• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

صحافیوں، وکلا، انسانی حقوق کے گروہوں کی صحافی کو دھمکیاں ملنے کی مذمت

شائع September 1, 2020
صحافی احمد نورانی—فائل فوٹو: ٹوئٹر
صحافی احمد نورانی—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد: پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے ایک مشترکہ بیان میں سینئر صحافی احمد نورانی کو سابق فوجی افسر اور وزیراعظم کے معاون کے قریبی عزیزوں کے کاروبار سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہونے پر 'سخت مذمت' کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی بی سی کے نائب چیئرمین عابد ساقی، ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن اور سیکریٹری جنرل حارث خلیق، پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکریٹری ناصر زیدی نے بیان میں صحافی کے خلاف 'ایک منظم مہم' اور انہیں ریاست مخالف اور دشمن کا ایجنٹ قرار دینے کی 'مذمت' کی۔

بیان میں کہا گیا کہ اگر کسی کو احمد نورانی کی اسٹوری کے خلاف شکایت ہے تو اسے عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے، ساتھ ہی 'بار، پریس اور سول سوسائٹی کی قیادت نے حکومت پر زور دیا کہ وہ احمد نورانی کو تحفظ فراہم کرے اور صحافی کو دھمکیاں دینے کے پیچھے موجود عناصر کی تحقیقات کرے'۔

مزید پڑھیں: وزیر خارجہ کا 'میڈیا رپورٹ' کی صداقت پر خدشات کا اظہار

انہوں نے حکومت کو یاد دہانی کروائی کہ احمد نورانی پر کچھ سال قبل بدترین حملہ کیا گیا تھا جس کے ملزمان آزاد ہوگئے۔

احمد نورانی کی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے بیان میں انسانی حقوق کی تمام تنظیموں اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ طاقت کے ذریعے آواز کو دبایا جارہا ہے یہاں تک کہ صحافیوں کو اغوا کیا جارہا، اس صورتحال کا نوٹس لیں۔

بیان کے آخر میں کہا گیا کہ 'مارشل لا کے دور کے مقابلے میں اس حکومت میں آزادی اظہار رائے کو زیادہ خطرہ ہے، ہم آزادی اظہار رائے کے لیے کھڑے ہیں اور اس کو روکنے کی ہر کوشش کی مزاحمت کریں گے'۔

وزیراعظم کے معاون اور اہل خانہ کے اثاثے

دوسری جانب ایک علیحدہ بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل اور سابق سینیٹر فرحت اللہ نے ایک ویب سائٹ پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور ان کے اہل خانہ کے قریبی لوگوں کی مبینہ آف شور کمپنیوں اور کاروبار سے متعلق شائع ہونے والی تحقیقاتی نیوز رپورٹ پر جامع تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کس طرح عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے افراد کے مبینہ کاروبار ان کے عہدے کے مدارج کے (حساب) سے بڑھتے چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 'رپورٹ میں سرکاری دستاویزات سے بظاہر اس پر اعتبار ظاہر ہوتا ہے'، مزید یہ کہ اس نے معاون خصوصی کی جانب سے گزشتہ ماہ جمع کروائے گئے بیان حلفی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

نیب کی خاموشی

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) جو ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ افراد کے چہروں کے بجائے کیس کی نوعیت کو دیکھتا ہے وہ اس معاملے پر مکمل خاموش ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'آنکھیں بند کرنے لیے بہت زیادہ داؤ پر لگا ہوا ہے'۔

رہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ 'ساکھ کی بحالی مطالبہ کر رہی ہے کہ اس رپورٹ کا شفاف، مؤثر اور قائل انداز میں جواب دیا جائے'، (کیونکہ) 'خاموش رہنا یا آنکھیں بند کرلینا کوئی آپشن نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'امتیازی سلوک، قانون کا منتخب اطلاق، دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مساویانہ حیثیت نے ریاست اور معاشرے کے تانے بانے کمزور کردیے ہیں جسے اب ختم ہونا چاہیے'۔

خیال رہے کہ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد سابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ جو اس وقت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین بھی ہیں انہوں نے ٹوئٹر پر ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شبلی فراز، عاصم باجوہ پر حکومت اور میڈیا کے تعلقات بہتر بنانے پر زور

انہوں نے کہا تھا کہ 'میرے اور میرے خاندان کے خلاف ایک نامعلوم ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک بدنیتی پر مبنی پروپیگینڈا اسٹوری کو میں سختی سے مسترد کرتا ہوں'۔

علاوہ ازیں گزشتہ دنوں اپنے آبائی علاقے ملتان میں صحافیوں سے گفتگو میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ عاصم باجوہ اور ان کے خاندان کی مبینہ آف شور کمپنیوں اور کاروبار سے متعلق نیوز رپورٹ کی صداقت جلد ہی واضح ہوجائے گی۔

مزید برآں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز نے بذریعہ ٹوئٹ کہا تھا تھا کہ عاصم باجوہ آئندہ چند روز میں اپنے اثاثوں سے متعلق خبر پر بات کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024