• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

ٹی ایل پی سے 'غیر معقول' معاہدہ کرنے پر اپوزیشن کی حکومت پر تنقید

شائع April 17, 2021
حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے — فائل فوٹو:اے پی پی
حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے — فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں حکومت پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ گزشتہ سال گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے اور تجارت کو ختم کرنے کے معاہدے کو 'غیر معقول' قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے بلکہ ٹی ایل پی کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ سفیر کو ہٹانے سے متعلق اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ 'حکومت، فرانسیسی سفیر کو 3 ماہ کے اندر ملک بدر کرنے سے متعلق پارلیمنٹ سے رجوع کرے گی، فرانس میں اپنا سفیر مقرر نہیں کرے گی اور ٹی ایل پی کے تمام گرفتار کارکنان کو رہا کرے گی، حکومت دھرنا ختم کرنے کے بعد بھی ٹی ایل پی رہنماؤں یا کارکنوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کرے گی'۔

مزید پڑھیں: 'ٹی ایل پی کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کریں گے'

ستمبر 2020 میں فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو نے پیغمبر اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کو دوبارہ شائع کیا تھا جس کے بعد پوری دنیا میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔

ٹی ایل پی ان جماعتوں اور تنظیموں میں شامل ہے جو اس مسئلے پر پاکستان میں مظاہرے کرتی ہیں۔

قومی اسمبلی میں بحث کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نوید قمر نے سوال کیا کہ 'جب حکومت کو معلوم تھا کہ وہ فرانس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات منقطع نہیں کر سکتی تو پھر ٹی ایل پی کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کیوں کیا'۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، ٹی ایل پی کو تحلیل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے لیکن اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ہے، 'کوئی بھی بات پارلیمنٹ کو نہیں بتائی جارہی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی رہنماؤں کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے کا امکان

نوید قمر نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں چند تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے ان کی اصل روح کے مطابق نافذ کیے گئے تھے، وزیر داخلہ نے کالعدم تنظیموں کی تفصیلات اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی، اگر کوئی ہے تو اس سے متعلق ایوان کو آگاہ کرے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سید عمران احمد شاہ نے کہا کہ حکومت، فرانس کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات منقطع کرے اور اس کے سفیر کو واپس بھیج دیا جائے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ 'فرانس کا واجب الادا قرض زیادہ سے زیادہ 17 ارب روپے سے لے کر 18 ارب روپے ہوسکتا ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ کے چاہنے والے اپنی جیب سے ادا کر سکتے ہیں'۔

سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے سوال کیا کہ اسمبلی کی کارروائی اوسطاً دو گھنٹے کیوں چلتی ہے جب ایوان کو آسانی سے چار گھنٹے بیٹھنے کو کہا جاسکتا ہے۔

نوید قمر نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے اسپیکر اسد قیصر سے کہا کہ وہ اجلاسوں کے اوقات کے بارے میں پارلیمنٹ میں تمام فریقین سے مشاورت کریں۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا احتجاج تیسرے روز بھی جاری

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن صلاح الدین ایوبی کی رائے تھی کہ ان کی جماعت پر بھی ٹی ایل پی کی طرح پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔

بحث کے دوران اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ ٹی ایل پی کے قیام اور اس کے پیچھے مقاصد اور اس اقدام کے پیچھے کون تھے، کے بارے میں جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے ریاض پیرزادہ نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو بتایا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان اور سپاہ صحابہ پاکستان جیسی کالعدم تنظیموں کو کس نے تشکیل دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا 'پہلے ایک جینی پیدا کیا جاتا ہے جو بعد میں اپنے تخلیق کاروں کے لیے درد سر بن جاتا ہے'۔

اس پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ حکومت نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے کہ فرانسیسی سفیر کو ہٹایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے ابھی ٹی ایل پی کو صرف یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی'۔

وزیر نے مزید کہا کہ حکومت سے بات چیت کے دوران ٹی ایل پی نے اصرار کیا تھا کہ حکومت ان کی (ٹی ایل پی) کی پسند کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کرے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024