18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر
عام طور پر فلموں میں ایسی کہانیوں کو دکھایا جاتا ہے جو حقیقی دنیا سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتیں۔
مگر اکثر حقیقی دنیا میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو فلمی کہانیوں سے بھی زیادہ عجیب ہوتے ہیں اور ان سے متاثر ہوکر فلم بنائی جاتی ہے۔
جیسے یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ایران سے تعلق رکھنے والے ایک شخص مہران کریمی نصیری ایسے فرد ہیں جو 1988 سے 2006 تک فرانس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ کے ٹرمینل ون میں پھنسے رہے، جو وہاں ایک سرخ پلاسٹک بینچ پر بیٹھے رہتے تھے۔
ان کو انقلاب ایران کے دوران ملک بدر کردیا گیا تھا۔
ایسا اس وقت ہوا جب 1988 کو سفر کے دوران ان کے سفری کاغذات گم ہوگئے کیونکہ بریف کیس مبینہ طور پر چوری ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں : ہر دور کی بہترین فلموں سے ایک اس فلم کو آپ نے دیکھا ہے؟
اس وقت وہ لندن جانے والی پرواز میں سوار ہوگئے تھے مگر برٹش امیگریشن حکام کو پاسپورٹ نہ دینے پر انہیں واپس فرانس بھیجا گیا اور گرفتار کیا گیا، مگر پھر رہا کرکے ایئرپورٹ میں داخلہ قانونی قرار دے دیا گیا۔
چونکہ وہ کسی ملک واپس نہیں جاسکتے تھے تو ایئرپورٹ کے ٹرمینل ون میں رہنا شروع کردیا اور 18 سال تک وہاں مقیم رہے اور جولائی 2006 میں بیمار ہونے پر وہاں سے باہر نکلے۔
بعد میں ہوٹل کے قریب رہے جبکہ 2007 میں ایک مرکز منتقل کیا گیا اور 2008 سے پیرس کے ایک شیلٹر میں مقیم ہے۔
ائیرپورٹ میں اتنے برسوں تک قیام کے دوران انہیں سر الفریڈ کا نک نیم بھی دیا گیا اور ذہنی طور پر اتنے کمزور ہوگئے کہ حقیقی دنیا سے رابطے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
1999 میں انہیں پناہ گزی کے کاغذات دیئے جارہے تھے مگر اننہوں نے دستخط سے انکار کردیئے کیونکہ وہ دستاویزات میں اپنا نام سر الفریڈ لکھوانا چاہتے تھے۔
اتنے عرصے تک وہاں رہنے کے دوران انہوں نے کبھی کھلا آسمان نہیں دیکھا اور تازہ ہوا میں سانس نہیں لی۔
اسی حیران کن واقعے سے متاثر ہوکر لیجنڈ ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ کی فلم 'دی ٹرمینل' کو تیار کیا گیا۔
اس فلم میں مرکزی کردار ٹام ہینکس نے ادا کیا تھا اور یہ انتہائی دلچسپ فلم ہے جو برسوں تک ایئرپورٹ میں پھنسے رہنے والے ایسے شخص کی کہانی بیان کرتا ہے جو تمام تر رکاوٹوں پر قابو پاکر فتح پانے میں کامیاب ہوئے۔
2004 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو اب بھی دیکھا جائے تو دیکھنے والے مسحور ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہ سبق ملتا ہے کہ مشکلات میں ہار نہ ماننے والے لوگ ہی زندگی میں آگے بڑھ پاتے ہیں۔
پلاٹ
اس فلم میں مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے وکٹر ناورسکی (ٹام ہینکس) اس وقت نیویارک ایئرپورٹ میں رہائش پر مجبور ہوجاتا ہے جب اس کے آبائی وطن میں ایک بغاوت ہوجاتی ہے اور اس ملک کے جاری ایئرپورٹس امریکا میں معطل ہوجاتے ہیں۔
اس کا ایئرپورٹ اور ہوائی ٹکٹ چھین لیا جاتا ہے اور کوئی چارہ نہ ہونے پر وکٹر کو نیویارک کے جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹرمینل میں رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے جبکہ کوئی سامان بھی نہیں ہوتا۔
وہاں کا عارضی کسٹم ڈائریکٹر فرینک ڈکسن وکٹر کو ایئرپورٹ سے نکالنا چاہتا ہے مگر بتدریج اس کے خیالات بدل جاتے ہیں اور ٹرانزٹ لاؤنج میں وکٹر کو آزاد شخص کی حیثیت مل جاتی ہے۔
موقع ملنے پر بھی وہ ایئرپورٹ سے باہر نہیں جاتا اور تمام معمولات وہی پورے کرتا اور مسلسل وہاں رہنے سے لوگوں سے دوستی بھی ہوجاتی ہے جبکہ انگلش بھی بہتر ہوجاتی ہے۔
اس دوران وہ روزانہ پاسپورٹ کاؤنٹر پر جاکر فارم بھی بھرتا مگر اسے ہر بار مسترد کردیا جاتا، چونکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ چھوٹے چھوٹے کام کرکے کھانے کو خریدتا۔
وہاں اسے ایک ایئرہوسٹس بھی محبت ہوجاتی ہے جسے وہ متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے وہ پہلے حقیقت چھپاتا ہے مگر بعد میں سچ بتا دیتا ہے کہ وہ امریکا اپنے باپ کی خواہش پوری کرنے آیا تھا جو ایک تصویر میں ایک بینڈ کے تمام افراد کے آٹوگرافس لینا چاہتا تھا۔
ایسے ہی شب و روز گزرنے لگتے ہیں جس دوران اس کے متعدد بہترین دوست بن جاتے ہیں اور وہ کب اور کیسے وہاں سے نکل کر گھر جاپاتا ہے، وہ اس فلم کو دیکھ کر ہی جان سکتے ہیں۔
دلچسپ حقائق
اس فلم سے جڑے چند اور دلچسپ حقائق درج ذیل ہیں :
اسٹیون اسپیلبرگ نے اس سے قبل 2002 میں کیچ می اف یو کین کو ڈائریکٹ کرچکے تھے اور وہ ایک اور ایسی فلم بھی کام کرنا چاہتے تھے جو لوگوں کو ہنسنے اور رونے پر مجبور کرنے کے ساتھ دنیا میں اچھائی کا احساس دلائے۔
یہ بھی پڑھیں : وہ فلم جس کا جادو 26 سال بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے
فلم کی عکسبندی کے لیے ایئرپورٹس کی جانب سے سہولیات کی فراہمی سے انکار پر ایک سیٹ تیار کیا گیا، جس سے پہلے ایل اے ریجنل ایئرپورٹ میں لگایا گیا، مگر وہاں لوگوں کے رش کے باعثچ اسے مانٹریال کے ہوائی اڈے میں منتقل کیا گیا۔
فلم کے سیٹ میں ہر چیز کو حقیقی ایئرپورٹ جیسا رکھا گیا، ویسے ہی کھانے پینے کے مرکاز قائم کیے گئے، ایکسیلیٹرز کو ایک دیوالیہ ہونے والے ڈیپارٹمنٹ اسٹور سے خریدا گیا، جبکہ فلم میں کمپنیوں کے آؤٹ لیٹس حقیقی کمپنی کے اسپانسر مرکز تھے۔
فلم میں وکٹر کا ملک دنیا میں موجود نہیں بلکہ اسے فلم کے لیے تخلیق کیا گیا۔
فلم کی کہانی کے لیے حقوق حاصل کرنے کے لیے ڈریم ورکس اسٹوڈیو نے مہران کریمی نصیری کو 3 لاکھ ڈالرز ادا کیے تھے جو انہوں نے ایئرپورٹ پوسٹ آفس اکاؤنٹ میں جمع کرادیئے اور خرچ بھی نہیں کیے۔
تبصرے (1) بند ہیں