اپنی جیل، اپنے سیاح
دنیا سے اگر اپنائیت ختم ہو جاۓ تو سب کچھ ختم ہوجاۓ گا اسی اپنائیت کا مظاہرہ ہم نے پچھلے دنوں ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں دیکھا.
آخر طالبان بھی تو ہماری طرح انسان ہیں، وہ بھی تو ایک طرح کا کام کرتے کرتے اکتا جاتے ہوں گے، انہیں بھی تو ہماری طرح تفریح کی ضرورت ہوتی ہوگی، تو پھر ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل سے بہتر پکنک کیلئے کونسی جگہ ہو سکتی ہے.
تین چار سو بندے بڑے آرام سے اپنی پناہ گاہوں سے مختلف قسم کی گاڑیوں میں سوار ہوتے ہیں، رمضان کے دن ہیں لہٰذا بریانی، کولڈ ڈرنک اور آم وغیرہ ساتھ لے جانے سے اجتناب برتا جاتا ہے اور پھر تواضع کا وعدہ تو میزبانوں نے کیا ہوا ہے.
موسم بڑا سہانا ہے، بادل چھاۓ ہوئے ہیں، وزیرستان سے ڈیرہ تک کا راستہ نہایت سکون سے گزرتا ہے. راستے بھر پولیس اور لیویزکی چیک پوسٹوں پر جانثاروں کو احترام کے سا تھ سلامی پیش کی جاتی ہے
جنجگجو روزہ راستے میں ہی افطار کرتے ہیں اور اندھیرا ہونے تک جیل پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. جیل کے قریب پہنچ کر جنگجو اپنی آمد کا اعلان فائرنگ کرکے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جیل کی سیکورٹی کے لئے مقرر ایلیٹ فورس کے جوان بہادر جنگجؤںکا احترام کرتے ہوئے جیل کی اطراف میں واقع نالوں جا کر چھپ جاتے ہیں تاکہ رنگ میں بھنگ نہ پڑے
جیل کے دروازوں موجود پولیس والے جنگجووں کا استقبال انہیں شربت کو پلا کر کرتے ہیں. اتنی دیر میں جیل کے اندر قید دہشت گردوں کو بھی اپنے بھائیوں کی آمد کی اطلاع ہو جاتی ہے. بچھڑے ہوۓ دوستوں کی ملاقات پولیس وا لوں کو بھی جذباتی کر دیتی ہے اور وہ اس رقت آمیز منظر کو دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں.
خوشی کا یہ موقع قبائلیوں کے روایتی انداز سے منایا جاتا ہے، مہمانوں اور میزبانوں دونوں کی طرف سے زبردست ہوائی فائرنگ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس موقے پر چند حضرات دو چار درجن دستی بموں کے دھماکے بھی کر دیتے ہیں.
اس موقع پر صاحبان ایمان جیل میں موجود کافرانہ خیالات رکھنے والے قیدیوں کی گردنیں اتارنا نہیں بھولتے. جیل کے اندر ہی کیمپ فائر لگایا جاتا ہے جہاں مسلم بکرے بھون کر کھاۓ جاتے ہیں جس کے ساتھ ساتھ قیدی بھائیوں کو طالبان کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے
اب رخصت کا مرحلہ آتا ہے جتنے لوگ وزیرستان سےآئے تھے ان سے دو گنا کو واپس جانا ہے لیکن سارے نتظامات پہلے سے کئے جا چکے ہیں گاڑیوں کی کوئی کمی نہیں ہے پولیس والے جیل میں موجود گاڑیوں کی بھی آفر کرتے ہیں لیکن جنگجووں کے پاس ان خچر گاڑیوں کے مقابلے میں جدید اور آرامدہ گاڑیاں موجود ہیں
واپسی کا سفر بھی پرامن اور پرسکون رہتا ہے کیونکہ راستے میں کوئی جنگ جاری نہیں ہے. علاقےمیں ایک عرصے سے امن و چین ہے لہٰذا کوئی فوجی ٹینک انکا راستہ نہیں روکتا، کوئی ڈرون ان پر حملہ نہیں کرتا اور وہ اطمینان کے ساتھ وزیرستان واپس پہنچ جاتے ہیں
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے
تبصرے (4) بند ہیں