• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

عمران کی سیاسی اننگز

سیاست میں عمران خان کا وقت اب ان کے کرکٹ کیریئر سے بھی 5 سال سے زائد ہوچکا ہے۔
شائع March 27, 2022 اپ ڈیٹ March 28, 2022

پاکستان کی سیاسی گفتگو عمران خان کے سیاسی اہمیت حاصل کرنے کے بعد سے کرکٹ کے استعاروں سے بھری پڑی ہے، کپتان، کلین بولڈ، سکسرز، ہٹ وکٹ اور با اختیار قوت کا حوالہ دینے کے لیے ’امپائر کی انگلی‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا۔

سیاست میں عمران خان کا وقت اب ان کے کرکٹ کیریئر سے بھی 5 سال سے زائد ہوچکا ہے، 1996 سے لے کر اب تک سیاست میں 26 سال گزارنے کے باوجود وہ اب بھی اس تجربے کے سائے میں رہتے ہیں جو انہوں نے بطور کرکٹر 1971 اور 1992 کے درمیان 21 سالہ کیریئر میں حاصل کیا۔

سیاست میں ان کے اس مقام تک پہنچنے میں کرکٹ کا کردار اہم ہونے کے تناظر میں یہ مناسب ہوگا کہ عمران خان کی سیاسی اننگز کے متوقع ’ڈیتھ اوورز‘ کا ایک محتاط موازنہ کیا جائے۔

ذیل میں ہم نے کچھ ایسے اہم عوامل کی نشاندہی کی ہے جن کی موجودگی نے 1992 میں کپتان کو ورلڈ کپ جیتنے میں مدد کی اور 2022 میں ان عوامل کی غیر موجودگی نے ان کی حکومت کو درمیانی اننگز کے خاتمے کے دہانے پر پہنچا دیا۔

کپتان کی ٹیم

وزیراعظم عمران خان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اگرچہ وہ ذاتی طور پر ایماندار ہیں لیکن ان کی ماتحت اور ساتھی ٹیم کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔

عمران خان کے مخالفین اور ناقدین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ وزیر اعظم کی ذاتی خصوصیات متاثر کن ہیں لیکن ان کے وزرا اور معاونین ان خصوصیات سے واضح طور پر عاری ہیں، کہا جاتا ہے کہ عمران خان ایسی ٹیم کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہے جس کے ماہر ہونے کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا۔

تاہم 20 سال پہلے ایسا نہیں تھا، 1992 کے عمران خان ایک اسٹار سمجھے جاتے تھے لیکن ٹیم میں بطور کھلاڑی ان کا کردار بہت بنیادی تھی، 8 میچوں میں انہوں نے صرف 7 وکٹیں حاصل کیں اور 185 رنز بنائے جو کہ شاید ہی متاثر کن اعداد و شمار ہوں۔

تاہم انہوں نے جو غیرمعمولی کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ناتجربہ کار ٹیم کو عالمی معیار کے بلے بازوں میں تبدیل کر دیا، بلاشبہ سیمی فائنل اور فائنل میں اہم مراحل پر ان کا کلیدی کردار رہا لیکن ٹورنامنٹ کے بڑے حصے میں عمران خان کو ان کی اپنی ٹیم نے پیچھے چھوڑ دیا۔

جاوید میانداد ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے دوسرے بڑے کھلاڑی تھے جب کہ وسیم اکرم سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر تھے، تاہم عمران خان نے جب بطور وزیراعظم اقتدار سنبھالا تو وہ جاوید میانداد اور وسیم اکرم جیسے سپر اسٹارز سے بھرپور ٹیم نہ بنا سکے۔

سیاست میں شاہ محمود قریشی، عمران خان کے دائیں بازو سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ خود کو عمران خان کے نعم البدل کے طور پر ثابت نہ کرسکے، جاوید میانداد کراچی سے سیدھا ایک اسٹریٹ اسمارٹ ’جگاڑو‘ بنے جبکہ شاہ محمود قریشی ملتان کی حویلیوں سے آئے۔

کہا جاسکتا ہے کہ اگر آج واقعی عمران خان کے پاس جاوید میانداد کا سیاسی متبادل ہوتا تو شاید ان کی حکومت کے متوقع زوال کے اسباب کی پہلے ہی تشخیص کر کے روکا جا سکتا تھا۔

وسیم اکرم پلس

عمران خان کی کابینہ کی ایک مستقل خوبی یہ رہی کہ کچھ بھی مستقل نہیں رہا، آئے روز مخلتف وزرا کے درمیان وزارتیں میوزیکل چیئر بنی رہیں جس کی پاکستان کی سیاست میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

مثال کے طور پر فواد چوہدری، جو کہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواہشمند تھے، انہیں وفاقی وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا، پھر انہیں وزارتِ اطلاعات سے ہٹا کر وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بنادیا گیا لیکن کچھ ہی عرصہ گزر جانے کے بعد ایک پھر ان کی وزارت تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزارت اطلاعات کا عہدہ سونپ دیا گیا۔

وزارتوں کی میوزیکل چیئر کے بیچ صرف چند وزرا ایسے تھے جو اپنے عہدے پر شروع سے لے کر اب تک برقرار رہے، ان ہی میں ایک نام عثمان بزدارکا تھا، یا شاید انہیں وسیم اکرم پلس کہا جانا چاہیے، انہیں یہ لقب کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیر اعظم نے دیا تھا، جو اپنے اس سرپرائز سلیکشن کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی۔

آغاز میں ملک بھر سمیت حقیقی وسیم اکرم نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ ان کا محنت سے بنایا گیا نام ایک نامعلوم سیاسی شخصیت کے ساتھ جوڑا جائے، اس وقت یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ اگر کپتان نے اس اہم ترین کام کے لیے عثمان بزدار کا انتخاب کیا ہے تو ان میں ضرور کوئی خاص بات ہوگی۔

تقریباً 4 سال وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر برقرار رہنے کے باوجود عثمان بزدار سے معتلق بلند و بانگ دعوے اور امیدیں حقیقیت نہ بن سکے،

پنجاب اسمبلی میں ان کے ’ایلن لیمب‘ اور ’کرس لوئس‘ اب بھی انتظار میں ہیں اور اب وہ اتنے حوصلہ مند ہوچکے ہیں کہ کھلے عام عثمان بزدار کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں، وسیم اکرم پلس عمران خان کے لیے 1992 کے وسیم اکرم سے زیادہ 1987 کے سلیم جعفر ثابت ہو رہے ہیں۔

شاید بہتر تھا کہ اگر عمران خان پنجاب میں اس اہم ترین عہدے کے لیے کسی اور کا انتخاب کرنے دیتے کیونکہ بہرحال اصل وسیم اکرم بھی عمران خان کا اپنا انتخاب نہیں تھے بلکہ وہ جاوید میانداد کی دریافت تھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شخص کو خود عمران خان نے 1987 میں چُنا تھا وہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہار گیا تھا، اتفاق سے وہ ہارا ہوا سیمی فائنل بھی لاہور میں ہی ہوا تھا۔

’کارنرڈ ٹائیگر‘

11 مارچ 1992 کو جب پاکستان ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے قریب تھا، عمران خان گرین شرٹ کی بجائے شیر کی تصویر والی شرٹ پہننے پراعتماد انداز میں ٹاس کے لیے آئے۔

ٹاس کے بعد کرکٹ مبصر نےعمران خان سے خاص طور پر یہ ٹی شرٹ پہننے سے متعلق سوال کیا تو عمران خان نے یہ مشہور جملہ کہا تھا کہ ’میں ایلن (آسٹریلوی کپتان) کو یہی بتا رہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستانی کھلاڑی کارنرڈ ٹائیگر کی طرح لڑیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ اس صورتحال میں سب سے زیادہ خطرناک ہے‘۔

کون جانتا تھا کہ اس وقت کی یہ معمولی تمثیل برسوں بعد عمران خان کے سیاسی حکمت عملی میں ایک اہم اصول بن جائے گی، انہوں نے سیاست میں ہمیشہ جارحانہ انداز اپنایا، خاص طور پر جب انہیں کسی سخت صورتحال کا سامنا ہوا یا انہیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جاتی، کارنرڈ ٹائیگر کی طرح عمران خان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اسے کتنے ’غیر جانبدار جانور‘ کا سامنا ہے۔

ان کی ابھرتی سیاسی شخصیت ہمیشہ ایسے وزرا اور مشیروں میں گھری نظر آئی جو ہمیشہ لڑائی کے لیے تیار رہتے، جب بھی لفظی جنگ کی ضرورت پڑی تو فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان اور شہباز گل میں سے کوئی بھی یہ کام بخوبی سرانجام دیتا، یہاں تک کہ نرم مزاج اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے بھی یہ ذمہ داری کئی بار ادا کی۔

تقریباً 4 سال کے دور حکومت میں ناقدین نے عمران خان کے ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ کی ٹیم پر گورننس اور ڈیلیوری پر توجہ دینے کی بجائے طنز و مزاح میں مشغول رہنے کا الزام عائد کی، کچھ مخالفین نے تو ان کی مقامی سیاست سے بیگانگی کی کی وجہ بھی ان کے ناقابل برداشت زہریلے رویوں کو قراردیا۔

لہٰذا عمران خان کی 1992 کی ٹیم کی جانب سے ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ کے رویوں کی مناسب نقالی کیے جانے کے برعکس ان کی 2018 کی ٹیم یہ رویہ اپنانے میں ضرورت سے زیادہ آگے بڑھ گئی، اگر بعض معاملات میں اپوزیشن کو غضبناک چہرہ دکھانے کی بجائے معتدل رویہ اپنایا جاتا تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی۔

قسمت کا کھیل

ایک ’بٹر فلائی ایفیکٹ تھیوری‘ یہ ہے کہ اگر یکم مارچ 1992 کو ایڈیلیڈ میں بارش نہ ہوتی تو 18 اگست 2018 کو عمران خان وزیر اعظم پاکستان نہ ہوتے۔

پاکستان کو محض 74 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد انگلینڈ ایک وکٹ پر 24 رنز بنا کر جیت کی جانب گامزن تھا، یہ وہ لمحہ تھا جب قسمت کی دیوی عمران خان پر مہربان ہوئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ مزید کھیل جاری نہ رہ سکا، پاکستان کو ایک پوائنٹ حاصل ہوا جس نے یقینی شکست سے پاکستان کو بچا لیا اور سیمی فائنل میں پہنچنے میں مدد کی۔

1992 کے پاکستان کو صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ تمام کھیلوں کا خوش قسمت ترین عالمی چیمپئن کہنا غلط نہ ہوگا، یہ وضاحت کرنا کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی ٹیم جو اپنے پہلے 5 میچز میں سے صرف ایک میچ جیس سکی اس نے پورا ٹورنامنٹ جیت لیا؟

بطور وزیراعظم عمران خان پر قسمت کی دیوی اس طرح مہربان نہیں رہی بلکہ تمام عرصے میں کالے بادل چھائے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایک وبائی مرض نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت بھی سست روی کا شکار ہوگئی، اجناس کی سپر سائیکل نے مہنگائی کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا اور روس-یوکرین جنگ نے تیل کی قیمتوں کو قابو سے باہر کر دیا۔

سال 2019 میں تیل اور گیس کی عالمی کمپنیوں کو ملک میں دبے خزانے تلاش کرنے کے لیے بلایا گیا، مگر افسوس کہ اس سے عمران خان کی امیدوں پر پانی پھرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، ریکوڈک مائن سے 5 سے 6 سالوں تک فوائد ملنے کی کوئی امید نہیں ہے اور جب تک عمران خان کے لیے اس سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں شاید بہت دیر ہو چکی ہو۔

چنانچہ 1992 کے عمران خان کا پاکستان قسمت سے ضرور لطف اندوز ہوا لیکن ایسا گمان ہوتا ہے کہ 2018 میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی کالی بلیوں کا ایک جھنڈ ان کا راستہ عبور کر گیا تھا۔

الیکٹیبلز

نوے کی دہائی پاکستان کرکٹ کا اب تک کا سب سے برا دور تھا کیونکہ چھوٹے ڈریسنگ رومز میں بڑے ستاروں کی موجودگی اکثر تصادم کا سبب بنتی تھی لیکن یہ سب کچھ عمران خان کے بعد اور 90 کی دہائی کے وسط میں ہوا۔

جب تک عمران خان وہاں موجود تھے اور انچارج تھے، اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ ان کے علاوہ کوئی اور لیڈر ہو یا کسی کی وفاداری ان کے سوا کسی اور کے ساتھ ہو۔

انہوں نے 1992 میں ایک مشکل محاذ کی قیادت کی اور یہ امر ان کے لیے بڑا فائدہ مند ثابت ہوا کہ ان کی ٹیم میں بیشتر ناتجربہ کار نوجوان کھلاڑی تھے جو رہنمائی کے لیے عمران خان کی جانب ہی دیکھتے تھے، ان میں کئی اختلافات بھی ہوئے اور انا کی جنگیں بھی ہوئیں لیکن 1992 تک وہ سب عمران خان کی قیادت میں متحد تھے۔

تاہم 2018 میں عمران خان کی پارٹی میں کئی ایسے چہرے تھے جو ان کی پارٹی کے منشور اور عمران خان کی طرز سیاست سے بہت کم واقف تھے، ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہیں پرائیویٹ جیٹ کے ذریعے لایا گیا اور نئی حکومت بنانے والی ابھرتی طاقت کا اچانک حصہ بنالیا گیا۔

جیسے ہی عمران خان حکومت کا زوال شروع ہوا تو ان الیکٹیبلز نے ہی سب سے بڑی چھلانگ لگائی لیکن اس کے ذمہ دار صرف وہ نہیں تھے، عمران خان کی یو ٹرن سے بھرپور سیاست بھی اس کی اہم وجہ رہی۔

جب وہ اپنے نظریاتی سیاست سے ہٹ کر روایتی سیاست کی جانب بڑھنے لگے اور باہر کے لوگوں کو جگہ دینے لگے تو ان کی اس حکمت عملی نے ان وفاداروں کو بھی ختم کر دیا جو ان کے ساتھ ہر صورتحال میں ڈٹے ہوئے تھے، رواں ماہ پارٹی سے علیحدگی کا سلسلہ شروع ہوا تو الیکٹیبلز اور وفادار ساتھی دونوں ہی ساتھ چھوڑنے لگے۔

امپائر کی انگلی

عمران خان نے 1992 میں بارش کی بھرپور مدد حاصل کی لیکن اس وقت انہیں یقینی طور پر کسی امپائر کے احسانات کی ضرورت نہیں تھی، درحقیقت انہیں کرکٹ میں غیر جانبدار امپائرنگ کا تصور متعارف کرانے والے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ 1987 کے ورلڈ کپ کے دوران لاہور میں بدترین امپائرنگ کا بھی نشانہ بنے۔

دوسری جانب ان کے سیاسی کیرئیر میں اُن کے ناقدین کا الزام ہے کہ عمران خان کا اعلیٰ عہدے پر پہنچنا ’امپائر‘ کے زبردست دباؤ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

اس امپائر نے عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے آزاد امیدواروں کو گھیرا، ان کے مخالفین کو زیر کیا، یہاں تک کہ آر ٹی ایس کو کریش کرنے میں بھی مدد کی تاکہ انہیں الیکشن جیتنے میں آسانی ہو اور یوں گمان ہوتا ہے کہ عمران خان اور امپائر کی جوڑی نے ساتھ ٹوٹنے تک ساتھ چلنے کی ہرممکن کوشش کی۔

جیسا کہ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی نے فصاحت کی پروا کیے بغیر کھلے لفظوں میں کہا کہ عمران خان کی ’سیاسی نیپی‘ کبھی نہیں اتری، ان کے برے کاموں کو آؤٹ سورس کیا گیا جس نے انہیں کبھی بھی سیاسی لڑائیاں خالصتاً اپنے بل بوتے پر لڑنے اور امپائروں کی مدد کے بغیر جیتنے کا فن نہیں سیکھنے دیا۔

اختتامی الفاظ

اب یوں گمان ہوتا ہے کہ عمران خان نے بلے کو پکڑا ہوئے ہیں اور ایک زوردار شاٹ لگانے کے لیے بال پھینکے جانے کا انتظار کررہے ہیں، واضح رہے کہ وہ پورے ہفتے آخری لمحات میں ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے کی جانب اشارہ کرتے رہے۔

ان پر اعتماد کم ہوتا جارہا ہے لیکن اگر وہ نہیں تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا اگر ان پر اعتماد کا سلسلہ بحال ہوجاتا ہے؟ کیا ہوگا اگر کرکٹ میں عمران خان کا ماضی خود کو سیاسی تناظر میں دہرائے؟ بہرحال 8 مارچ 1992 کو بھی جنوبی افریقہ کے خلاف ان کی ٹیم کی شکست کے بعد جذبات ایسے ہی تھے جیسا کہ آج ہیں اور اسی طرح سب کچھ کھو گیا تھا، تاہم انہوں نے اگلے میچ میں آسٹریلیا کو شکست دی اور ٹورنامنٹ میں دوبارہ کبھی نہیں ہارے۔

تو کیا عمران خان کے سیاسی کیریئر کے ڈیتھ اوورز ان کے کرکٹ کے بہترین دور کی عکاسی کریں گے؟ ہم جلد ہی یہ جان جائیں گے۔