• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

خیبر پختونخوا اسمبلی کے جولائی سے جاری اجلاس پر عملے کو لاکھوں روپے اعزازیے کی ادائیگی

شائع December 18, 2021
پانچ ماہ میں صرف 22 روز اسمبلی کا طویل اجلاس ہوا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
پانچ ماہ میں صرف 22 روز اسمبلی کا طویل اجلاس ہوا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

خیبرپختونخوا اسمبلی پانچ ماہ سے جاری طویل اجلاس کے باعث اپنے عملے کے 500 سے زائد اراکین کو ماہانہ 60 لاکھ روپے اعزازیہ ادا کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں اسپیکر اسمبلی سمیت ایوان کے دونوں جانب کے قانون ساز لاعلم ہیں اور طویل دورانیہ کے اجلاس کی وجوہات بھی کوئی نہیں جانتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلی کا اجلاس 29 جولائی کو طلب کیا گیا تھا جو اب تک جاری ہے اور اسمبلی کی تاریخ کا طویل ترین پارلیمانی اجلاس بن رہا ہے۔

ذرائع کاکہنا ہے کہ اسمبلی سیکریٹریٹ کے 500 سے زائد ملازمین کو ایک بنیادی تنخواہ اضافی ادا کی جارہی ہے، اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے نوٹیفکیشن کے مطابق ایوان کااجلاس ہونے پر یہ رقم اعزازی طور پر دی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا اسمبلی نے 2 سال میں سب سے زیادہ بل پاس کیے، رپورٹ

ایک عہدیدار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا کہ اس مد میں ماہانہ 60 لاکھ روپے سے زائد کی رقم ادا کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس ملتوی ہونے تک صوبائی اسمبلی کے تمام عملے کو ’سیشن الاؤنس‘ ملتا ہے جو ان کی ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ایک بنیادی تنخواہ کے برابر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ’ سیکریٹریٹ کے عملےکو سیشن الاؤنس کی ادائیگی کے علاوہ اس سے منسلک تمام ڈائریکٹوریٹ اور دیگر شعبہ جات کے ملازمین بھی اجلاس میں شرکت کے لیے ٹرانسپورٹ اور یومیہ الاؤنس کا تقاضہ کرتے ہیں جس سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے۔

معنی خیز بات یہ ہے کہ قانون ساز اور متعلقہ افسران اس حوالے سے لاعلم ہیں کہ حکومت نے انتے طویل عرصے سے اسمبلی کا اجلاس کیوں جاری رکھا ہوا ہے، بلکہ ایوان کے سربراہ اسپیکر مشتاق احمد غنی بھی 5 ماہ طویل اجلاس کی وجوہات اور حکومتی ارادے کے بارے میں نہیں جانتے۔

اسپیکر صوبائی اسمبلی کے پریس سیکریٹری راجا عثمان کا کہنا ہے کہ’ اسپیکر وجوہات سے لاعلم ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود سندھ اسمبلی میں بلدیاتی ترمیمی بل منظور

انہوں نے کہا جب حکومت اجلاس طلب کرتی ہے تو اسپیکر اسے ختم نہیں کرسکتے وہ صرف اجلاس ملتوی کرسکتے ہیں۔

اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ ماہ سے جاری طویل سیشن کے دوران صرف 22 روز ایوان میں اجلاس ہوا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک رجحان بن گیا ہے کہ 15 سے 20 روز کے لیے ملتوی کرنے کے لیے 2روز اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔

تاہم جب بھی اجلاس ہوتا ہے تو حکومت اور اپوزیشن دونوں اراکین کی جانب سے عدم دلچسپی کے باعث اجلاس کی کارروائی متاثر رہتی ہے۔

قبل ازیں پورے موسم گرما کے سیشن کے دوران اسپیکر مشتاق غنی بیوکریسی، وزرا اور خزانہ بینچز کی حاضری بہتر کرنے کے لیے جدوجہد کر تے رہے۔

گزشتہ ماہ اراکین اسمبلی کی کم حاضری سے خفا اسپیکر مشتاق غنی نے تنبیہ کی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وجوہات سے مطلع کیے بغیر ایوان سے 6 روز سے زائد غیر حاضر رہنے والے قانون سازوں کو نوٹس جاری کردیں گے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا 2018 کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کا اعلان

اس سے قبل مشتاق غنی نے اراکین اسمبلی کی حاضری چیک کرنے کے لیے بائیو میٹرک سسٹم لگانے کا اشارہ دیا تھا۔

صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن رہنما اکرام خان درانی نے بھی اجلاس کو طول دینے اور اراکین اور بیوروکریسی کی عدم دلچسپی سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا ۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عہدیدار نے بتایا کہ اسپیکر غیر حاضری پر اراکین کو زبانی دھمکیاں دینے کے بجائے اسمبلی سیکریٹریٹ کو انہیں تنخواہوں کی وصولی سے روکنے کی ہدایت کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اراکین کی تنخواہوں اور مراعات ایکٹ‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ’ اگرکوئی رکن حلف برداری کے بعد ایک ماہ میں ہونے والے 3 تہائی اجلاسوں میں شرکت نہ کرے تو وہ اس ماہ کی تنخواہ لینے کا حقدار نہیں ہوگا‘۔

سنجیدگی نہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس 21 دسمبر کو ہونا تھا لیکن اسمبلی سیکریٹریٹ نے اس کی تاریخ تبدیل کر کے27 دسمبر کا نوٹفیکیشن جاری کردیا جبکہ نوٹیفیکیشن میں تاریخ کی تبدیلی کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں قانون سازی پر حکومت کو دو مرتبہ ناکامی کا سامنا

اپوزیشن جماعت متحدہ مجلس عمل کے رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے جس میں حکومت کو اتنے طویل عرسے تک اجلاس جاری رکھنے سے روکا گیا ہو۔

انہوں نے کہاکہ ’ بغیر کسی خاص ایجنڈے کے مہنیوں تک سیشن جاری رکھنا چلانا پارلیمانی روایات کے خلاف ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے پاس واضح اکثریت ہے وہ جب ضروری سمجھے اجلاس بلاسکتی ہے، بجائے اس کے کہ سیشن کو پانچ ماہ تک طول دی جائے۔

اس معاملے پر وزیر برائے پارلیمانی امور شوکت یوسفزئی نے ڈان کی جانب سے درخواست کے باوجود کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024