• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وفاق کا 'ریلیف فنڈز' کی فراہمی میں سندھ پر عدم اعتماد

شائع September 9, 2020
—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے سیلاب اور بارش سے متاثرہ علاقوں کے متاثرین کے لیے براہ راست سندھ حکومت کو رقوم جاری کرنے کے بجائے خود تقسیم کرنے کا فیصلے کیا ہے جس کے بعد وفاق اور سندھ کے مابین کشیدگی مزید شدت اختیار کرسکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے دوران مذکورہ فیصلہ کیا گیا۔

وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 'ہم سندھ کو سیلاب زدگان کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں دے سکتے'۔

مزید پڑھیں: کراچی پیکج میں شامل منصوبے پہلے ہی 'پی ایس ڈی پی' کا حصہ ہیں، احسن اقبال

خیال رہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتے کراچی کا دورہ کیا تھا اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی موجودگی میں کراچی کے 11 سو 13 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔

بعدازاں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بیان دیا تھا کہ حکومت سندھ کراچی پیکج میں 800 ارب روپے فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے 300 ارب روپے کے فنڈز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

تاہم اتوار کے روز پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے سمندری امور کے وزیر علی زیدی اور ان کی پارٹی کے اتحادی ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کام امین الحق کے ساتھ گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس کی تھی جہاں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

اسد عمر نے کہا تھا کہ کراچی پیکج کے فوراً بعد مختلف لوگوں سے پیغامات موصول ہونے لگے کہ پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا کہ سندھ حکومت پیکج میں بڑا حصہ برداشت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کیلئے 1113 ارب روپے کا پیکج: 62 فیصد وفاق اور 38 فیصد حصہ صوبے کا ہوگا، اسد عمر

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک اجلاس میں دونوں حکومتوں (وفاقی اور صوبائی) کا حصہ ظاہر نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ضروری ہے کہ ریکارڈ درست کرلیا جائے اور یہ دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی ٹرانسفورمیشن پلان (کے ٹی پی) کے لیے وزیر اعظم کے اعلان کردہ 11 سو ارب روپے کی کل رقم میں سے 62 فیصد برداشت کرے گی جبکہ حکومت سندھ باقی فیصد 38 فیصد خرچ کرے گی۔

سینیٹر شبلی فراز نے کابینہ کے اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ 'پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ 10 فیصد سے زیادہ کا حساب نہیں لگاسکتی'۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں سیلاب زدگان کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز کراچی پیکج سے الگ ہوں گے'۔

دوسری جانب حکومت سندھ کے ترجمان مرتضی وہاب نے وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا کہ کے ٹی پی کے نام پر مونگ پھلی دی گئی ہے۔

مزیدپڑھیں: 'کراچی کے لیے 11 سو ارب کا تاریخی پیکج لے کر آئے ہیں'

ایک بیان میں مرتضی وہاب نے دعوی کیا کہ کے ٹی پی کے لیے مختص 11 سو ارب روپے میں سے مرکز صرف 362 ارب روپے مہیا کرے گا جبکہ باقی رقم سندھ حکومت خرچ کرے گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے میٹروپولیس کو 'جعلی' ترقیاتی پیکیج دے دیا۔

انہوں نے ایک پریس گفتگو کے دوران کہا کہ 'حقیقت میں وفاقی حکومت نے کراچی کے لوگوں کو ایک لولی پاپ دے دی ہے'۔

مرتضیٰ وہاب کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما کراچی پیکیج کے بارے میں 'دو ٹوک الفاظ میں' جھوٹ بول رہے ہیں۔

اس سے قبل وزیر اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی ملک کی معیشت کے لیے 'ایک انجن' کا کردار ادا کرتا ہے اور اسی وجہ سے وفاقی حکومت کراچی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے گی۔

شبلی فراز نے بتایا تھا کہ کابینہ نے مالی نقصان پہنچانے والے 2 ہزار 800 میگا واٹ کے سرکاری بجلی گھروں کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان

پریس کانفرنس کے دوران وزیر اطلاعات نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں ایک ہزار 479 میگا واٹ کے بجلی گھر بند تھے جبکہ ایک ہزار 460 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر رواں ماہ کے آخر تک بند کردیے جائیں گے۔

اجلاس میں قانون سازی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے دائرہ کار میں توسیع کی منظوری بھی دی گئی۔

اجلاس میں ایک اور اہم فیصلہ لیا گیا جس میں کراچی پورٹ پر مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے دو اضافی ٹرمینلز لگانے کی تجویز کو منظور کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024