کیا سعودی پیکج پاکستان کو امریکی کیمپ میں لے جا رہا ہے؟
پنڈی اور اسلام آباد کو پیارے 3 پاکستانی وزیر پچھلے ایک مہینے میں امریکا کے دورے کرچکے ہیں۔ یہ 3 وزیر شاہ محمود قریشی، شوکت ترین اور اسد عمر تھے۔ قریشی صاحب تو اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران اپنے امریکی ہم منصب سے سائڈ لائن ملاقات میں کامیاب رہے تاہم شوکت ترین آئی ایم ایف سے کوئی بریک تھرو کیے بغیر واپس ہولیے۔
اسد عمر کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور ترقی سی پیک کو بھی دیکھتی ہے۔ اسد عمر امریکا میں سی پیک کو مارکیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 22 کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو آبادی کے حساب سے ہی دنیا کے دونوں بڑے ممالک یعنی بھارت اور چین کا ہمسایہ ہے۔ اس موقع پر کوئی امریکی شرارت کرتا تو پاک بھارت پیار کی جانب اشارہ کردیتا، خیر۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی اہمیت ہی ہے کہ کوک، پیپسی، جیلٹ اور پراکٹر اینڈ گیمبل جیسی امریکی کمپنیاں پاکستانی مارکیٹ میں سرگرم ہیں۔ افغانستان کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات پر سیکیورٹی معاملات ہی چھائے رہے ہیں اور اب وقت ہے کہ معاشی امکانات کی طرف بڑھا جائے۔
ایشیا نکئے کی رپورٹ یہ سب بتاتے ہوئے پچھلے سال پاکستان میں ہونے والی 20 کروڑ ڈالر کی براہِ راست امریکی سرمایہ کاری اور ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا ذکر بھی کرتی ہے۔
شوکت ترین امریکا سے سیدھے سعودیہ پہنچے تو وہاں وزیرِاعظم وفد کے ساتھ پاک بھارت میچ دیکھتے پائے گئے۔ یہ دورہ سعودی ولی عہد کے میگی یعنی مڈل ایسٹ گرین انی شیئٹیو پروگرام سے متعلق کانفرنس کے حوالے سے تھا۔ یہ شو جو کچھ بھی تھا سعودی مفادات کے حوالے سے تھا۔ پاکستانی وفد ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تھا اور کسی بریک تھرو کا بظاہر کوئی امکان موجود نہیں تھا۔
دورے کے اختتام کے ساتھ ہی 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کا معاشی سپورٹ پیکج ملنے کی خبر آگئی۔ 3 ارب ڈالر پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں پارک کیے جانے کے علاوہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے تیل کی سہولت بھی مؤخر ادائیگی پر حاصل ہوگئی۔ یہ سب بہت ہی بروقت تھا، اس خبر کے ساتھ ہی ڈالر کا ریٹ کم ہوا اور ہمارے روپے کو بھی سکھ کا ایک سانس آیا۔
یہاں یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ سعودی پہلے بھی اسی حکومت کو 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں پارکنگ کے لیے دے چکے ہیں۔ پھر انہوں نے 2 ارب ڈالر واپس مانگ لیے تھے جو ہم نے چین سے لے کر دیے تھے۔ اس وقت بھی وہی صورتحال ہے چین کے سرمایہ کاروں اور پاور کمپنیوں کو پاکستان نے فوری طور پر ایک ارب 40 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں۔ خیر ہم کہیں دوڑے تھوڑی جاتے ہیں، دے دیں گے پیسے۔ پہلے چین سے لے کر سعودیوں کو دیے تھے تو اب سعودیوں نے دیے ہیں تو چینیوں کا کوئی چارہ کرلیں گے۔
پاکستان ہاکی جب عروج پر تھی تب ہم 5 فارورڈ کے ساتھ اٹیکنگ ہاکی کھیلا کرتے تھے۔ ایک وقت میں لیفٹ آؤٹ اور رائٹ آؤٹ سمیع اللہ اور کلیم اللہ دو اسٹار بھائی تھے۔ سینٹر فارورڈ زیادہ تر گول رائٹ سائیڈ سے پاس ملنے پر کیا کرتا تھا۔ اس وقت میچ دلچسپ اور کمنٹری مزیدار ہوجاتی تھی جب کلیم اللہ سمیع اللہ آپس میں پاس دینا شروع کردیتے تھے۔ کمنٹریٹر سمیع اللہ سے کلیم اللہ، کلیم اللہ سے سمیع اللہ گانے لگ جاتا تھا۔ سینٹر فارورڈ گول کرنے سے رہ جاتا تھا۔
سعودی اور چینیوں یعنی اپنے دونوں برادر دوست ملکوں کے ساتھ ہم نے ہاکی ہی شروع کر رکھی ہے اور اگر ہم سینٹر فاروڈ ہیں تو گول کر ہی نہیں پا رہے۔
جب پی ٹی آئی نئی نئی اقتدار میں آئی تھی تب وزیر اطلاعات فواد چودھری نے گوادر میں سعودی آئل ریفائنری کی خوش خبری سنا دی تھی۔ جس کے ساتھ سعودی عرب کو سی پیک کا تیسرا پارٹنر بتا دیا تھا۔ احسن اقبال نے اس بیان کے ساتھ ہی فوری ٹویٹ کی کیا چینیوں سے پوچھا ہے؟ ان کے ساتھ دو طرفہ معاہدہ ہے اور اس میں تیسرا فریق ان کی مرضی بغیر کیسے آسکے گا۔ چینی سفیر نے بھی بے تابی اور بے چینی ظاہر کرتی ٹویٹ کردی تھیں۔
فواد چودھری کچھ عرصہ بعد وزارتِ اطلاعات سے تبدیل ہوئے تو اس کے پیچھے شاید یہ وجہ بھی رہی ہوگی۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ چینی سفیر نے سعودی سرمایہ کاری کو ویلکم کیا۔ سعودی وزیرِ خارجہ سے چینی وزیرِ خارجہ کی ملاقات ہوئی، سی پیک اور بیلٹ روڈ منصوبے یعنی بی آر آئی کی تعریف کرتا ایک بیان آیا۔ ایرانی سفیر ہنر دوست نے بھی اس سرمایہ کاری کو ویلکم کیا تھا۔
ایرانی سفیر کا بیان اس لیے بھی اہم تھا کہ ایران سے چند کلومیٹر دُور ان کا روایتی حریف سعودی عرب اربوں ڈالر کی آئل ریفائنری لگانے جا رہا تھا۔ اتنے اچھے اچھے بیانات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ آئل ریفائنری اب تکمیل کے قریب ہوتی۔ لیکن ہوا یہ کہ سعودیوں نے گوادر کے بجائے رفائنری کراچی میں لگانے کا اعلان کردیا۔
اس سے ایک شرارت سا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ایرانی گوادر کے پاس جی آیاں نوں کہہ کر ویلکم کر رہے تھے اور سعودی یہ بات سمجھ گئے۔ چینیوں کو شاید یہی خدشہ تھا کہ اتنا آمنے سامنے بیٹھ کر یہ اظہارِ محبت کیے بغیر کیسے رہیں گے؟
سعودی ریفائنری کراچی شفٹ ہونے کی خبر آئی تو ساتھ ہی کراچی میں ساڑھے 3 ارب ڈالر کے ساتھ ایک نئے سی پیک پراجیکٹ کا ایم او یو سائن ہونے کی خبر بھی آئی۔ اس خبر میں خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ چین ممکنہ طور پر گوادر کے جلدی فنکشنل ہونے سے مایوس ہوکر ترجیحات بدل رہا ہے۔
اسد عمر نے اس حوالے سے ایشیا نکئے ہی کو بتایا کہ ’یہ بات یہاں تک تو درست ہے کہ کراچی کی اہمیت زیادہ ہے۔ سرمایہ کار وہاں متوجہ ہو رہے لیکن یہ گوادر کی قیمت پر نہیں ہو رہا۔ گوادر میں ہم ترقیاتی کاموں کی رفتار مزید تیز کر رہے ہیں‘۔
بندہ پوچھے کہ اگر اتنی ہی تیز کر رہے ہیں تو لوگ وہاں سے کراچی کیوں جا رہے۔
سعودی عرب کے ساتھ ہمارے وزیرِاعظم کا ایک لَو ہیٹ سا تعلق چلتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہاں سے انہیں مدد مل بھی جاتی ہے اور واپس بھی مانگ لی جاتے ہے۔ جہاز ملتا ہے اس سے اتارے بھی جاتے ہیں۔ ہم سعودیہ سے جپھی ڈال کر ملائیشیا، ترکی اور ایران کے ساتھ کھڑے بھی ہوتے ہیں اور لڑکھڑاتے ہوئے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ کشمیر پر ہمیں کوئی لفٹ نہیں ملتی۔ اب پھر پیکج مل گیا ہے۔ ہم نے پھر چینیوں کو ایک ادائیگی کرنی ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بریک تھرو نہیں ہوا۔
شوکت ترین امریکا سے سعودیہ پہنچے اور پیکج مل گیا۔ اسد عمر امریکا میں سی پیک کو ہی مارکیٹ کرتے رہے۔ سی این این ایک رپورٹ چلا چکا ہے کہ امریکا پاکستان مذاکرات چل رہے ہیں اور پاکستان معاشی پیکج چاہ رہا ہے۔ اس رپورٹ کی تو ہماری وزارت خارجہ تصدیق نما تردید کرچکی ہے۔ ہماری تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہم جب امریکا کے نزدیک ہوتے ہیں تو سعودی ہمیں معاشی ریلیف فراہم کرتے ہیں۔
اچھا تحریر مکمل ہوگئی مگر شرارت اس میں کوئی کی ہی نہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ہمیں وزیرِاعظم صاحب بتاتے رہتے ہیں کہ ہماری اپوزیشن نہایت کرپٹ ہے۔ چلیں وہ کہتے ہیں تو ہم مان لیتے ہیں۔ اس حکومت میں اپوزیشن کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، مگر مجال ہے کہ انہیں غصہ آیا ہو یا انہوں نے اٹھ کر حکومت کو ٹکر ماری ہو؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ قرضوں میں ڈوبی حکومت لے کر کوئی کیا کرے گا؟
لیکن کیا معاشی ریلیف کے امکانات روشن ہونے کے بعد بھی یہ ایسے ہی مست سوتے رہیں گے، وہ بھی تب جب امریکی ناظم الامور کی نصیحتیں لائیو ٹی وی پر چل چکی ہوں؟
تبصرے (8) بند ہیں