• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مینار پاکستان واقعہ: شیریں مزاری کا نوجوانوں کو سبق سکھانے کیلئے پابندیاں لگانے کا مطالبہ

شائع September 2, 2021
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری - فائل فوٹو:ڈان نیوز
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری - فائل فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ملک کے نوجوانوں کو 'سبق سکھانے کے لیے' ان پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کردیا اور انہیں خواتین پر تشدد کے حالیہ اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے یہ ریمارکس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران دیے جہاں وزارت انسانی حقوق نے 14 اگست کو مینار پاکستان کے قریب ایک پر تشدد ہجوم کی جانب سے ایک خاتون پر ہولناک حملے کے واقعے کی رپورٹ پیش کی۔

شیریں مزاری نے نوجوانوں پر پابندیاں لگانے کی تجویز دی اور کہا کہ پارکس میں خواتین کے لیے ایک مخصوص وقت مقرر کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خواتین پر پابندیاں کیوں لگائی جا رہی ہیں؟ مردوں پر پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے، عورتوں پر نہیں'۔

مزید پڑھیں: ‏سپریم کورٹ کا مینار پاکستان واقعے پر نوٹس، رپورٹ عدالت میں جمع

انہوں نے کہا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر مسائل نوجوانوں کی وجہ سے ہوتے ہیں، نوجوانوں کو سبق سکھانے کے لیے ان پر پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔

وفاقی وزیر نے سینیٹر عابدہ عظیم کے ریمارکس پر بھی تنقید کی جن میں کہا گیا تھا کہ خواتین کو اکیلے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔

عابدہ عظیم نے کہا تھا کہ 'اس طرح کے واقعات اس وقت پیش آئیں گے جب کوئی عورت اکیلے باہر جائے جو نہیں ہونا چاہیے'۔

شیریں مزاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ یہ عورت کی غلطی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ آئین نے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے ہیں، 'ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورت صرف اس وقت گھر سے نکل سکتی ہے جب وہ مرد کے ساتھ ہو'۔

سینیٹ کمیٹی کو پیش کی گئی رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مینار پاکستان بدسلوکی کیس: 30 ملزمان کو شناخت پریڈ کیلئے جیل بھیج دیا گیا

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ یہ واقعہ یوم آزادی پر پیش آیا تھا جبکہ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے 17 اگست کو نوٹس لیا تھا اور فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کو یقینی بنایا تھا۔

کہا گیا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مزید تفتیش کے لیے چار خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔

وزارت نے کہا کہ 141 افراد کو گرفتار کیا گیا اور متاثرہ خاتون نے شناختی پریڈ کے دوران ان میں سے 6 کی شناخت کرلی ہے۔

کمیٹی نے امریکا کی طرف سے پاکستان کو چائلڈ سولجرز پریونشن ایکٹ (سی ایس پی اے) کی فہرست میں ڈالنے پر تشویش کا اظہار کیا اور اس حوالے سے اقوام متحدہ اور امریکا کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ امریکا نے پاکستان پر جھوٹا الزام لگایا ہے، پاکستان سولجرز کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر مکمل عملدرآمد کر رہا ہے۔

مینار پاکستان پر بدسلوکی کا واقعہ

یاد رہے واقعہ 14 اگست کو اس وقت پیش آیا تھا جب خاتون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں۔

خاتون کے مطابق انہیں لاہور گریٹر پارک میں سیکڑوں افراد نے ہراساں کیا، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے بچنے کی بہت کوشش کی اور حالات کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ نے مینارِ پاکستان کے قریب واقع دروازہ کھول دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو بتایا گیا تھا لیکن حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، لوگ مجھے دھکا دے رہے تھے اور انہوں نے اس دوران میرے کپڑے تک پھاڑ دیے، کئی لوگوں نے میری مدد کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بہت بڑا تھا۔

خاتون نے مزید بتایا کہ اس دوران ان کی انگوٹھی اور کان کی بالیاں بھی زبردستی لے لی گئیں جبکہ ان کے ساتھی سے موبائل فون، شناختی کارڈ اور 15 ہزار روپے بھی چھین لیے۔

واقعہ کا مقدمہ خاتون کی مدعیت میں 17 اگست کو لاہور کے لاری اڈہ تھانے میں درج کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے (عورت پر حملے یا مجرمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال اور کپڑے پھاڑنا)، 382 (قتل کی تیاری کے ساتھ چوری کرنا، لوٹ کی نیت سے نقصان پہنچانا)، 147 (فسادات) اور 149 کے تحت درج کیا گیا ہے۔

واقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس بھی لیا تھا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب سے رابطہ کیا تھا۔

وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے سمندرپار پاکستانی زلفی بخاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ ‘وزیراعظم عمران ان نے لاہور میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والے معاملے پر آئی جی پنجاب سے بات کی ہے’۔

بعدازاں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت واقعے پر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا جس کے بعد آئی جی پنجاب نے سینئر پولیس افسران کو واقعے میں غفلت برتنے اور تاخیر سے ردعمل دینے پر معطل کردیا تھا۔۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024