• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

نئی امریکی حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟

شائع November 10, 2020
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

پاک-امریکا تعلقات کے لیے جو بائیڈن کا دورِ صدارت کیسا رہے گا، اس کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ ان میں کچھ عوامل معلوم ہیں اور کچھ نامعلوم۔

نامعلوم عوامل میں سب سے اہم ٹرمپ کی تباہ شدہ خارجہ پالیسی میں سے ابھرنے والی نئی خارجہ پالیسی ہوگی۔ پاکستان کو سب سے زیادہ خدشات چین سے متعلق امریکا کی پالیسی پر ہوں گے۔

چین سے متعلق پالیسی کے ممکنات جاننے کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں قدیم یونان کے کسی تاریخ دان کہ اس نظریہ کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے کہ جب ایک نئی طاقت سر اٹھاتی ہے تو پہلی طاقت اس پر حملہ کردیتی ہے۔ تاریخ کی تمثیل عموماً نصف سچائی پر مبنی ہوتی ہیں اور ہم اکثر دوسرے نصف کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور چین کے تعلقات بہت زیادہ پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سیاسی و جغرافیائی حریف ہیں اور چین اب امریکا کی مقامی سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔

امریکا میں چین کو اس کی ٹیکنالوجیکل برتری کے لیے خطرہ اور نوکری پیشہ طبقے کی نوکریاں ختم کرنے کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی ان دونوں ممالک کی معیشت ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے اور عالمی معاملات کے حل کے لیے ان دونوں ممالک کی شراکت اہم ہوتی ہے۔

یہاں جغرافیائی سیاست، سیاست اور معاشی قوم پرستی کا مقابلہ جغرافیائی معیشت اور عالمی برتری سے تھا۔ ٹرمپ نے چین کو صرف ایک سیاسی مخالف کے طور پر ہی پیش کرنا مناسب سمجھا لیکن اس نظریے کو اب تبدیل ہونا چاہیے۔ جو لوگ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ امریکا ہمیں یعنی پاکستان کو اس کے یا چین کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہے گا تو ایسے افراد کو اس حوالے سے مزید گہرائی سے سوچنا چاہیے۔

جو بائیڈن چین کو ایک دشمن کے بجائے مدِمقابل کے طور پر دیکھیں گے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے دوبدو لڑنے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے گا۔ حال ہی میں امریکی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ چین کو ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھتے۔ لیکن روس کے حوالے سے بائیڈن ایک سخت پالیسی اختیار کریں گے۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے روایتی خیالات رکھنے والے جو بائیڈن روس اور چین سے کشیدہ تعلقات نہیں رکھ سکتے۔ کورونا کے بعد کی مخدوش معاشی حالات کی وجہ سے انہیں چین کے ساتھ اچھی معاشی شراکت داری کی ضرورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ کہ اس وقت عالمی نمو میں چین ایک اہم ملک ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی رہے گا۔ جو بائیڈن کی توجہ کا مرکز داخلی صورتحال ہوگی اور اسی سے ان کی خارجہ پالیسی کی راہ متعین ہوگی۔

پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ امریکا یا چین میں سے کسی ایک کا تعین کرے، اسے چین کے مزید قریب ہی کرے گا۔ امریکا نے اپنے قریب ترین اتحادیوں کو بھی کبھی ایسے انتخاب سے دوچار نہیں کیا۔ امریکا اور چین دونوں ہی مشرق وسطیٰ اور ایشیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں یہ دونوں ممالک آمنے سامنے آتے ہیں۔

پاکستان مکمل طور پر چین پر منحصر نہیں رہ سکتا، اور حقیقت یہ ہے امریکا اور بھارت کے تعلقات کسی بھی طور پر نہ ہی پاک-امریکا تعلقات کی وضاحت کرتے ہیں اور نہ ہی خطے میں امریکا کو درپیش چیلنجز کی۔ شاید امریکا پاکستان کو چین کا ایک کمزور اتحادی دیکھنا چاہتا ہو لیکن ساتھ وہ پاکستان کو اتنا مضبوط بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ امریکی مفادات کے لیے معاون ثابت ہو۔

یہاں پاک-امریکا تعلقات کی تاریخ کا ایک حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ تاریخی طور پر ان تعلقات کا 2 میں سے کوئی ایک نتیجہ نکلا ہے۔ یا تو کسی معاملے پر اتفاق ہونے پر امریکا نے پاکستان کو کوئی انعام دیا ہے یا کسی معاملے پر اتفاق نہ کرنے پر اسے سزا دی ہے، اور یہ سب تب ہوا ہے جب پاکستان سے اس کے ذمہ کا کام لے لیا گیا ہو۔ لیکن 9/11 کے بعد ان تعلقات میں موجود خامیاں واضح ہوتی گئیں۔

مسائل کی کثرت، طویل عرصے تک مل کر کام کرنے اور اس حقیقت کی وجہ سے کہ اتفاق اور عدم اتفاق سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے، نہ ہی انعامات کو مؤخر کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی سزا کو۔ یہ تعلقات ایک ہی وقت میں شراکت اور تضاد کا شکار تھے۔ کیونکہ پاکستان امریکی مفادات کا سہولت کار بھی تھا اور ان میں رخنہ انداز بھی، اور پھر افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا ملبا بھی پاکستان پر ڈالا جاتا تھا۔

لیکن اب نہ ہی وہ تاریک وقت واپس آئے گا اور نہ ہی تعلقات کا وہ پرانا ماڈل دہرایا جائے گا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا، بھارت میں جاری داخلی معاملات، بھارت کی چین کے ساتھ جھڑپیں، پاکستان کے ساتھ اس کے جارحانہ رویے اور دیگر عالمی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب نئی حقیقتیں وجود میں آچکی ہیں۔

یقینی طور پر امریکا کو افغانستان کے معاملے میں پاکستان کی مدد کی ضرورت رہے گی۔ امریکا کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی تشویش لاحق ہے اور وہ چاہے گا کہ پاکستان شدت پسندوں کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھائے۔

وہ مسئلہ کشمیر میں بھی دلچسپی رکھتا ہے مگر اس کے حل کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ امریکا کو اس مسئلے سے تو کوئی سروکار نہیں ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والے بحران کے بارے میں ضرور تشویش رہتی ہے۔ بائیڈن انسانی حقوق کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرسکتے ہیں۔

جو بائیڈن کیری لوگر بِل کے اصل خالق تھے۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مذکورہ معاملات پر کام کرنے کے لیے شراکت داری کا ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا ہوگا جس میں دونوں ممالک کے مفادات کا تحفظ ہو تاکہ طویل مدتی تعلقات قائم رہ سکیں۔

امداد کے ذریعے تعلقات بنانے کا دور اب چلا گیا ہے۔ تاہم پاکستان کی معیشت کو دیکھتے ہوئے معاشی شراکت داری کا امکان موجود ہے۔ دو طرفہ تعلقات کے مستقبل کا جتنا انحصار پاکستان پر ہے اتنا ہی امریکا پر بھی ہے۔


یہ مضمون 10 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

توقیر حسین

لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024