سندھ ہائیکورٹ کی تشکیل دی گئی کمیٹی کی کرپٹو کرنسی پر پابندی کی سفارش
سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملک میں کرپٹو کرنسی اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کرنے کی سفارش کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ مشترکہ اجلاس میں زیر غور لانے کے لیے اپنی رپورٹ وزارت خزانہ اور قانون کو بھیجے تاکہ حتمی فیصلہ کیا جاسکے کہ آیا پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی اجازت ہے۔
عدالت نے دونوں وزارتوں سے اس بارے میں بھی سفارشات طلب کی ہیں کہ کیا ملک میں کسی بھی شکل میں کرپٹو کرنسی کا کاروبار قانونی طور پر چل سکتا ہے، کیونکہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے مسلسل چھاپوں کا سامنا رہتا ہے جبکہ صارفین اور ڈیلرز کے بینک اکاؤنٹ بھی منجمد کردیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کرپٹو کرنسی کی آڑ میں پاکستانیوں کے ساتھ اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف
بینچ نے مزید وزارتوں کو ہدایت کی کہ وہ 11 اپریل تک اپنی مشترکہ سفارشات داخل کریں اور سیکریٹری یا ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری قانون یا کوئی سینئر اہلکار اگلی سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہوں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر کرپٹو کرنسی کی اجازت دی جائے تو اس طرح کے کاروبار کا ریگولیٹری فریم ورک کیا ہو گا۔
بینچ نے کہا کہ 'ہم نے اندازہ لگایا تھا کہ کمیٹی نے اس کاروبار کے ریگولیشن کے لیے کسی قسم کی سفارش تیار کی ہو گی جو اگر خفیہ ہو تو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت دونوں کے سلسلے میں تشویش پیدا ہوتی ہے'۔
بینچ نے گزشتہ سماعت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ڈپٹی گورنر سیما کامل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی، فنانس ڈویژن، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور درخواست گزار وقار ذکا بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔
یہ کمیٹی اس بات پر غور کرنے کے لیے بنائی گئی تھی کہ آیا آئین کے آرٹیکل 18 کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کسی بھی صورت میں جائز ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرپٹو کرنسی کیس: عدالت نے اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کرلی
سیما کامل نے رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا کہ محتاط رِسک بینیفٹ تجزیے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے خطرات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 'پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا واحد استعمال قیاس آرائی پر مبنی لگتا ہے، یہاں لوگوں کو قلیل مدتی سرمایہ حاصل کرنے کے مقصد کے لیے ایسے سکے میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے'۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں قیمتی زرمبادلہ کی پرواز کے ساتھ ساتھ ملک سے غیر قانونی رقوم کی منتقلی بھی ہو سکتی ہے، اس کے پیش نظر کمیٹی مذکورہ سفارشات سیکریٹری وزارت خزانہ کو کرنا چاہے گی'۔
سندھ ہائی کورٹ کی کمیٹی نے دیگر چند ممالک کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ بھی سفارش کی کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ملک بھر میں بائنانس، اوکٹا ایف ایکس جیسے کرپٹو کرنسی ایکسچینجز کے آپریشن پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں روکنے کے لیے جرمانے عائد کرے۔
مزید پڑھیں: بٹ کوائن کی قیمت میں کمی کا سلسلہ تھم نہ سکا
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین اور ترکی سمیت کئی ممالک نے کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کی ہے، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کئی دیگر ممالک نے اسے اثاثہ جات یا قانونی جائیداد کے طور پر تصور کیا ہے جبکہ روس اور دبئی نے اسے قابل ٹیکس جائیداد سمجھا اور اس کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک متعارف کروایا ہے۔
درخواست گزار نے استدلال کیا کہ کرپٹو کرنسی ڈی سینٹرلائزڈ ڈیجیٹل منی پر مبنی ہے اور سائبر کرائم کے سلسلے میں ریگولیٹنگ سہولیات دستیاب اور تسلیم شدہ ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں بہت سے غیر منظم ادارے ہیں جو غیر قانونی طور پر کرپٹو کرنسی کا کاروبار کر رہے ہیں۔