آئیے، پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے کی راہ ہموار کریں
کب تلک مدعا کہے کوئی
نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی
غیرت عشق کو قبول نہیں
کہ تجھے بے وفا کہے کوئی
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی
جی میں آتا ہے کچھ کہوں ناصر
کیا خبر سن کے کیا کہے کوئی
— ناصر کاظمی
وہ 23 مارچ 1933ء کو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ اسے بچپن سے کھیل کود سے شغف تھا۔ دوڑ لگانے میں اسے خاص لطف آتا تھا۔ وہ محض 15 سال کا تھا جب وہ کبڈی کا مشہور کھلاڑی بن گیا۔ اس کے گاؤں میں کبڈی کا ایک مقابلہ تھا جو اس کی زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے پاکستان آرمی اسپورٹس کنٹرول بورڈ کے سربراہ برگیڈیئر سی بی ایچ رودھم بھی وہاں موجود تھے جو اس کی برق رفتاری اور پھرتی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔
برگیڈیئر رودھم نے فوراً اسے فوج میں شمولیت کی دعوت دی جسے اس نے بخوشی قبول کرلیا۔ یہاں سے اس کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں بے پناہ ٹیلنٹ تو موجود ہی تھا مگر فوج کے کوچز کی رہنمائی اور ادارے کے نظم و ضبط سے اس کی صلاحیتوں میں نکھار آنے لگا۔
قومی سطح پر اپنا آپ منوانے کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس نے اپنی دھاک اس وقت بٹھائی جب 1954ء کے ایشینز گیمز میں منیلا میں اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کی موجودگی میں اس نے 1951ء میں بنایا گیا بھارتی ایتھلیٹ لیوی پنٹو کا 100 میٹر دوڑ کا ریکارڈ توڑ کر سونے کا تمغہ جیتا۔ اس موقعے پر جواہر لال نہرو نے اسے 'دی فلائنگ برڈ آف ایشیا' کے خطاب سے نوازا۔
1956ء میں پاک بھارت کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوئے جس میں اس نے 100 میٹر دوڑ میں بھارتی ایتھلیٹ وی کے رائے کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا اور 200 میٹر کی دوڑ میں لیوی پنٹو کو ہرا کر پہلے نمبر پر آیا۔
1956ء کے میلبورن اولمپکس میں وہ اپنے عروج پر تھا۔ وہ 100 اور 200 میٹر کی دوڑ کے سیمی فائنل مرحلے تک پہنچا۔ 1960ء میں صدر ایوب خان نے پاک بھارت کھیلوں کا انعقاد کروایا تو مشہورِ زمانہ مقابلہ دیکھنے میں آیا جب ملکھا سنگھ اور وہ 200 میٹر کی دوڑ میں آمنے سامنے آئے۔ دونوں اس وقت ایشیا کے تیز ترین ایتھلیٹ تھے۔ پورے پاکستان میں اس مقابلے کا بے چینی سے انتظار تھا۔ جب دوڑ شروع ہوئی تو پہلے 100 میٹر میں وہ آگے تھا مگر اگلے 100 میٹر میں ملکھا سنگھ آگے نکل گیا اور یہ مقابلہ جیت گیا۔ اس موقعے پر صدر ایوب خان نے ملکھا سنگھ کو 'فلائنگ سکھ' کا خطاب دیا۔
وہ ملکھا سنگھ سے ہار تو گیا مگر وہ ملکھا سنگھ سے کسی طرح کم نہ تھا، اس نے بین الاقوامی مقابلوں میں 36 سونے، 15 چاندی اور 12 کانسی کے تمغے جیتے۔
اس کی بہادری کا ایک اور قصہ بھی مشہور ہے۔
وہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شریک ہوا۔ اس دوران جب وہ جنگی قیدی بن کر بھارت کی قید میں گیا تو ایک انڈین فوج کا افسر اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ سنا ہے کہ پاکستان کی فوج میں ایک شاندار ایتھلیٹ بھی ہے کیا تم اسے جانتے ہو؟ اس نے جواب دیا جناب وہ میں ہی ہوں۔ اس وقت کی بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے اسے رہا کرنے کی پیشکش کی مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے بنا نہیں جائے گا۔
وہ اپنے وقت کا تیز ترین ایشین ایتھلیٹ تھا، جس کی کامیابیاں خیرہ کن تھیں۔ دنیا اسے صوبیدار عبدالخالق 'پرندہ ایشیا' کے نام سے جانتی ہے۔ وہ اپنی 55ویں سالگرہ سے چند روز کے فاصلے پر 10 مارچ 1988ء کو زندگی کی دوڑ ہار گیا مگر پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں وہ ہمیشہ ایک چمکتا ستارہ رہے گا۔
بھارت نے اپنے ایتھلیٹ کو اعزاز بخشنے کے لیے اس کی زندگی پر 'بھاگ ملکھا بھاگ' فلم بنائی اور اس کی کامیابیوں کو سراہا مگر ہم نے اپنے ہیرو کو تاریخ کے اوراق میں کہیں سلا دیا۔
سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ایسا کیا ہوا کہ اب پاکستان کی زمین نے صوبیدار عبدالخالق جیسے ہیرے جننا بند کردیے؟ اس سوال کا جواب 17 سال سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے چیئرمین کی کرسی پر براجمان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عارف حسن نے دیا کہ، 'ہمارا نظام ایسا نہیں کہ کھلاڑیوں کو نکھار سکے'۔ اگر ایسا ہی ہے تو موصوف اتنے عرصے سے اس کرسی پر کیا کر رہے ہیں؟ کھیلوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے 2 صدور کا عرصہ صدارت تقریباً نصف صدی کے برابر ہے مگر کھیلوں کا معیار پستی میں گرچکا ہے۔
سید واجد علی 1978ء میں اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر بنے اور 2004ء میں گئے جبکہ موجودہ صدر عارف حسن 2004ء میں آئے اور ابھی تک کرسی پر موجود ہیں۔ اس طویل عرصے میں کھیلوں کا جو حشر ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔
گزرے 43 سالوں میں کئی حکمران آئے اور گئے مگر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدور سے کسی نے باز پرس کی اور نہ ہی کسی نے کھیلوں پر کوئی توجہ دی۔ ہم دن رات شکوہ کناں رہتے ہیں کہ 70 ہزار پاکستانیوں کی قربانیاں دینے کے بعد بھی ہم ساری دنیا میں تشدد پسند کیوں مشہور ہیں؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا 'سوفٹ امیج' نہیں ہے اور اب سب پر یہ عقدہ کھل چکا ہے کہ کھیل ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے ہم پوری دنیا کا دل موم کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ کھلاڑی کسی بھی ملک کا سوفٹ امیج ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں ان کی فین فالوونگ ہوتی ہے۔ آج دنیا رونالڈو اور میسی کی بدولت ان کے ممالک سے روشناس ہے۔ یوسین بولٹ اکیلے نے اپنے وطن کے جھنڈے کو پوری دنیا میں متعارف کروایا۔ روجر فیڈرر ہو یا رافیل نڈال یا نواک جاکووچ، یہ سب تنِ تنہا اپنے ملکوں کی شان بنے ہوئے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں لکھنے بیٹھیں تو جگہ کم پڑجائے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ 5، 5 مرلے کے گھروں کو جس نے بھی اسکول بنانے کی اجازت دی اس نے پاکستان کی آنے والی نسلوں کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ اسکولوں کے نام پر ڈبے بنائے گئے جہاں بچوں کی ذہنی اور جسمانی آبیاری کے بجائے تنگ نظری کو فروغ ملا۔
ہم یورپی اقوام کو اپنے سے آگے نکل جانے کا رونا تو روتے ہیں جن کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو تو بھاری پتھر سمجھ کر چومتے ہوئے ایک طرف رکھیے مگر ان کے بچوں کے آباد کھیلوں کے میدان تو دیکھیے؟ بچے میدان میں جیتنا اور ہارنا نہیں سیکھیں گے تو آگے کیسے بڑھیں گے؟ بچوں میں اسپورٹس مین شپ کیسے پیدا ہوگی؟ کیا انگریزی کا ایک مضمون 'اسپورٹس مین شپ' پڑھا کر ہم یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کھیلوں کو وقت کا ضیاع کہنے والے آج اپنے بچوں، پوتوں یا نواسے نواسیوں کو کمرے میں گھسے دیکھ کر کڑھتے ضرور ہوں گے۔
میدانوں سے منہ موڑنے کے جو نقصانات ہوئے ان کی بھرپائی شاید آنے والی دہائیاں بھی نہ کرپائیں۔ بچے میدان میں کھیل رہے ہوں تو ماں باپ کے سامنے ہوتے ہیں مگر جب موبائل یا لیپ ٹاپ لیے اپنے کمرے میں گھسے ہوں تو انہیں راہ سے بھٹکتے دیر نہیں لگتی۔
اسکول اور کالج تو کھیلوں کی نرسریاں ہوتے ہیں، ہم نے سوچا کہ کھیلوں میں بچوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور یہ فضول کام ہے، لہٰذا کالج اور یونیورسٹیوں میں اسپورٹس کوٹہ ختم کردیا۔ پھر جو ادارے کھلاڑیوں کو پالتے تھے انہوں نے اپنے اسپورٹس ڈیپارٹمنٹس کو تالے ڈال دیے، ایسی صورت میں پاکستان میں کھیلوں کا جنازہ تو نکلنا ہی تھا۔
کرشن چندر نے کہا تھا کہ، 'جس ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں'۔
ہمارے ہسپتال بھرے ہوئے ہیں اور ہم نے کھیلوں کے میدان چھوڑے ہی نہیں تاکہ ان فضولیات میں کوئی پڑے ہی نہ۔
دوسری طرف طلحہ طالب اور ارشد ندیم جیسے سر پھروں نے نا مساعد حالات کے باوجود ملک کا نام روشن کیا۔ ان کے پاس نہ تو بین الاقوامی سطح کے کوچز تھے اور نہ ہی ڈھنگ کی تربیتی سہولیات، ان سب باتوں کے باوجود وہ اپنی انتھک محنت کے بل بوتے پر پاکستان کے لیے عشروں بعد کوئی اولمپک میڈل لینے کے قریب تھے۔
ان جیسے بے شمار کھلاڑی ہیں جو ملک و قوم کا نام روشن کرسکتے ہیں مگر انہیں درست سمت ملتی ہے اور نہ ہی وہ ڈھانچہ جس سے گزر کر کھلاڑی اوپر آسکیں۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ارشد ندیم پر تنقید کرتے بھی دکھائی دیے کہ انہوں نے میڈل نہیں جیتا اور بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا نے سونے کا تمغہ جیت لیا۔ وہ اس تلخ حقیقت سے انکاری ہیں کہ جب ارشد ندیم ملتان سے لاہور جانے کے لیے کرایے اور دوسری سہولیات کے لیے پریشان تھا، اس وقت نیرج چوپڑا یورپ میں بہترین سہولیات کے ساتھ اولمپکس کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ بھارتی حکومت نے اکیلے نیرج چوپڑا پر 7 کروڑ بھارتی روپے لگائے جو تقریباً 14 کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں تاکہ وہ سونے کا تمغہ جیت پائے۔
اگر بھارتی فوج کا نائب صوبیدار نیرج چوپڑا سونے کا تمغہ جیت سکتا ہے تو ہماری پاک فوج کو بھی اپنے شاندار ایتھلیٹ صوبیدار عبدالخالق کی طرز کے کھلاڑیوں کو سامنے لانا چاہیے تاکہ وہ پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی روشن کریں۔
نیرج چوپڑا نے اپنی جیت کو ماضی کے شاندار بھارتی ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کے نام کیا تو میرے دل میں اک ٹھیس سی اٹھی کہ کاش ہمارا کوئی کھلاڑی بھی تمغہ جیت کر ایشیا کے پرندے صوبیدار عبدالخالق کے نام کرتا تو ان کا ادھورا خواب بھی پورا ہوجاتا۔
امید ہے کہ اگلے اولمپکس میں جیولین، ریسلنگ، ویٹ لفٹنگ، شوٹنگ اور باکسنگ میں موجود کھلاڑیوں کو بہترین سہولیات دی جائیں گی تاکہ وہ ملک کے لیے کوئی میڈل لے کر لوٹیں۔
تبصرے (3) بند ہیں