• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

او آئی سی کا اجلاس پاکستان کے لیے اہم ترین کیوں؟

شائع March 21, 2022
لکھاری پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔
لکھاری پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔

پاکستان 22 سے 23 مارچ کو 48ویں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی کرنے جارہا ہے، اور اس اجلاس کے دوران ہی یومِ پاکستان بھی منایا جائے گا۔

یہ اجلاس او آئی سی کے اصول و مقاصد خاص طور پر مسلم دنیا میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے کر امت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کو نمایاں کرے گا۔

او آئی سی کا قیام اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر حملے کے ردِعمل میں ستمبر 1969ء میں عمل میں آیا۔

چاہے وہ بیرونی قبضے میں دبے فلسطینیوں اور کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا بوسنیا اور میانمار میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا معاملہ یا پھر افغانستان، یمن، شام اور لیبیا میں جنگوں کی روک تھام، پاکستان او آئی سی کے تاسیسی رکن کے طور پر اس کی جانب سے کی گئی کاوشوں میں سب سے آگے رہا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کا ترانہ جاری کردیا گیا

57 رکن ممالک پر مشتمل یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔ پاکستان نے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلاموفوبیا، کورونا وبا اور غربت جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان او آئی سی کو کتنی اہمیت دیتا ہے، اس کا اندازہ پاکستان کی جانب سے او آئی سی کے کئی اجلاسوں کی میزبانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں 1974ء دوسرا او آئی سی سمٹ، 1997ء میں او آئی سی کا دوسرا غیر معمولی اجلاس اور 1970ء، 1980ء، 1993ء اور 2007ء میں ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس شامل ہیں۔

پاکستان او آئی سی کمیشن فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کامسٹیک) اور اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اسلامک ڈیولپمنٹ بینک، انڈیپینڈنٹ پرمننٹ ہیومن رائٹس کمیشن اور آبزرویٹری آن اسلاموفوبیا کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اسلام آباد میں ہونے والا 48واں وزرائے خٓرجہ اجلاس ’پارٹنرنگ فار یونیٹی، جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ‘ [شراکت برائے اتحاد، انصاف و ترقی] کے عنوان سے ہورہا ہے۔ اس اجلاس میں او آئی سی کو درپیش اہم معاملات پر 100 سے زائد قراردادوں پر غور کیا جائے گا۔

اس اجلاس میں پاکستان کا مقصد اتحاد کو فروغ دینا اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل پر یکسوئی پیدا کرنا ہوگا۔ ان مسائل میں تمام مسلمانوں بشمول کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے انصاف کی فراہمی، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ سے متعلق اہداف پر عمل کرتے ہوئے مسلم دنیا میں ترقی اور خوشحالی کے لیے شراکت کو فروغ دینا اور کورونا وبا کے اثرات سے باہر آنے کو یقینی بنانا شامل ہے۔

پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اجلاس 2 وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے، ان میں پہلی وجہ تو کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ادراک اور دوسری اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرات کو مؤثر طریقے سے روکنے کی ضرورت ہے۔

کئی مبصرین کے مطابق او آئی سی خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے توقعات پر پوری نہیں اتر سکی ہے۔ تاہم او آئی سی کے کردار کی حقیقت پسندانہ تشخیص ضروری ہے۔

دیگر کثیر الاقوامی تنظیموں کی طرح او آئی سی کے پاس کسی قسم کی قوت نافذہ نہیں ہے۔ یہ ممالک سے اپنے فیصلوں پر عمل کروانے کے لیے صرف اخلاقی دباؤ اور ترغیب کا ہی سہارا لے سکتی ہے۔ پھر مسلمان ممالک کے پاس اس قسم کی عسکری، سیاسی یا معاشی قوت بھی نہیں ہے کہ وہ دیگر ممالک کو او آئی سی کے تابع کرسکیں۔ اس کے باوجود او آئی سی کو چاہیے کہ باہمی اتحاد کو مضبوط کیا جائے تاکہ یہ عالمی برادری میں ایک خاطر خواہ قوت کے ساتھ کھڑی رہ سکے۔

اسی وجہ سے پاکستان بھی او آئی سی کے رکن ممالک کے مابین یکجہتی پر مسلسل زور دیتا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی مواقعوں پر او آئی سی کے معاملات کو اپنے قومی مفادات پر ترجیح دی ہے۔ اس میں فلسطینیوں کی جدوجہد کی مستقل حمایت اور اس وقت تک اسرائیل کو قبول نہ کرنا شامل ہے جب کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل نہیں نکل جاتا۔

دوسری طرف کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کو قوت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر بتائی گئی وجوہات کے باعث او آئی سی اپنے فیصلے بھارت میں نافذ نہیں کروا سکتی لیکن یہ فیصلے ایک طرح کا اخلاقی دباؤ ضرور ہوتے ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے متعدد قراردادوں کے علاوہ او آئی سی نے ایک کشمیر رابطہ گروپ بھی تشکیل دیا ہے اور بھارت کے ساتھ براہِ راست رابطے استوار کرنے کے ساتھ کئی انکوائری کمیشن بھی تشکیل دیے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف کشمیر میں رائے شماری کے لیے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد بلکہ کشمیریوں پر ظلم و جبر کے فوری خاتمے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

آپ اس اخلاقی دباؤ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بھارت نے 2019ء کے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں خطاب کرنا چاہا، وہ او آئی سی کے ساتھ مستقل رابطے میں بھی رہتا ہے اور او آئی سی کا حصہ بننے کے لیے بے چین بھی ہے۔

پاکستان نے انسدادِ اسلاموفوبیا کے حوالے سے بھی او آئی سی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں او آئی سی گروپ کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے پاکستان نے حضرت محمدﷺ کے خلاف توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد سے ہر سال توہین مذاہب کے خلاف قرارداد منظور کروانے کو یقینی بنایا۔

2011ء میں پاکستان نے اس مسئلہ پر عالمی قبولیت کے حصول اور اس کے مخالف مغربی ممالک کو قائل کرنے کے لیے ایک اہم کام کیا۔ پاکستان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلاموفوبیا کا مقابلے کرنے اور اس حوالے سے ایکشن پلان کے لیے جو قرارداد منظور ہو اس پر سب کا اتفاق ہو، اس ایکشن پلان کو استنبول پراسس کا نام دیا گیا۔

10 برس بعد یہ اتفاق رائے آج بھی قائم ہے اور اتفاق رائے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے کو جرم قرار دینے پر بھی موجود ہے۔ 2018ء میں اقوامِ متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے اسے مزید آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کو مذہبی اور نسلی تعصب کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں روس، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔

مستقبل میں پاکستان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان پہلے ہی کامسٹیک کی میزبانی کرچکا ہے جسے اس شعبے میں اسلام کی ماضی کی شان و شوکت بحالی کا سبب بننا چاہیے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور سول ایٹمی تنصیبات چلانے سے متعلق بہترین ریکارڈ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان دیگر او آئی سی ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے سول استعمال کی تربیت فراہم کرسکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا سول استعمال توانائی، ادویات اور زراعت کے شعبے میں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان 48ویں وزرائے خارجہ اجلاس میں اس نکتے پر بھی بات کرسکتا ہے۔


یہ مضمون 18 مارچ 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضمیر اکرم

لکھاری پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024