• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

الیکشن کمیشن کو وزیر اعلیٰ، گورنر خیبر پختونخوا کے خلاف کارروائی سے روک دیا گیا

شائع March 31, 2022
عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کی درخواستوں کا جواب طلب کیا — فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کی درخواستوں کا جواب طلب کیا — فوٹو: ڈان نیوز

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صوبائی گورنر، وزیر اعلیٰ اور ایک وزیر کے خلاف بلدیاتی انتخابات کے لیے نظرثانی شدہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جاری کیے گئے نوٹسز پر کسی قسم کی سخت کارروائی سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 10 مارچ کو کمیشن کی جانب سے صوبے کے 18 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں انتخابی مہم چلانے سے روکنے کے لیے کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ ضابطہ اخلاق کو چیلنج کرنے والی دو متفرق درخواستوں پر ہدایت جاری کی۔

مزید پڑھیں: مالاکنڈ میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ کے پی پر جرمانہ

عدالت نے درخواستوں کی اگلی سماعت کے لیے 12 اپریل کی تاریخ مقرر کی اور اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کی درخواستوں کا جواب طلب کیا۔

ایک درخواست گورنر شاہ فرمان نے دائر کی تھی جبکہ دوسری درخواست وزیر اعلیٰ محمود خان اور صوبائی وزیر انور زیب نے مشترکہ طور پر دائر کی تھی۔

تینوں درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن کے 10 مارچ کے حکمنامے کو چیلنج کیا ہے جس کے ذریعے نظرثانی شدہ ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا اور عہدیداروں کو نوٹس جاری کرنے سمیت اقدامات اٹھائے گئے تھے۔

ضلعی مانیٹرنگ افسر نے لوئر دیر میں جلسہ عام میں شرکت پر 11 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ تینوں درخواست گزاروں کو انتخابی ضابطہ کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیے تھے۔

ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کی جانب سے ان پر 50، 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا، تاہم ان کی اپیلیں الیکشن کمیشن اسلام آباد میں زیر التوا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اعظم سواتی الیکشن کمیشن طلب

درخواست گزاروں کی جانب سے وکیل علی گوہر درانی پیش ہوئے اور استدعا کی کہ الیکشن کمیشن نے ایک آرڈیننس کے نفاذ کے بعد نظرثانی شدہ ضابطہ اخلاق جاری کر کے اپنے آئینی اختیار سے تجاوز کیا ہے جس کے ذریعے الیکشنز ایکٹ 2017 میں تبدیلیاں کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے گورنر کو ان کے خلاف کسی بھی فوجداری اور دیوانی کارروائی سے آئینی استثنیٰ حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے نوٹس جاری کیا۔

وکیل نے کہا کہ گورنر صوبے میں وفاق کے نمائندے ہیں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس بات کا اعلان کرے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نہ ہی ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کو گورنر کی عدالت میں پیشی کا مطالبہ کریں کیونکہ انہیں آئین کے تحت استثنی حاصل ہے۔

وکیل نے استدلال کیا کہ گورنر اپنے حقوق اور آئینی ضمانتوں کے ساتھ ساتھ پروٹوکول اور رواج کے تحت دوروں کے دوران وزیر اعظم کے ساتھ جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت ان کا عہدہ رسمی ہے اور دیگر سرکاری دفاتر سے مختلف تھا کیونکہ ان کے پاس صوبائی حکومت یا وزیر اعلیٰ کے مشورے پر عمل کرنے کے علاوہ خود کچھ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اعظم سواتی کو 50 ہزار روپے جرمانہ

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ نظرثانی شدہ ضابطہ اخلاق کو عدلیہ کی آزادی کے اصولوں کی نفی اور آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

انہوں نے دلیل دی کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 233 میں سیاسی جماعتوں، انتخابی امیدواروں، سیکیورٹی فورسز، میڈیا وغیرہ کے لیے ضابطہ اخلاق کا تعین کیا گیا ہے جبکہ سیکشن 234 انتخابی مہم کی نگرانی سے متعلق ہے۔

وکیل نے استدلال کیا کہ جب پارلیمنٹ کا سیشن نہیں ہو رہا تھا تو صدر پاکستان نے 21 فروری کو الیکشنز (ترمیمی) آرڈیننس جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے سیکشن 181-اے کو الیکشن ایکٹ 2017 میں شامل کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری نظریات کی ترویج میں یہ ترمیم پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا لوکل گورنمنٹ کے منتخب اراکین، بشمول آئین یا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی دوسرے عہدے پر فائز اراکین کو کسی بھی علاقے یا حلقے میں عوامی جلسوں کا دورہ کرنے یا خطاب کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق تبدیل کر دیا

وکیل نے استدلال کیا کہ ایکٹ میں دفعہ 181-اے کے اندراج کے بعد درخواست گزاروں کی کارروائیاں قانون کے مینڈیٹ کے دائرہ کار میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نظرثانی شدہ انتخابی ضابطہ تمام قانونی اصولوں کے خلاف ہے اور اس میں مذکورہ ترمیم کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024