2 – جب پاکستان بدل گیا

یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں
سنہ 1979 ایک فیصلہ کن سال تھا- اگر کسی کو ایک سال کا انتخاب کرنا پڑے جس میں پاکستان کی سیاست اور ثقافت کا جھکاؤ مذہبی ذہنی خلل کی طرف ہوا، تو وہ یقیناً سنہ 1979 کو ہی چنے گا-
اس فیصلہ کن سال کا آغاز، سنہ 1977 میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ان کے اپنے منتخبہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت سے ہوا-
جولائی 1979 میں امریکی ادارے 'نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن' (ناسا) نے اس بات کا اعلان کیا کہ سنہ 1973 سے زمین کے مدار پر موجود سکائی لیب سیٹلائٹ میں فنی خرابی کے باعث، اس کے زمین پر گرنے کا خدشہ ہے-
ناسا کو اس بات کا صحیح اندازہ نہ تھا کہ یہ سیٹلائٹ کہاں گرے گی لیکن ماہرین کا خیال تھا کہ یہ سیٹلائٹ یا تو آسٹریلیا میں گرے گی یا پھر برصغیر میں گرے گی-
حالانکہ ماہرین نے یہ بھی کہا تھا کہ جیسے ہی سیٹلائٹ زمین کی فضا میں داخل ہوگی جلنا شروع ہو جاۓ گی، اور عین ممکن ہے کہ یہ سمندر میں جا گرے- لیکن پاکستان میں اس کہانی نے ایک نیا ہی رنگ اختیار کر لیا-
ریاستی ملکیت، پی ٹی وی نے سکائی لیب کے تازہ جاۓ وقوع کے بارے میں باقاعدہ بلیٹن جاری کرنا شروع کر دیے- جنہیں زیادہ تر اظہر لودھی سناتے تھے- اظہر لودھی، وہ نیوز کاسٹر تھے جو ضیاء الحق کے زمانے میں پی ٹی وی پر نمایاں طور پر موجود رہے-
لودھی نے بلیٹن کے دوران سنجیدہ لہجہ اختیار رکھا، اور پھر بلیٹن کے بیچ میں اتنے ہی افسردہ لہجے میں دعاؤں کی درخواست شروع کر دی-
اچانک بہت سے ایسے پاکستانی جنہوں نے اس معاملے کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی وہ بھی پی ٹی وی اور خبر نگاروں سے اس واقعہ کے بارے میں گفتگو کے دوران اشاروں کنایوں میں روز قیامت کی باتیں کرنے لگے- بہت سے تو یہ تک سوچنے لگے کہ کہیں پاکستان پر سکائی لیب کا گرنا، الله کے روز محشر کا آغاز تو نہیں؟
پاکستانی سوسائٹی میں ہلکی سی مگر قدرے شدید خوف اور ہیبت کی لہر دوڑ گئی- لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے فوجی حکومت اس موقع کو جان بوجھ کر، لودھی کے گمبھیر لہجے میں دعاؤں کی اپیلوں کے ذریعہ عوام کے ذہنوں میں خوف بٹھانے کے لئے استعمال کر رہی ہے، شاید وہ اس آزمائشی وقت میں لوگوں کو یہ جتانا چاہتے تھے کہ پاکستان کو ایک 'پرہیزگار' حکمران کی ضرورت ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں پاکستانی، صوفیوں کے مزاروں پر، مسجدوں سے زیادہ جانے لگے- اس میں ایسی مڈل کلاس شامل تھی جو مسجدوں میں صرف خاص موقعوں پر ہی جایا کرتی تھی-
بہرحال، جیسے جیسے ضیاء الحق کے اسلامی قوانین رائج ہوتے گۓ، پی ٹی وی نے بھی اپنی ٹرانسمیشن میں اسلامی پروگراموں کی تعداد دگنی کردی. ساتھ ساتھ لودھی ڈرامائی انداز میں یہ اعلان فرماتے رہے کہ سکائی لیب کے گرنے کا وقت قریب ہے چنانچہ بہت سے نوجوان مڈل کلاس پاکستانیوں نے مسجدوں کا رخ کرنا شروع کر دیا-
لودھی اکثر اسپیشل بلیٹن کے بیچ نمودار ہوتے اور ایک گمبھیر، افسوسناک تاثر کے ساتھ فرماتے "ناظرین، ناسا رپورٹ کے مطابق، سکائی لیب ایشیا میں داخل ہو چکی ہے- آپ سے گزارش ہے کہ اپنی مسجدوں میں جا کر پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کریں اور الله سے توبہ کریں- آپ کو ہم سکائی لیب کے متعلق آگاہ کرتے رہیں گے"-
حالانکہ ابتدائی کچھ دنوں تک، پی ٹی وی نے لئیق احمد کو مدعو کیا جو سنہ 1970 کے اوائل میں چینل کے سائنسی پروگراموں کی میزبانی کرتے تھے، تاکہ وہ سکائی لیب کے گرنے کی وضاحت کر سکیں، لیکن جیسے جیسے خلائی سٹیشن کے گرنے کے حوالے سے دلچسپی بڑھتی گئی، ان کی جگہ مذہبی مبلغوں نے لے لی جھون نے فوراً ہی یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ یہ پاکستانیوں کے لئے الله کی طرف سے تنبیہ ہے-
پاکستانیوں نے پہلے کبھی بھی ایک مذہبی شخصیت کو غیر مذہبی امور یا معاملات پر بات کرتے نا ہی دیکھا تھا نا سنا تھا- لیکن جلد ہی، یہ ایک معمول بن گیا جو آج تک جاری ہے- حد یہ کہ جدید نجی چینل بھی اسلامی علما کو زلزلوں، سیلابوں اور سونامیوں جیسے واقعات پر اظہار خیال کے لئے مدعو کرنے سے باز نہیں رہ پاتے-
آخرکار سکائی لیب گر گیا (12 جولائی، سنہ 1979)، مغربی آسٹریلیا کے صحراؤں اور سمندر میں، اور وہ روز محشر جسکا خوف لوگوں کو تھا نہیں آیا- یہ بات بہت جلد بھلا دی گئی-
یہ واقعہ بہت جلد لوگوں کی یاداشت میں سے نکل گیا- لیکن پاکستانی سوسائٹی پر اس نے جو آفاقی تباہی کے خدشات چھوڑے تھے وہ باقی رہے- اور یہی وہ ہیبتناک نظریہ تھا (جو سرکاری پروپگنڈے کے ذریعہ رب ذولجلال کی طرف سے تنبیہ بتایا گیا تھا)، ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کے 'اسلامی' داؤ پیچ اور اپیل کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوا-
یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ تھا، پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں
جاری ہے...
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (7) بند ہیں