• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا میڈیا کو ’صنعت‘ کا درجہ دینے پر زور

شائع August 27, 2020
آرڈیننس میں ترمیم کے بعد پیمرا میڈیا اداروں اور ملازمین کےدرمیان معاہدے کے نفاذ کا ذمہ دار ہوگا—فائل فوٹو: رائٹرز
آرڈیننس میں ترمیم کے بعد پیمرا میڈیا اداروں اور ملازمین کےدرمیان معاہدے کے نفاذ کا ذمہ دار ہوگا—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے حکومت پر زور دیا ہے کہ میڈیا کو ’صنعت‘ کا درجہ دیا جائے تا کہ صحافی اور دیگر میڈیا کارکنان اپنے کام کے معیار کو بہتر بنا سکیں۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید خان نے وزارت اطلاعات سے آئندہ اجلاس میں اس معاملے پر بریفنگ دینے کا کہا۔

کمیٹی نے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی کا پیش کردہ پریس کونسل آف پاکستان بل 2020 متفقہ طور پر منظور کرلیا جس میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کا چیئرمین پریس کونسل کے عہدے پر تقرر کی مخالفت کی گئی تھی۔

نئے قانون کے تحت صرف میڈیا سے تعلق رکھنے والا شخص یا قانون سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا شخص جو وکیل یا کسی عدالت کا ریٹائرڈ یا کوئی ماہر سماجیات ہو پریس کونسل کا چیئرمین بننے کا اہل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا کا 'نیو ٹی وی' کو 10 لاکھ روپے جرمانہ، لائسنس کے مطابق مواد نشر کرنے کا حکم

پریس کونسل کے چیئرمین کی عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 60 سال اور کمیٹی نے تجویز دی کہ کونسل کے اراکین کے طور پر 2 سینیٹرز کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

کمیٹی نے پیمرا آرڈیننس میں ترامیم منظور کرلیں جس سے اتھارٹی صحافیوں اور دیگر میڈیا کارکنان اور میڈیا اداروں کے درمیان ہونے والے ملازمت کے معاہدے پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ دار ہوگی۔

پیمرا قانون کے تحت اتھارٹی میڈیا اداروں اور اس کے ملازمین کے مابین فرائض اور مراعات کی تحریری تفصیلات یقینی بنائے گی۔

پیمرا آرڈیننس کی دفعہ 30 میں ترمیم کر کے ریگولیٹر کو ایسے ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا جہاں ملازمین کے پاس ملازمت کا معاہدہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے قانون کی 'خلاف ورزی' پر چینل '24 نیوز' کا لائسنس معطل کردیا

تاہم سینیٹر پرویز رشید نے پیمرا کو آجر اور ملازمین کے تعلقات استوار کرنے کے اختیارات دینے کے خلاف خبردار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ملازمین کے تمام حقوق پیمرا کے ذریعے محفوظ بنائے جائیں گے تو مزید مسائل پیدا ہوں ملازمین کی حفاظت کے دیگر قوانین بھی ہیں‘۔

کمیٹی چیئرمین نے خبروں کے علاوہ ٹی وی چینل کے مواد کے بارے میں کہا کہ نجی ٹی وی چینلز پر ڈراموں کا معیار غیر معیاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت تھا کہ جب پاکستانی ڈراموں کو پوری دنیا میں سراہا جاتا تھا لیکن اب اس شعبے کو پڑوسی ملک کا کلچر شامل کر کے برباد کردیا گیا ہے‘۔

سینیٹر شبلی شاہ نے کہا کہ ’اس قسم کے ڈرامے ہماری خاندانی روایات کو تباہ کررہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ، اعظم خان سے متعلق خبر پر پیمرا کا دو نجی ٹی وی چینلز کو نوٹس

کمیٹی کے تمام اراکین نے پیمرا کو موجودہ ڈراموں اور ان کے ’غیر اخلاقی مواد‘ پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت کی۔

پیمرا کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کے پاس نجی ٹی وی چینلز کے ڈراموں کو مانیٹر کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کا کوئی نظام نہیں ہے۔

کمیٹی چیئرمین نے حکم دیا کہ کمیٹی پیمرا کو ٹی وی ڈراموں میں کسی نامناسب مواد کو مانیٹر کرنے اور اسے ریگولیٹ کرنے کا اختیار دینے میں مدد دے گی اور عہدیداروں سے کہا کہ اس سلسلے میں کمیٹی کو سمری ارسال کریں۔


یہ خبر 27 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024