اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے
23 دسمبر 1841ء بروز جمعرات موسم کی یخ بستگی انتہا کو پہنچنے لگی تھی۔ انگریز افسران اور مجاہدین کے ساتھ آئے ہوئے محافظ دستے آمنے سامنے تھے۔ کمپنی کی حکومت کا اہم ترین افسر، مجاہدین کی حراست میں تھا اور بقول جارج میکمین وہ بہت ڈرا اور سہما ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف سیاہ گہرے بادلوں کی طرح اُتر آیا تھا، افغانوں نے افسران کو گرفتار کرکے قید میں رکھنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔
مگر جب انگریزوں کے محافظ دستے نے یہ دیکھا کہ باتوں باتوں میں پیدا ہونے والی گرما گرمی ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ہے اور ان کے جنرل کو پکڑ کر لے جایا جا رہا ہے تو وہ حواس باختہ ہوگئے اور انہوں نے فائرنگ شروع کردی، جس پر افغانوں نے بھی جوابی فائرنگ شروع کی۔
ذہن میں منظرنامے اور خیالات آپس میں ایسے گتھم گتھا ہوئے کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ محمد اسماعیل ریحان لکھتے ہیں، 'انگریز فوج کا مرکز قریب تھا اس لیے ایسی کیفیت زیادہ دیر رہتی تو کوئی بھی نیا منظرنامہ پیدا کرسکتی تھی اس لیے اکبر خان کے حکم سے پہلے میکناٹن کا جسم ٹھنڈا ہوا اور پھر جنرل ٹریور کا۔ مسٹر لارنس اپنے گھوڑے پر چڑھ کر بھاگ نکلنے کی کوشش میں پکڑا گیا اور کیپٹن میکنیزی کو بھی حراست میں لیا گیا اور ان کو قلعہ محمود خان پہنچا دیا گیا جو کابل ندی کے بالکل قریب مشرق میں واقع تھا'۔
تاریخ کے اوراق میں کچھ مصنفین کے مطابق میکناٹن کا قتل اکبر خان کے کہنے پر ہوا اور کچھ کا خیال ہے کہ اکبر نے خود اسے قتل کیا۔ اکثر لکھاریوں کے مطابق اکبر خان نے ہی اسے مارا تھا۔
کمپنی سرکار کے لیے میکناٹن کے قتل کی خبر انتہائی مایوس کن تھی۔ میکناٹن کی آنکھوں میں بمبئی جانے کا خواب اس کی سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے ساتھ، کسی ریت کے گھروندے کی طرح لمحوں میں ڈھے گیا کہ خوابوں، خیالوں اور تمناؤں کی چڑیائیں حیات کے درخت کی شاخ پر ہی چہچہاتی ہیں۔ اب جب وہی کٹ جائے تو پلوں میں ساری چڑیائیں اڑ جاتی ہیں اور رہ جاتا ہے ٹھنڈا جسم جس میں سے حیات کی گرمی کی کوئی چنگاری نہیں پھوٹتی۔
میکناٹن کے بعد جنرل ایلفنسٹن اور جنرل پوٹنجر پر مشتمل نئی منتظمہ کمیٹی تشکیل دی گئی کہ آنے والے حالات میں وہی فیصلے کرنے کے مجاز ہوں گے۔ پوٹنجر نے ہار مانی اور کابل چھوڑنے کے لیے کمپنی کی فوج تیار تھی۔ کابل چھوڑنے سے پہلے طرفین میں ایک طویل بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں ایک سہ نکاتی معاہدہ طے پایا۔ اس کے تحت:
- انگریز اپنا تمام مال و متاع اور سامان کے سارے ذخائر مجاہدین کے حوالے کرکے جائیں گے۔
- انگریز افغان حکومت کو تاوان کے طور پر 14 لاکھ روپے ادا کریں گے۔
- یرغمال انگریز افسران میں سے جو غیر شادی شدہ ہیں ان کی جگہ اب شادی شدہ افسران یرغمال بنیں گے۔
ان شرائط کے بعد طے پایا کہ 6 جنوری 1842ء کو برطانوی کمپنی کی فوج کابل کو خالی کردے گی۔ یہ جو قافلہ کابل سے نکلا، اس میں لیڈی سیل بھی شامل تھی، جو اس موت کے قافلے سے زندہ سلامت بچ گئیں اور ان دنوں کے حالات اور سفر پر اس نے ایک کتاب لکھی جو 1843ء میں لندن سے شائع ہوئی۔ ہم طوالت کی وجہ سے زیادہ تو نہیں البتہ، ان شب و روز کا آنکھوں دیکھا حال ضرور لیڈی سیل سے سُننا چاہیں گے کہ اس سفر سے متعلق اتنا مواد اور ہمیں کہیں سے نہیں ملتا۔
لیڈی سیل لکھتی ہیں کہ 'ہم کیپٹن ساؤٹر کی کمان میں ایچ ایم 44ویں ریجمنٹ میں سفر کر رہے تھے۔ تباہی کے بعد دانشمندی یا حماقتوں پر بحث کرنا انتہائی آسان ہے۔ ان سارے بُرے حالات کی وجہ وہ سفیر تھا لیکن ان کو بھگتنا ہمیں پڑ رہا تھا۔ کابل سے جلال آباد تک کے بوجہ مجبوری اختیار کیے گئے سفر کے لیے ایلفنسٹن نہایت ہی کمزور جنرل تھا۔ ہم کابل سے 6 جنوری بروز جمعرات نکلے۔ دن صاف اور ٹھنڈا تھا۔ کل سے جاڑے کی پہلی برف پڑنا شروع ہوگئی تھی اور زمین پر برف کی ایک فٹ سے زائد کی تہہ بچھ گئی اور تھرمامیٹر نکتہ انجماد سے کافی نیچے تھا۔ ہمیں محفوظ انداز میں جانے دینے کے لیے افغانوں کو 14 لاکھ 50 ہزار روپے کی ادائیگی کا معاہدہ ہوا۔ ان پیسوں کے عوض وہ تحفظ کے ساتھ خوراک اور آگ بھی مہیا کریں گے۔
'ہماری پہلی ٹیم کا کابل سے نکلنے کا مشاہدہ کرنے کے لیے 100 سے زائد افغانی جمع ہوگئے تھے۔ پہلے خواتین اپنے خاندانوں کے ساتھ نکلیں مگر میں اور مسز اسٹرٹ گھوڑوں پر سوار ہوئیں۔ بہت ساری عورتیں اونٹوں کے کجاوے پر سفر کر رہی تھیں۔ سفر کی رفتار انتہائی سست تھی، یہ سب اس لیے تھا کہ پلاننگ کی شدید کمی تھی۔ ایک میل کا سفر طے کرنے میں ہمیں ڈھائی گھنٹے لگے۔ ایک میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ آرڈر آیا کہ محمد زمان شاہ خان کہتے ہیں کہ ہم ابھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ (بعد میں پتا چلا کہ پیسوں کی لین دین پر افغانی آپس میں لڑ پڑے تھے) مگر قافلہ نہیں رُکا اور آگے بڑھتا رہا۔ رات کو شدید ٹھنڈ تھی۔ برف کی تہہ بستر مرگ کی طرح بچھی ہوئی تھی۔ پوری رات ہم نے اپنے اطراف افغانوں کی سرگرمیاں محسوس کیں اور یہ بھی سنا کہ اکبر خان ان کے ساتھ ہے۔ برف گہری ہو رہی تھی۔ انسان اور حیوان کے لیے کوئی کھانا یا دانہ پانی نہیں ہے۔ دریا تک جو پانی لینے جاتا ہے، افغانی ان پر فائرنگ کرتے ہیں۔ بدقسمتوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ سردی اور افغانی مل کر لوگوں کا قتل کررہے ہیں۔
'8 جنوری کا سورج اپنے ساتھ سخت الجھن لے آیا۔ برف میں کئی اکڑی ہوئی لاشیں پڑی ہیں۔ جو سپاہی بچ گئے ہیں وہ خود کو گرم رکھنے کے لیے اپنی ٹوپیاں تک جلا رہے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ جنرل ایلفنسٹن اور میجر پوٹنجر نے اکبر خان سے بات چیت کی۔ کچھ پیسوں کے لین دین کی بات ہوئی اور ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پوٹنجر، لارنس اور میکنزی کو جنرل سیل کے جلال آباد سے انخلا کے لیے یرغمال بنا کر اس کے حوالے کیا جائے۔ یہ شرط تسلیم کرلی گئی۔ ہم آگے تو بڑھتے رہے مگر افغانوں کے حملے اور فائرنگ ہوتی رہی۔ قافلے کے لوگ مرتے رہے۔ پھر جب پوٹنجر، میکنزی اور لارنس سردار کے ساتھ کھورد کابل قلعہ پہنچے اور اکبر خان نے کہا کہ یہ مناسب رہے گا کہ تمام شادی شدہ افسران اپنے خاندانوں سمیت ہماری پناہ میں آئیں، ان کا تحفظ ہم کریں گے اور باعزت طریقے سے رکھیں گے۔ ہمارے پاس اس کی بات ماننے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ہم قلعہ کھورد کابل پہنچے جہاں ہمارے لیے 3 کمرے خالی کرلیے گئے۔ رات دیر سے ہمیں چکنائی سے بھرپور مٹن چاول ملے۔
'10 جنوری کو ہمیں پتا چلا کہ ہماری فوج تقریباً مرچکی ہے اور افغانوں کے 4 سردار بھی جنگ میں مارے جاچکے ہیں۔ اکبر خان نے ہمیں آگے بڑھنے کی اجازت دی اور ہم نے جگدال لک کی طرف روانہ ہونے کی تیاری کی۔ 11 جنوری کو ہم نے سفر شروع کیا، ہمیں ان ملازمین کو وہیں چھوڑنا پڑا جو اب چلنے کے قابل نہیں تھے۔ سردار نے ان کو خوراک دینے کا وعدہ کیا۔ راستے میں بڑے خوفناک منظر میری آنکھوں نے دیکھے۔ ایک دوسرے پر الٹی سیدھی پڑی ہوئی لاشوں سے بھری سڑک، خون کی بو اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میری پوری کوشش تھی کہ میں جس گھوڑے پر سوار ہوں اس کے کھر کسی لاش پر نہ پڑیں۔ 12 جنوری کو ہم قلعہ عبداللہ خان پہنچے۔ قلعے کے آگے ڈاکٹر کارڈیو اور دیگر 3 یورپیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ ہم سارے مرد و زن ایک وسیع کمرے میں چلے گئے۔ رات کو قلعے سے باہر شدید برف باری ہو رہی تھی۔ قلعے میں ایک افغان بوڑھی عورت نے ہمارے لیے چپاتیاں بنائیں۔ پہلے ایک روپے کی 3، پھر جب اس نے دیکھا کہ ڈیمانڈ زیادہ ہے تو پھر ایک روپے کی ایک چپاتی فروخت کی۔ 13 جنوری کو ہم جگدال لک پہنچے، جہاں ہم سے پہلے یورپیوں کا قتلِ عام ہوا تھا اور ہم نے جنرل ایلفنسٹن اور دیگر افسران کو خیموں میں پایا۔'
ہم لیڈی سیل کو جگدال لک میں چھوڑتے ہیں۔ جہاں ان کے لیے ایک بڑا خیمہ لگادیا گیا ہے۔ ہم اس موت کے سفر کے راستوں، مقامات اور حالات کو بہتر سمجھنے کے لیے اپنے دوسرے ساتھی لکھاریوں سے مدد لیتے ہیں، جو ہر وقت ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں۔
منظوم تاریخ افغانستان (1) میں لکھا ہے کہ ’اکبر خان کی دی ہوئی دھمکی پر لشکر کابل سے روانہ ہوا۔ اسی دن برفباری بھی شروع ہوگئی جس پر چلنا بہت مشکل تھا۔ یہ قافلہ تھوڑا آگے بڑھا تو سردار محمد اکبر خان نے اس پر حملے شروع کردیے۔ اکبر خان نے حکم دیا کہ انگریز افسران کو زندہ پکڑلو، غازیوں نے حکم کی تعمیل کی اور پوٹنجر اور کچھ عورتوں سمیت 70 افراد کو حراست میں لے لیا۔ مگر ایلفنسٹن بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ سردار نے پھر لوٹ مار کا حکم دیا، غازیوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، انگریز لشکر نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
'اتفاق سے پھر برفباری شروع ہوگئی۔ مقامیوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑا مگر انگریز لشکر کو اس برفباری نے برباد کردیا۔ کئی مرگئے اور کئی ٹھنڈ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہے۔ باقی جو سپاہی بچے تھے وہ کابل کھورد کے مقام پر پہنچے۔ یہ شہر اب ویران ہے، اور کابل سے پشاور جانے والے راستے پر 2 منزلوں کے فاصلے پر واقع ہے۔ لشکر نے وہاں رات گزاری، دوسرے دن یہ بھوک اور سردی میں نیرین نامی مقام پر پہنچے جو کھورد کابل سے 2 منزلیں آگے ہے۔'
محمد اسماعیل ریحان رقم طراز ہیں، 'کابل سے روانہ ہونے والے اس قافلے کی اگلی منزل جلال آباد تھی اور ان کا قائد جنرل ایلفنسٹن تھا۔ راستے میں ان کو اطلاع ملی کہ جلال آباد میں جنرل سیل جنگ پر آمادہ ہے اور انگریز فوج کی بھاری کمک پشاور کے راستے جلال آباد پہنچنے والی ہے۔ اس خبر نے جنرل ایلفنسٹن کی نیت بدل دی۔ اس نے ارادہ کرلیا کہ جلال آباد میں جنرل سیل کے ساتھ مل کر وہ نئے سرے سے جنگ کی ابتدا کرے گا۔ اکبر خان کو اس بات کی بھنک لگ گئی اور اس کی کوشش تھی کہ ایلفنسٹن کے جلال آباد پہنچنے سے پہلے پہلے وہ جنرل سیل کو جلال آباد خالی کرنے پر مجبور کردے۔ ان حالات کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ ایلفنسٹن کو جلال آباد پہنچنے سے پہلے روکا جائے کیونکہ اگر یہ فوج جلال آباد پہنچ گئی اور پشاور سے بھی کمک آگئی تو پھر جلال آباد کمپنی سرکار کی بہت بڑی چھاؤنی میں تبدیل ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ ایک بار پھر انگریز کابل پر قبضہ کرلیں اس لیے سارے معاہدے ایک طرف رکھ کر مجاہدین نے جنگ کی شروعات کردی۔'
یہ جنگ ایسی صورتحال میں ہونی تھی جس میں حالات اور موسم انگریزوں کے لیے موافق نہیں تھے۔ افغانوں کے لئے پہاڑ اور ٹھنڈے موسموں اہمیت نہیں رکھتے تھے اور اب تو ان کے پاس کمپنی سرکار کے ہتھیار اور بارود بھی تھے۔
8 جنوری تک ہزاروں فوجی مارے گئے۔ بارود، بھوک، سردی اور بے بسی کی وجہ سے قافلے میں شدید ذہنی تناؤ برداشت کی آخری لکیر کو چُھو رہا تھا، جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب انگریز ڈاکٹر ڈف نے اپنے سپاہیوں کو ایسے مرتے دیکھا تو اس کے نروس سسٹم نے مزید یہ مناظر دیکھنے سے انکار کردیا لہٰذا اس نے اپنے حلق پر چاقو پھیر کر خودکشی کرلی۔ جو حالات 7 جنوری سے بگڑنے شروع ہوئے تھے وہ کوششوں کے باوجود گرفت کے دام میں آنے کو تیار نہ تھے۔ 9 جنوری کو ایلفنسٹن نے سردار اکبر خان سے بات چیت کی، جس میں یہ طے پایا کہ قافلے میں جو لوگ اپنے اہل و عیال یا بچوں اور خواتین کے ساتھ سفر کر رہے تھے انہیں اکبر خان اپنی نگرانی میں لے کر خوراک اور تحفظ کی فراہمی کے ساتھ سرحد تک پہنچائے گا۔
اب قافلہ فقط سپاہیوں پر مشتمل تھا اور ایک بار پھر جنگ کی چنگاری شعلہ بنی۔ محمد اسماعیل ریحان لکھتے ہیں، '10 اور 11 جنوری انگریزوں کے لیے قیامت کے دن تھے۔ کابل سے 22 میل دُور جگدال لک کے مقام پر مجاہدین نے انگریزوں کی اتنی لاشیں گرائیں کہ ان کا کوئی فرد سلامت نہ رہا۔ ہزاروں فوجی مارے گئے اور جو بچ گئے تھے وہ اتنے شدید زخمی تھے کہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ فقط ایک شخص ڈاکٹر بریڈن بچ نکلا اور جنرل ایلفنسٹن نے خود کو اکبر خان کے حوالے کردیا'۔ ٹھیک جس طرح انگریز خاندانوں کو تحفظ دینے کے لیے مجاہدین کے حوالے کیا گیا تھا۔
ان دنوں سے متعلق جنرل میکمین تحریر کرتے ہیں، 'سفیر (میکناٹن) کے قتل کے بعد انگریزوں نے اپنی ناکامی تسلیم کرلی۔ اس کے بعد ایک معاہدہ عمل میں آیا جس میں انگریز فوج کو دَروں سے باحفاظت گزرنے کی ضمانت دی گئی تھی۔ قافلہ نکلنے سے پہلے برفباری شروع ہوگئی جس نے فوج کے اس قافلے سے حواس چھین لیے۔ اس کا اہم سبب یہ تھا کہ ان کے ساتھ بہت سارا سامان تھا جس کو یہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آخرکار اس برفباری میں سفر شروع ہوا۔ اس قافلے میں 4500 لوگ تھے:
- بنگال ہارس آرٹیلری: 90 لوگ
- ایچ ایم 44 بنگال ہارس آرٹیلری: 600 لوگ
- 5 بنگال نیم مسلح گھڑسوار دستہ (2 اسکاڈرن): 260 لوگ
- 5 دیسی پیادے: 700
- 37 دیسی پیادے: 600
- 54 دیسی پیادے: 650
- 5 شاہ اریگیولر: 500
- سیکنڈ اریگیولر: 210
- شاہ جی پیادے: 870
- قلعوں کو سیندھ لگانے والے: 20
'ان میں سے 690 یورپی، 2 ہزار 840 ہندوستانی پیادے، اور باقی 970 گھڑسوار تھے۔ گھوڑوں کی مدد سے کھینچی جانے والی 6 اور پہاڑوں پر کام آنے والی 3 توپیں ان کے ساتھ تھیں۔ واپس جانے والے اس قافلے کی حالت خراب تھی۔ پہاڑیوں کے لمبے اور مشکل راستے تھے۔ ان کے بُرے حالات پر کیا بات کی جائے کہ جن کے کمانڈروں نے عذاب اور پریشانیاں جھیلنے کے لیے انہیں ویرانوں اور پہاڑیوں میں دھکیل دیا تھا۔ ایک طرف شمال کی تیز ٹھنڈی ہوائیں اوپر سے برفباری، بھوک اور بے بسی کا احساس۔ کچھ انگریز عملداروں اور ان کے خاندانوں نے جاکر دوست پٹھان قبیلوں کے ہاں پناہ لی۔ کچھ دشمن افغان قبیلوں کے ہاتھ لگ گئے مگر پھر بھی ان کو برف اور تلوار کی موت سے تحفظ مل گیا۔ فوج کا بڑا حصہ جگدال لک کے پاس قتل ہوا۔ اس فوجی قافلے کے ساتھ فوجی عملداروں اور ان کے اہلِ خانہ ساتھ تھے جن کی تعداد تقریباً 1500 کے قریب تھی۔ یہ بہت بڑا اور حساس قافلہ تھا جس کو ضابطے اور تحفظ میں رکھنا مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ یہ سب بیوقوفانہ اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہو رہا تھا۔'
اس 4500 کے لشکر میں سے فقط ایک آدمی جلال آباد پہنچ سکا، وہ ڈاکٹر برائیڈن تھا۔ آپ ان لمحوں کی عکاسی کرتا معروف اسکیچ دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ گھوڑا اور اس پر سوار ڈاکٹر برائیڈن کس کیفیت میں ہیں۔ کارل مارکس اپنی کتاب 'نوٹس آن انڈین ہسٹری' میں تحریر کرتے ہیں، '13 جنوری 1842ء کو، جلال آباد کی شہر پناہ پر تعینات سنتریوں نے ایک شخص کو دیکھا جو پھٹی ہوئی انگریزی وردی پہنے ایک ٹٹو پر سوار تھا۔ گھوڑا اور سوار دونوں بُری طرح زخمی تھے۔ وہ ڈاکٹر برائیڈن تھا جو ان ہزاروں کے قافلے میں سے اکیلا بچا تھا جو قافلہ 6 جنوری کو کابل سے جلال آباد کے لیے نکلا تھا'۔
افغانستان کے سارے لینڈاسکیپ پر برف کی تہہ بچھتی جا رہی ہے۔ مگر قلعوں میں سیاست کے الاؤ جلتے ہیں جہاں جیتنے کے داؤ پیچ پر باتیں ہوتی ہیں۔ ایک طرف افغانی ہیں اور دوسری طرف گوری سرکار۔ موجودہ حالات یعنی 1842ء کے ابتدائی مہینوں میں یہ لگ رہا ہے کہ گوری سرکار کی بساط لپیٹنے کا وقت آگیا ہے کہ کابل کا قلعہ افغانوں کے پاس ہے۔ اب افغانی غزنی کے قلعے کو اپنے قبضے میں لینے کی تاک میں ہیں۔ ہمارے مصنف ان دنوں شاید غزنی میں ہی تھے جب یہ اہم واقعہ رونما ہوا تھا۔
وہ رقم طراز ہیں کہ، 'جب کابل سے انگریزوں کی فوج نکل گئی اور شاہ شجاع درانی بالا حصار کے قلعے میں ایک نظر بند شخص کی طرح زندگی کے شب و روز گزار رہا تھا، ان وقتوں میں امیر دوست کے بھائی سردار محمد زمان خان اور امین اللہ خان نے امیر دوست کے بھتیجے سردار شمس الدین خان کو ہدایات دے کر غزنی کے قلعے پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے 200 سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ کابل سے غزنی کا فاصلہ 94 میل پر محیط ہے۔ سردار شمس الدین سے پہلے جب یہاں کے زمیندار اور لوگوں کو کابل سے انگریز فوجوں کے نکلنے کی خبر ملی تو یہاں بھی انہوں نے غزنی کے قلعے کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا تھا۔
'قلعے کے اندر تقریباً 400 کا انگریز لشکر موجود تھا اور ساتھ میں خوراک کا ذخیرہ اور ایک بڑا خزانہ بھی موجود تھا۔ جب ان لوگوں اور زمینداروں کو پتا چلا کہ کابل سے سردار شمس الدین خان آرہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور جوش میں آکر قلعے پر دھاوا بھی بولا مگر ناکام ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد شمس الدین پہنچا تو یہاں کے لوگوں نے اس کو سردار مانا اور ہر فیصلے کا اختیار اسے دے دیا۔ شمس الدین نے کرنل پالمر کو پیغام بھیجا کہ شاہ شجاع درانی کا حکم ہے کہ، آپ اپنی فوج لے کر افغانستان سے نکل جائیں، ہم آپ کو پورے تحفظ کے ساتھ پشاور تک پہنچا دیں گے۔
'کرنل نے جواباً کہا کہ یہ حکم اگر مجھے تحریری صورت میں ملے گا تو میں ضرور اس کی تعمیل کروں گا۔ یہ سارا احوال شمس الدین نے کابل کے سرداروں کو کہلوا بھیجا۔ کابل کے سرداروں نے شاہ شجاع کو سمجھا بجھا کر اس سے تحریر حاصل کرلی اور جب یہ تحریر، کرنل پالمر تک پہنچی تو اس کے پاس اب انکار کی کوئی وجہ نہیں بچی تھی۔ اس نے شمس الدین کو قلعے کے اندر آنے کی دعوت دی اور 3 لاکھ سے زائد مالیت کا خزانہ، خوراک کا ذخیرہ اور دیگر ساز و سامان اس کے حوالے کیا اور پالمر اپنی فوج سمیت جلال آباد کی طرف نکل پڑا۔ جیسے ہی وہ باہر نکلا اور قلعہ شمس الدین کے حوالے ہوا تو اس نے مجاہدین کو قلعے سے باہر نکال کر دروازہ اندر سے بند کردیا اور کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔
'جب افغانوں نے دیکھا کہ ان کو تو ایک ٹکہ تک نہیں ملا تو وہ اس فوج پر حملہ آور ہوئے جو قلعے سے نکلی تھی، بہت سوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔ کچھ افسران کو گرفتار کرلیا۔ جو رسالدار اور جمعدار ہونے کے عہدے پر غرور کرتے تھے اور کسی سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے ان کو میں نے گھوڑوں کے اصطبل صاف کرتے دیکھا، مگر افسوس شمس الدین نے یہ سارا ڈرامہ اس قلعے میں موجود دولت پر قبضہ کرنے کے لیے کیا تھا۔'
غزنی کا قلعہ چھن جانے پر جارج میکمین کی تحریر بھی اس مصنف کے بیان سے مماثلت رکھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’6 مارچ 1842ء میں ہمارے افسران نے اس وعدے پر قلعہ چھوڑا کہ ان کو امن و امان کے ساتھ افغانستان سے نکلنے دیا جائے گا۔ مگر ہوا کیا؟ وعدہ جھوٹا نکلا۔ کچھ نکل بھاگے مگر بہت سوں کو قتل کردیا گیا۔ ان میں ایک نوجوان افسر نکولسن بھی شامل تھا جبکہ غزنی قلعے کے انچارج کرنل پالمر کو بھی خزانہ دیر سے دینے پر سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا'۔
جاڑوں کی سختی میں اب کمی آنے لگی ہے۔ ایک طرف جلال آباد کے قلعے کو فتح کرنے کے لیے افغانوں کی تیایاں زور و شور سے جاری ہیں اور دوسری طرف 1842ء کا مارچ کا مہینہ سیاسی اور نفسیاتی کشمکش کا مہینہ ثابت ہو رہا ہے۔ اپریل کا مہینہ بھی آنے کو ہے جب جاڑوں کا موسم اگلے برس تک کے لیے افغانستان کی پہاڑیوں اور گلیوں سے وداعی لینے کی تیاریاں کررہا ہے۔
اس گرم مہینے میں کابل کے آس پاس ایک نئی کشمکش جنم والی ہے۔ سیاست کے میدان میں اپنوں نے اپنوں کے لیے شطرنج کا میدان سجایا ہے۔ شطرنج کی بچھائی ہوئی اس بساط پر جنگ کا ایک اہم مہرہ پٹنے والا ہے۔ وہ بھی اس کے ہاتھوں جس کے والدین نے اس سے متاثر ہوکر اپنے بیٹے پر اس کا نام رکھا تھا۔
جن گلیوں، میدانوں اور محلوں میں اپنی تمناؤں کی تسکین کے لیے سیاست کے میلے سجتے ہیں وہاں موت کا پرندہ ہر پل آنکھیں کھولے جاگتا رہتا ہے۔ بس اشارے کی دیر ہوتی ہے اور وہ جھپٹ پڑتا ہے۔ یہاں بھی اپریل کی ابتدا میں کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔
حوالہ جات:
- ’منظوم تاریخ افغانستان‘ فارسی میں تحریر کی گئی ’پہلی افغان اینگلو جنگ‘ پر ایک شاندار دستاویز ہے۔ یہ کتاب اہم اس لیے بھی ہے کہ اس کا مصنف ان واقعات کے وقت وہاں موجود تھا۔ اتفاق سے اس کتاب کے نسخے پر مصنف کا نام مل نہ سکا۔ اس نسخے کا اردو ترجمہ شیخ ذوالفقار الدین نے کیا تھا۔ اور یہ اردو ترجمہ اس زمانے (1844ء) کی بمبئی سے نکلنے والے مشہور ہفتہ وار اخبار ’مجمع الاخبار‘ میں کئی اقساط میں شائع ہوا تھا۔ اور بعدازاں میر اشرف علی گلشن آبادی نے اسے ترتیب دے کر کتابی صورت میں شائع کیا۔
- تاریخ افغانستان و سندھ۔ مرتب: میر اشرف علی گلشن آبادی۔1845ء۔ بمبئی
- تاریخ افغانستان (جلد اول)۔ مولانا محمد اسماعیل ریحان۔ المناہل پبلشر۔ کراچی
- ہندوستان کا تاریخی خاکہ۔ کارل مارکس۔ 2002ء۔ تخلیقات پبلیکیشنز۔ لاہور
- افغانستان زوال سے عروج تک۔ سادھن مکرجی۔ 1991ء۔ مکتبہ دانیال۔ کراچی
- Army of The Indus: In the expedition to Afghanistan. By: Major W.Hough. 1841, London.
- The Lure of The Indus. By: L.G Sir George MacMunn. 1933, London.
- A Journal of the Disasters in Afghanstan 1841-42. Lady Sale. London 1843.
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (15) بند ہیں