• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سالنامہ: ماحولیاتی اعتبار سے پاکستان ایک عالمی رہنما کے طور پر سامنے آیا

ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے کاموں کو مشعلِ راہ سمجھا جارہا ہے یوں ایک ترقی پذیر ملک عالمی رہنما کے طور پر صفِ اول میں کھڑا ہے۔
شائع December 21, 2021 اپ ڈیٹ December 22, 2021

میری صراحی سے قطرہ قطرہ مئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ۔۔۔

وقت کی مالا پر سال کی گرہ اس تیزی سے لگ رہی ہے کہ نظر ٹھہر بھی نہیں پارہی، ابھی سال شروع ہوا ہی تھا اور اب 2021ء کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔ نیا سال دروازے پر دستک دے رہا ہے اور زندگی نئی کروٹ لے رہی ہے۔ کورونا وبا کے منحوس سائے چھٹ رہے ہیں اور حیات کے رنگ پھر سے نکھر رہے ہیں۔

سال کا آخری مہینہ دسمبر جدائی، ہجر اور فراق کی علامت بن کر آتا ہے، سوشل میڈیا غمزدہ شاعری سے پٹا پڑتا ہے مگر یہ ماہ ماحول دوستوں کے لیے امید اور آس لیے ایک نئے ڈھب سے طلوع ہوتا ہے۔

ہر نظر اس عالمی سربراہی کانفرنس پر ٹھہر جاتی ہے جہاں دنیا بھر کے لیڈر ماحول کے حوالے سے جائزہ لینے اور فیصلے کرنے کے لیے کسی ایک ملک میں جمع ہوتے ہیں۔ اس تقریب کو کانفرنس آف پارٹیز یا کوپ (COP26) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سال اس سلسلے کی 26ویں کانفرنس اسکاٹ لینڈ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا، اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس سال کا ایک عمومی جائزہ درج ذیل ہے۔

کانفرنس آف پارٹیز یا کوپ (COP26) کے سلسلے کی 26ویں کانفرنس اسکاٹ لینڈ میں منعقد ہوئی—رائٹرز
کانفرنس آف پارٹیز یا کوپ (COP26) کے سلسلے کی 26ویں کانفرنس اسکاٹ لینڈ میں منعقد ہوئی—رائٹرز

ماحول کے حوالے سے اگر 2021ء کا جائزہ لیا جائے تو منظرنامہ خاصا خوش آئند نظر آتا ہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود پاکستان اپنے ماحول دوست اقدامات کی بدولت عالمی منظرنامے میں ایک رہنما بن کر ابھرا ہے۔ اس سال ہر بین الاقوامی تقریب یا اجلاس میں پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کو سراہا گیا اور اس سال پاکستان کو ماحولیات کے عالمی دن کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

ہر طبقہ فکر میں اسے پاکستان کے لیے ایک تاریخ ساز دن سمجھا گیا کہ عالمی یومِ ماحول کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔

یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ دنیا بھر میں عالمی یومِ ماحول 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ 1974ء میں پہلی بار اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے یومِ ماحول کو 'صرف ایک ہی کرہ ارض' (Only One Earth) کے عنوان سے منایا گیا۔

اس سال کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ 2021 کے یومِ ماحول کا عنوان 'ماحولیاتی نظاموں کی بحالی' (Ecosystem restoration) تھا اور اسی دن اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی جانب سے اگلے 10 سالوں کو 'ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی' (Decade on Ecosystem Restoration 2021 – 2030) بھی قرار دیا گیا جس کے تحت اس پوری دہائی میں کرہ ارض پر موجود مختلف ماحولیاتی نظاموں کی بحالی کے لیے کام کیا جائے گا اور امید کی جارہی ہے کہ فطرت اور انسان کا رشتہ جو گزشتہ صدی میں خاصا کمزور پڑگیا تھا وہ ازسرِ نو مضبوط اور پائیدار ہوسکے گا۔

5 جون کو ماحول کا یہ عالمی دن پورے ملک میں جوش و خروش سے منایا گیا، اس سلسلے کی تقریبات کا آغاز وزیرِاعظم عمران خان نے اسلام آباد میں مرگلہ پہاڑوں میں مکھنیال نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب واقع ایک جنگل میں پودا لگا کر کیا تھا۔ یہ وہ 'ایک ارب واں' پودا تھا جس کے لگتے ہی پاکستان نے اپنے 'ٹین بلین سونامی منصوبے' کے پہلے ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا ہدف حاصل کرلیا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی جگہ پچھلی حکومت کے ایک ارب درختوں کے منصوبے کا پہلا پودا لگایا گیا تھا۔ وزیرِاعظم کے خصوصی مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اور عمائدین شہر بھی وزیرِاعظم کے ہمراہ تھے۔

ایک ارب واں پودا لگتے ہی پاکستان نے اپنے 'ٹین بلین سونامی منصوبے' کے پہلے ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا ہدف حاصل کرلیا—پی آئی ڈی
ایک ارب واں پودا لگتے ہی پاکستان نے اپنے 'ٹین بلین سونامی منصوبے' کے پہلے ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا ہدف حاصل کرلیا—پی آئی ڈی

بلین ٹری سونامی، ایک ارب یا دس ارب درختوں کی شجرکاری منصوبے کے حوالے سے تنقید بھی ہوتی رہتی ہے مگر اس کے باوجود اس منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل رہی ہے۔ آج جب پاکستان کے 2 بڑے شہر کراچی اور لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے مسلسل عالمی ایئر انڈیکس میں ٹاپ ٹین میں موجود ہیں تو ایسے میں شجرکاری اور درختوں کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

عالمی وبا کے دوران جب غریبوں کو دو وقت روٹی کے لالے پڑگئے تھے اس وقت یہ منصوبے ان کا چولہا جلانے کا سبب بھی بن گئے۔ خیبرپختونخوا اور صوبہ سندھ کے کچھ حصوں میں بلین ٹری سونامی منصوبے کے لیے خواتین کو نرسریاں بنانے کے لیے چھوٹے پیمانے پر سرمایہ فراہم کیا گیا ہے۔ بعدازاں یہ پودے حکومت ہی خرید لیتی ہے۔ یوں نہایت خاموشی سے روزگار کا ایک نیا اور غیر روایتی ذریعہ پروان چڑھ رہا ہے، گویا چھوٹے پیمانے پر ایک معاشی انجن سے ہزاروں خواتین کے گھروں کا چولہا جل رہا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت نرسریوں میں 3 کروڑ پودے تیار ہیں جنہیں آنے والے چند مہینوں میں لگا دیا جائے گا۔ ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ ’ہم نے وبا کے اس دور میں بیروزگار دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے 85 ہزار نوکریاں پیدا کیں۔ یہ 'جنگل ورکرز' کے طور پر شجرکاری میں ہمارا ہاتھ بٹا رہے ہیں اور عزت سے روزی کما رہے ہیں۔ ہم اس مصیبت کی گھڑی میں بہت سے لوگوں کے لیے امید کی کرن بن گئے۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے کاموں کو مشعلِ راہ سمجھا جارہا ہے اور اس طرح ایک ترقی پذیر ملک آج عالمی رہنما کے طور پر صفِ اول میں کھڑا ہے‘۔

سبز سفارت کاری

شجرکاری کے ان منصوبوں کو ملک امین اسلم 'گرین ڈپلومیسی' کا نام دیتے ہیں، اور درختوں کو پاکستان کا گرین ڈپلومیٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان درختوں نے بہت سے بند دروازے کھولے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کچھ عرصے کے لیے سرد مہری کا شکار تھے تو سعودی عرب کے بلین ٹری منصوبے کے آغاز پر وزیرِاعظم کو بھی دعوت دی گئی، ہم وہاں گئے اور پھر سب کچھ پہلے کی طرح ہوگیا۔ کچھ مہینے پہلے ہونے والی کلائمیٹ سمٹ میں امریکا نے ابتدا میں ہمیں دعوت نہیں دی تھی مگر ظاہر ہے ہمارے کام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا تو ہمیں دعوت دینی ہی پڑی۔ سعودی عرب کے بعد برطانیہ اور نیوزی لینڈ بھی ایسے ہی منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔

نیشنل پارک اور روزگار کے ہزاروں مواقع

حکومتِ پاکستان کے دیگر قابلِ ستائش اقدامات میں ملک میں نئے محفوظ علاقوں کا قیام ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اس وقت پاکستان میں جنگلی حیات کی حفاظت اور انہیں فطری ماحول میں پھلنے پھولنے کے لیے اب تک 398 علاقے محفوظ قرار دیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 31 کو نیشنل پارک قرار دیا گیا ہے جبکہ مزید 15 نیشنل پارک کے قیام پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس طرح ان محفوظ علاقوں کا رقبہ 2023ء تک پاکستان کے کل رقبے کے 15 فیصد کے برابر ہوجائے گا۔

مزید پڑھیے: نیشنل پارک: جس کے دامن میں پھلتی پھولتی حیات ہی اصل سرمایہ ہے!

ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ ’یہ نیشنل پارک بھی بے روزگاروں کے لیے روزگار کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ ان نیشنل پارک کے نظم و نسق کے لیے صوبہ بلوچستان میں ایک نیشنل پارک اکیڈمی بھی قائم کی جارہی ہے جہاں نوجوانوں کو خصوصی تربیت کے بعد نوکری دی جائے گی اور امید ہے کہ اس سے کم از کم 5 ہزار نوجوانوں کو روزگار ملے گا‘۔

قابلِ تجدید توانائی اور کوئلے سے چھٹکارا

حکومت کا ایک اہم فیصلہ کوئلے کے استعمال کا بتدریج خاتمہ ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے کوئلے کی توانائی سے دستبرداری کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور فوری طور پر کوئلے سے بجلی بنانے والے 2600 میگا واٹ کے منصوبے ترک کرکے اس کی جگہ 3700 میگا واٹ پن بجلی (پانی سے تیار کی جانے والی) کے نئے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔

ملک اسلم کا کہنا ہے کہ ’ملک میں اب بجلی کے ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے جن میں شمسی، آبی اور ہوا کی توانائی کو استعمال کرکے بجلی پیدا کی جائے‘۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی ترجیح یہی ہے کہ 2030ء تک مطلوبہ بجلی کا ایک تہائی حصہ بغیر تیل یا کوئلہ جلائے پیدا کیا جاسکے۔

آلودگی سے پاک برقی گاڑیاں

اس سال بھی حکومت کی ترجیح بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا فروغ رہی۔ اس وقت پاکستان کے بڑے شہروں میں گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔ خراب ایندھن اور ناقص پرانی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں شہری آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے برقی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے نئی پالیسی میں ڈیوٹی اور ٹیکس برائے نام رکھا ہے۔

برقی گاڑیوں کے مارکیٹ میں آتے ہی انہیں چارج کرنے کے لیے چارجنگ اسٹیشن کی ضرورت ہوگی، اس حوالے سے جرمن کار کمپنی بی ایم ڈبلیو نے اپنا چارجنگ اسٹیشن اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں قائم کیا ہے جبکہ کراچی میں شیل اور کے الیکٹرک کی شراکت سے 3 چارجنگ اسٹیشن ڈیفنس، گلشن اقبال اور گڈاپ کے علاقوں میں قائم کیے جارہے ہیں۔

اس فائل فوٹو میں اسلام آباد میں واقع پاکستان کا پہلا چارجنگ اسٹیشن دیکھا جاسکتا ہے—تصویر بشکریہ Xinhua
اس فائل فوٹو میں اسلام آباد میں واقع پاکستان کا پہلا چارجنگ اسٹیشن دیکھا جاسکتا ہے—تصویر بشکریہ Xinhua

سیراب پاکستان

ملک امین اسلم کی نظر میں اس سال کا ایک اہم اقدام 'ری چارج پاکستان پروگرام' ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مشکلات سے مثبت راہ نکال رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا شمار آبی قلت والے ممالک میں کیا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا تقریباً 30 سے 35 ایم اے ایف پانی ہر سال ضائع ہوجاتا ہے۔ صرف 100دن سال میں ایسے ہوتے ہیں جب شمال میں گلیشئرز پگھل رہے ہوتے ہیں اور جنوب میں مون سون کی بارشیں ہورہی ہوتی ہیں تو دونوں جانب سے پانی دریائے سندھ میں آتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات موجود نہیں ہیں لیکن اب ہم نے اس پانی کو قدرتی طریقے سے محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ دریائے سندھ کے اطراف 14، 15 آب گاہیں ہیں وہاں یہ پانی جمع کیا جائے گا۔ اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوگی۔ اس کا ایک پورا نظام بنایا جائے گا، اس شعبے میں بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے‘۔

ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں کی معافی، کیا ایسا ممکن ہے؟

پاکستان نے ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں کی معافی (Debt for Nature Swap) کا جو منصوبہ بنایا ہے اسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے اور اس ضمن میں کئی ممالک سے معاملات طے ہوچکے ہیں ہے۔ ماحولیات کے شعبے میں پاکستان کی کارکردگی کے پیش نظر اس نئی اسکیم کو عالمی ممالک ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں جس سے آنے والے وقت میں معیشت میں یقیناً مزید بہتری آئے گی۔

اس کے علاوہ پاکستان نے 5 جون کو عالمی مارکیٹ میں 10 سالہ مدت کے لیے 50 کروڑ یورو کے گرین بانڈز بھی فروخت کے لیے پیش کیے۔ عالمی سطح پر اس کا بہت مثبت ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ان گرین بانڈز سے حاصل ہونے والی رقم گرین انرجی یعنی ہائیڈرو پاور کے شعبے میں استعمال کی جائے گی۔ پاکستان نے فی الحال 50 کروڑ یورو کے بانڈز جاری کیے ہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس کے 4 گنا یعنی 2 ارب یورو تک کی آفر ہوچکی ہے۔

کیا عالمی ماحولیاتی کانفرنس ناکام رہی؟

اس کا جواب اثبات میں ہے۔ دنیا اس وقت بدلتے موسموں کے حوالے سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور سائنسدانوں کے مطابق آئندہ 10سال ایسے ہیں کہ اگر دنیا سیدھے راستے پر یعنی ماحول کو تباہ کرنے سے صرف باز ہی آجائے تو اسے کامیابی سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ شاید واپسی کا سفر شروع ہوجائے۔

اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 'درجہ حرارت 1.5 سے آگے بڑھنے نہ دیا جائے'۔ لیکن یہ مکالمہ تو اب کہیں دُور رہ گیا ہے کیونکہ اب تو دنیا 2.7 سینٹی گریڈ گرم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔

دنیا 19صدی کے اختتام پر جتنی گرم تھی اب اس سے کہیں زیادہ ہے اور دنیا کے ہر خطے میں موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں آفات سے تباہی جاری ہے۔ کوپ 26 کا بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ مضر گیسوں کے اخراج کو 2050ء تک 'نیٹ زیرو' تک پہنچا دیا جائے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک اس پر متفق نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ کوپ کے مقاصد میں ترقی پذیر غریب ممالک کے لیے 100 ارب ڈالرز کے کلائمیٹ فنڈ کا قیام بھی شامل تھا لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

مزید پڑھیے: ماحولیات پر ہونے والا اجلاس احمقانہ کوشش سے کم کیوں نہیں؟

ایکشن ایڈ انٹرنیشنل کی کلائمیٹ پالیسی کوآرڈینٹر ٹرینر اینڈرسن نے کُھل کر کوپ اور شریک ممالک پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کوپ 26 نے ان لاکھوں افراد کے جذبات مجروح کیے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘۔

نئے سال کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور ہماری دعا ہے دنیا کورونا کے خطرے سے آزاد ہوکر ایک بہتر ماحول اور ایک صحت مند کرہ ارض کی جانب بڑھ سکے۔


شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔