوٹ چسپاں تھا کہ اگر آپ کے وزٹ کے دوران لندن کا غیر متوقع اور کبھی بھی تبدیل ہوجانے والا موسم حائل ہورہا ہو تو بلاتکلف ان چھتریوں کو استعمال کیجیے اور واپسی پر یہاں اسی طرح لٹکا جائیں۔
پیدل راستہ کے علاوہ یہاں گاڑیوں کے لیے بھی ایک لین مختص تھی، شاید میت کو یا پھر یہاں آنے والے بزرگ حضرات کو قبرستان کے مختلف علاقوں میں آسانی سے پہنچانے کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہو، لیکن اس وقت یہاں موجود افراد کی زیادہ تعداد پیدل ہی تھی۔ بہت زیادہ رش تو نہیں تھا لیکن پھر بھی قابلِ ذکر تعداد اپنے پیاروں سے ملنے اور سرگوشیوں میں راز و نیاز کی باتیں کرنے موجود تھی۔
ایک ہی سائز اور اسٹائل کی ترتیب کے ساتھ قطار اندر قطار موجود قبروں کی کتبوں کی بناوٹ، ہئیت اور رنگت ایک جیسی تھی، بس اگر کچھ فرق تھا تو کتبوں پر موجود تحریروں کا فرق تھا۔ یوں دیکھنے میں یہ بہت بھلی سی لگ رہی تھیں۔ ہر قبر کا اپنا مخصوص نمبر بھی ہے تاکہ قبر ڈھونڈنے میں آسانی رہے اور اگر پہلی بار کسی کی قبر پر آرہے ہیں تو معلوم ہوسکے کہ قبر، قبرستان کے کس حصے میں موجود ہے۔
یہاں آج کل قبرستانوں میں عموماً قبر بنانے کے بعد اس کے اوپر مٹی یا سیمنٹ کی بہت اونچی ڈھیری نہیں بنائی جاتی اور نہ ہی قبر پختہ کرنے کا رواج ہے، پرانے قبرستانوں میں البتہ بہت اونچی اور مختلف ڈیزائن پر مشتمل قبور دیکھنے کو ملتی ہیں۔
قبرستان میں موجود مرکزی میدان میں جہاں قبریں موجود ہیں وہاں نہ تو مٹی اُڑ رہی تھی اور نہ ہی کسی قسم کا کوڑا کرکٹ موجود تھا۔ منظم انداز سے موجود قبروں کے اطراف میں ترتیب سے تراشی گئی گھاس بھی کافی بھلی محسوس ہورہی تھی اور یہاں کا مجموعی منظر قبرستان کے روایتی 'ہیبت ناک' تصور کی نفی بھی کررہا تھا۔
حقیقتاً اگر کسی انجان شخص کو یہ بتائے بغیر یہاں لایا جائے کہ یہ قبرستان ہے تو وہ شاید یقین نہ کرے کہ یہاں آکر پہلی نظر میں کسی پارک کا ہی گمان ہوتا ہے۔ ترتیب سے لگے درخت، خوشنما رنگوں کے پھول اور اس وسیع و عریض جگہ کے تقریباً وسط میں بہتی چھوٹی سی نہر یہاں کے ماحول کو کافی حد تک 'نارمل' رکھنے کی اچھی کوشش ہے۔
اسی دوران نمازِ عصر کا وقت ہوا تو قبرستان کی ایک جانب موجود چھوٹی لیکن خوبصورت اور صاف ستھری مسجد میں نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔ مسجد سے باہر ہی وضو کے لیے الگ سے گوشہ مختص ہے جس کی صفائی ستھرائی اور انتظامات دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ غالباً نمازِ جنازہ بھی یہیں پر ادا کی جاتی ہے۔
کونے میں موجود ایک ٹیبل پر کفن دفن کے معاملات اور اسلامی عقائد کی روشنی میں میت کی تدفین تک کے تمام مراحل سے متعلق چھوٹے چھوٹے کتابچے موجود تھے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، یہاں برطانیہ میں وفات سے متعلق امور انجام دینا کچھ اتنا آسان نہیں، جن میں تجہیز و تکفین کے معاملات، رشتہ داروں کو اطلاعات، قبر کی بکنگ اور اس کے لیے بھاری رقم کی ادائیگی، جنازے کی روایتی تقریب کے انتظامات، میڈیکل سرٹیفیکیٹ کا حصول، ڈیتھ رجسٹر کروانا، گھر یا ہسپتال سے میت کی قبرستان منتقلی وغیرہ شامل ہیں۔
ان میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ اچھے خاصے پیسے بھی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اگرچہ کونسل کی سطح پر بعض اوقات ضرورت مند لوگوں کے لیے بلامعاوضہ قبریں بھی دستیاب ہوتی ہیں لیکن پہلے ہی متنبہ کردیا جاتا ہے کہ یہ ذاتی نہیں بلکہ 'پبلک قبریں' ہیں اور ایک قبر میں زیادہ افراد کو بھی دفنایا جاسکتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عام قبرستانوں میں گزشتہ کچھ عرصے سے خریدی جانے والی قبر بھی عموماً 99 سال تک کی لیز پر دی جاتی ہے اور اس کے بعد انتظامیہ کو یہاں ردوبدل کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ شاید انہی پیچیدگیوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصے سے وفات کے بعد میت کو جلا دینے کی روش تیزی سے بڑھ رہی ہے حتیٰ کہ جن افراد کے عقیدے میں آخری رسومات اس سے مختلف ہیں وہ بھی اس عمل کو اختیار کررہے ہیں۔
بہرحال، تدفین سے متعلق ان تمام بکھیڑوں کو مناسب انداز سے انجام دینے کے لیے 'فیونرل ڈائریکٹرز' آپ کی مدد کرنے کے لیے موجود ہیں۔ یہ باقاعدہ ایک کمپنی کی حیثیت سے رجسٹر ہوتے ہیں اور ایک مخصوص فیس کے بدلے، جنازے اور تدفین سے متعلق انتظامات انجام دیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی تدفین کے لیے مختلف ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ان کے 'کلائنٹ' کو ایک پُروقار اور بہترین آخری سفر نصیب ہو۔
مسلم ہوں یا غیر مسلم، چونکہ تدفین سے متعلق امور کافی مہنگے ہیں اس لیے مختلف کمپنیوں کی جانب سے وفات کے بعد آخری رسومات سے متعلق خصوصی 'پیکجز' بھی متعارف کروائے جاتے ہیں۔
اگر آپ اپنی وفات کے بعد اپنے پیچھے رہ جانے والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تو اپنی زندگی ہی میں اپنے سفرِ آخرت کا 'ٹکٹ' خرید لیجیے۔ اس مقصد کے لیے مختلف کمپنیوں کی جانب سے ماہانہ اقساط پر بھی پلان دستیاب ہیں۔ پاکستانی یا مخصوص مسلم تناظر میں شاید یہ بات اچھنبے کا باعث ہو کیونکہ ہم عموماً اپنے پیاروں کے بعد ان کی تجہیز و تکفین کو بھی ایک سعادت سمجھتے ہیں۔
لیکن برطانوی معاشرہ دیگر بہت سے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی ہم سے بہت الگ ہے اور یہاں موت سے قبل، موت کی بات اور تدفین کی تیاری کرکے رکھنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا کہ مرنا تو ہر ایک کو ہے۔
ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ برطانیہ میں موجود بڑی مساجد اور ان سے منسلک اسلامک مراکز کی اکثریت بہتر انداز میں اس معاملے پر کمیونٹی کی رہنمائی کر رہی ہیں اور اکثر جگہوں پر جنازے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ کفن دفن کی سہولیات بھی موجود ہیں جو انتہائی مناسب فیس کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔
بعض بڑی مساجد میں باقاعدہ ایسے شعبے بھی موجود ہیں جو مرحوم کی تدفین سے پہلے تمام سرکاری امور کی انجام دہی میں مدد کرتے ہیں تاکہ ایسے مشکل وقت میں متوفی کے خاندان کو مزید کوفت سے بچایا جاسکے۔ برطانیہ میں میت کی تدفین سے قبل ڈیتھ رجسٹریشن کروانا لازمی ہے جو بعض اوقات پیچیدہ کام ثابت ہوتا ہے، لہٰذا مساجد کی جانب سے یہ سروس مہیا کرنا کمیونٹی کے لیے حقیقتاً ایک نعمت ہے۔
پہلے پہل جب برطانیہ کثیر الثقافتی ملک اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی آماجگاہ کے طور پر اتنا زیادہ نہیں جانا جاتا تھا، تب عموماً مختلف مذاہب کے افراد کو ایک ہی قبرستان میں دفن کردیا جاتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ جوں جوں دیگر مذاہب اور روایات کو ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو قبرستانوں میں بھی ان کے لیے گوشے مختص ہونے لگے اور پھر بات پرائیوٹ قبرستانوں کے قیام تک بھی پہنچی۔
ایک ہی قبرستان میں مختلف عقیدے رکھنے والوں کی پہلو بہ پہلو قبروں کی موجودگی کی ایک واضح مثال ہم نے کچھ برس قبل برطانیہ کے معروف شہر کیمبرج میں دیکھی، جہاں کے مرکزی قبرستان میں لفظ 'پاکستان' کے خالق چوہدری رحمت علی دیگر مذاہب کے ماننے والے مرحومین کے بیچوں بیچ مدفون ہیں۔ برطانیہ بھر کے قدیم قبرستانوں میں جابجا ایسی مثالیں موجود ہیں۔
مجموعی طور پر مشرقی لندن کے اس صاف ستھرے اور پُرسکون قبرستان میں کچھ وقت گزارنا منفرد تجربہ رہا۔ خوبصورت سرسبز درختوں سے ٹکرا کر آتی نرم دھوپ اور یہاں موجود کیاریوں میں ترتیب سے لگے خوشنما پھول، قطعاً یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ آپ قبرستان میں چہل قدمی کررہے ہیں اور ایسے سحر انگیز ماحول میں ہم سوچ رہے تھے کہ اگر ہر قبرستان اتنا منظم اور اچھے انداز میں سنبھلا ہوا ہو تو واقعی 'سکون صرف قبر میں ہے'۔
لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (10) بند ہیں