ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: دیسی مسافر اور گوری ایئر ہوسٹس
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ہمارے عوام کا ایک تسلیم شدہ عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی بات گورا کہے تو اس پر فوراً یقین کرلیتے ہیں لیکن وہی بات اگر کوئی دیسی عالم یا سائنسدان کہے تو اسے فوراً کسوٹی پر رکھ لیتے ہیں۔
ایسا مجھے لگتا ہے، ضروری نہیں کہ یہ بات صحیح ہو۔ اکثر لوگ گورے کی بات سے اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یہاں گورے سے مراد خالصتاً برطانوی انگریز نہیں بلکہ کوئی بھی گوری چمڑی والا ہے۔ پھر اگر بات بتانے والی گوری ہو تو زیادہ توجہ سے بات سنی جاتی ہے۔
عام اعلانات کی بات کرلیتے ہیں یعنی کہ 'جنرل اناونسمنٹس'۔ پھر کہوں گا یہ میرا تجزیہ اور تجربہ ہے کہ ہمارے یہاں جب کوئی اعلان خاتون کررہی ہو تو خواتین تو سنتی ہی ہیں لیکن مرد حضرات کو یک دم زیادہ سنائی دینے لگتا ہے اور اس بات کا 'اطلاق' اس حد تک ہوتا ہے کہ اگر وہ اعلان کرنے والی دوشیزہ کو دیکھ لیں تو اطلاق کا 'الف' نکالنے پر بصد حسرت و یاس غور فرمانا شروع کردیتے ہیں۔
جہاز کے اندر آجائیں۔ زیادہ تر عام اور حفاظتی اعلانات کرنا خواتین کے ہی حصے میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ خودکار اعلانات کی فلم میں بھی آواز خاتون کی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ مرد حضرات کو اس کی تربیت نہیں دی جاتی بلکہ بات یہ ہے کہ خواتین کو اس ضمن میں فوقیت دی جاتی ہے۔ اعلانات میں روانی کے لیے باقاعدہ اہلِ زبان استاد مقرر کیے جاتے ہیں، عملے کا تلفظ ٹھیک کیا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے لوگوں کی اردو میں ظاہری طور پر علاقائی زبانوں کا اثر ہوتا ہے۔ وہ اور بات ہے کہ کسی کی کھڑکی 'کرکی' رہتی ہے اور کسی کا گھنٹہ 'گھینٹہ' ہی رہتا ہے۔
تلفظ ٹھیک کرنے سے یاد آیا، دورانِ پرواز ایک ساتھی خاتون نے پوچھا، 'مسٹر خاور! آپ کی کوسٹ کیا ہے؟' سوال سن کر مجھے ایک خیال آیا اور میرے سارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ لیکن سچی بات ہے سوال سے میں گڑبڑا گیا تھا۔ سوچا کیا قیمت بتاؤں۔ بہت سے فلمی ڈائیلاگ ذہن میں گھومنے پھرنے لگے۔ سنا تو یہی تھا کہ ہر آدمی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ویسے سوال کرنے والی شخصیت ایسی تھی کہ اپنی قیمت لگائی جاسکتی تھی۔ بِک جاؤں یا نہیں؟
اسی کشمکش میں حفظ ماتقدم کے طور پر ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے پوچھا کہ اس سوال کا کیا مطلب؟ وہ کہنے لگیں، 'دیکھیں جیسے میری کوسٹ خان ہے، اس طرح آپ کی کیا کوسٹ ہے'۔ بھئی بیڑا غرق ہوگیا تلفظ کا۔ انگریزی نے اپنے سر میں گولی مار لی۔ میرے رونگٹے مجھ پر لعنت بھیج کر بیٹھ گئے۔ اس 'ذات' کا سوال پوچھا تھا خاتون نے کہ بس نہ پوچھیں۔
ایک مرتبہ حج کے دنوں میں ترکی کی ایک نجی ہوائی کمپنی سے کچھ جہاز مع عملہ لیز پر لیے گئے۔ ان میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔ ہم لوگ ان کے ساتھ اردو میں حفاظتی اعلانات کرنے یا ہنگامی صورتحال (بشمول ابتدائی طبی امداد) پیدا ہونے کی صورت میں زبان کے مسائل حل کرنے کے لیے جاتے تھے۔ ہم لوگوں کو سروس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک نشست دے دی جاتی تھی اور اعلانات کرنے ہوتے تھے۔
یہاں میں اپنے منہ تھوڑا سا میاں مٹھو بننے کی اجازت چاہوں گا کہ ان دنوں میرا چہرہ عنایت خداوندی کے ساتھ ساتھ میرے بال اور داڑھی بنانے کے مختلف انداز کی وجہ سے کافی 'غیر دیسی' لگتا تھا۔ اس کا اندازہ مجھے پہلے سقراط اور ارسطو کے قدیم شہر ایتھنز کے بازاروں میں گھومتے ہوئے اس وقت ہوا جب ایک شخص نے مجھ سے مقامی زبان میں راستہ پوچھا حالانکہ اس وقت میں نے داڑھی نہیں رکھی تھی۔ وہ سمجھا کہ میں شاید خاوروسکی جمالازوف ٹائپ کا کوئی نام رکھتا ہوں گا۔
دوسری مرتبہ بیجنگ کے المشہور 'موتی بازار' یعنی پرل مارکیٹ میں اپنے دوست لئیق کے ساتھ ایک دکان سے خریداری کرتے ہوئے دکاندارنی کے پوچھنے پر لئیق کے بولنے سے پہلے میں نے اسے کہہ دیا کہ ہم دونوں ایران سے آئے ہیں۔ شکر ہے بچت ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پاکستانیوں سے خوب چڑتی تھی کہ بہت پیسے کم کرواتے ہیں اور خریداری بھی کم کرتے ہیں۔
واپس جہاز میں آجائیں۔ ترک عملے کے ساتھ پرواز تھی۔ میں بھی ساتھ ہی رل مل گیا۔ کوئی مجھ سے کچھ پوچھتا تو اسے انگریزی میں ہی جواب دیتا۔ مسافروں کا رویہ انتہائی حیران کُن تھا۔ سب عملے کی باتیں مکمل انہماک کے ساتھ سن رہے تھے بھلے سمجھ میں کچھ نہ آ رہا ہو۔ بورڈنگ کروانے میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ ایک تو خواتین میزبان اور وہ بھی ترک۔ اس زمانے میں ترکی ڈراموں کا سیاپا نہیں مچا تھا ورنہ مجھے یقین ہے کہ مسافروں میں کئی ارطغرل بھی نکل آنے تھے۔
خیر، میزبانی شروع ہوئی۔ سروس اتنی روانی اور اطمینان سے انجام پائی کہ میں رشک کرتا ہی رہ گیا۔ کسی نے دوسری بار کولڈ ڈرنک تو کیا پانی تک نہیں مانگا۔ کسی کو عین کھانے کے وقت لیٹرین یاد نہیں آیا۔ کسی بچے نے میسی یا رونالڈو بن کر راہداری میں فٹ بال نہیں کھیلی۔ چونکہ میں سروس نہیں کرسکتا تھا لہٰذا آخری نشست پر بیٹھا یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔
دوشیزانِ ترک مان جو بھی حکم جاری کرتیں، مسافران پاکستان بسر و چشم قبول کرتے۔ انہوں نے کہا حفاظتی بند باندھو تو ایسی فرماں برداری سے کس کے باندھی کہ آنتوں میں گرہ پڑگئی۔ انہوں نے کہا نشست سے کوئی نہ اُٹھے تو یہ اپنی اپنی نشست پر پتھر کے ہوگئے۔ انہوں نے کہا لینڈنگ سے پہلے کوئی بیت الخلا نہیں جائے گا تو ان کے آتش فشاں پھٹنے کو آگئے پر اُف تک نہ کی۔ الغرض نظم و ضبط کا جو نظارہ ان پروازوں پر میں نے دیکھا وہ بے نظیر تھا۔
مسافروں کے اترتے وقت میں نے دل کھول کر اردو بولی اور ان کو خدا حافظ کہا۔ چند ایک مجھے ایسے دیکھتے ہوئے جا رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں 'لالا! اے تساں چنگی نئی کیتی۔۔۔'
تبصرے (4) بند ہیں