حکومت کے استحکام کے لیے سمندر پار پاکستانی اہم کیوں ہیں؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مارچ کے مہینے میں ریکارڈ 2 ارب 80 کروڑ ڈالر ترسیلاتِ زر آئی ہیں۔ یہ ماہانہ اعتبار سے 28.3 فیصد کا اضافہ ہے۔ معمول کے مطابق سب سے زیادہ رقوم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت میں رہنے والے پاکستانیوں نے بھیجی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس ریکارڈ ترسیلاتِ زر کی ایک وجہ رمضان اور عید سے متعلق اخراجات بھی ہیں۔
لیکن اگر رمضان اور عید کو شامل کر بھی لیا جائے تب بھی یہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے قومی خزانے میں بھیجی گئی رقم میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت نے ترسیلاتِ زر کا ہدف 30 ارب ڈالر طے کیا تھا اور سیاسی حالات میں تبدیلی سے قبل وہ اس ہدف کے حصول کے لیے درست سمت میں گامزن تھی۔
دیگر معاملات کے علاوہ بات کی جائے تو پی ٹی آئی حکومت نے سمندر پار پاکستانیوں میں اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھایا اور اس پر سیاست بھی کی۔ پی ٹی آئی کی حکومت چلی گئی تو میمز اور ٹک ٹاک ویڈیوز میں سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان کے حالات سے متعلق دکھائی جانے والی غیر معمولی دلچسپی کا مذاق بھی اڑایا گیا۔
یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی بے دخلی کے بعد دنیا کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے پہلے تو سپریم کورٹ کی جانب سے اسمبلی بحال کرنے کے خلاف ہوئے اور پھر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے خلاف۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف خود بھی لندن میں مقیم ہیں اس وجہ سے ان کے گھر کے باہر بھی مظاہرے کیے گئے۔
مزید پڑھیے: نئی اتحادی حکومت کو درپیش معاشی مسائل
یہ پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ ملک کے اندر وقوع پذیر ہوتا ہے وہی کچھ ملک سے باہر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے کئی سیاسی خاندان لندن یا دبئی یا ایسی کسی جگہ رہائش پذیر ہوتے ہیں جہاں وہ اس وقت تک رہتے ہیں جب تک ملک میں ان کی حکومت کرنے کی باری نہ آجائے۔
ترسیلاتِ زر کی بات کی جائے تو یہ بالکل الگ قسم کے پاکستانی بھیجتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی ایک خاطر خواہ تعداد بیرونِ ملک رہتی ہے اور ان میں سے کئی یہاں اپنے خاندانوں کے کفیل ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں پاکستان اپنی ابھرتی ہوئی اور اکثر ناکام معیشت میں شامل نہیں کرسکا۔ ان میں ڈاکٹر، کمپیوٹر انجینیئر، پیٹرولیم اور الیکٹرانک انجینیئر، بحری جہازوں کے کپتان، مارکیٹنگ منیجر، ایڈورٹائزنگ سے وابستہ افراد اور ایسے ہی دیگر باصلاحیت افراد شامل ہیں جنہیں پاکستان میں نوکری نہیں مل سکی۔ بہتر مواقعوں کے حصول اور اپنے گھر والوں کا سہارا بننے کے لیے وہ ملک سے باہر چلے گئے اور اب وہاں سے رقم پاکستان بھیجتے ہیں۔
پی ٹی آئی اپنے جاگیردار مخالف پیغام کے ساتھ ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔ پی ٹی آئی نے جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ ان کی مایوسی اور ایک ایسے نظام سے ان کے عدم اطمینان کا فائدہ اٹھایا جہاں مواقع صرف رشتہ داریوں کی بنیاد پر ملتے ہیں۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کا بطور وزیرِاعظم پاکستان اور شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کا بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب انتخاب اس نکتے کو مزید واضح کرتا ہے اور سمندر پار پاکستانیوں کو مزید غصہ دلاتا ہے۔ وہ ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں انہیں میرٹ کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے اور یہ ان کے لیے مستقل یاددہانی ہوتی ہے کہ اگر پاکستان میں شفافیت ہوتی تو وہ کیا کچھ حاصل کرسکتے تھے۔
مزید پڑھیے: آئی ایم ایف سے پاکستان کو مزید قرض ملنا مشکل کیوں ہوگیا؟
لہٰذا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ایک ایسی سیاسی جماعت کے سحر میں کیوں مبتلا ہوئے جس نے ملک کو بہتر جگہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اب بھی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ یہاں یہ سوال پایا جاتا ہے کہ کیا وہ لوگ جو ملک میں موجود نہیں ہیں اور یہاں مقیم لوگوں کو درپیش مشکلات کا سامنا نہیں کررہے انہیں ملک کے سیاسی نظام پر غیر معمولی اثر و رسوخ رکھنے دینا چاہیے؟
اس کا جواب ہے ہاں اور اس کی وجہ پیسہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیگر ممالک سے آنے والی امداد نہ صرف ناقابلِ اعتبار ہے بلکہ اس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ امداد دینے والے اداروں اور امداد وصول کرنے والوں کے درمیان مڈل مین کا کردار ادا کرنے والوں کے پاس کرپشن کے کئی مواقع ہوتے ہیں اور وہ امداد وصول کرنے والوں سے زیادہ امداد دینے والوں کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ کہ کئی ترقیاتی منصوبے ناکام ہوجاتے ہیں، اسکول تعمیر ہونے کے بعد خالی پڑے رہتے ہیں، کلینکس کبھی کھلتے ہی نہیں اور اساتذہ کبھی پڑھانے نہیں آتے۔ تاہم امداد اور اس سے ہونے والی بدعنوانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
ترسیلاتِ زر اس امداد سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ یہ رقم اصل میں پاکستانیوں کے پاس جاتی ہے جو اسے خرچ کرتے ہیں اور مقامی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔ وہ اس رقم کو کاروبار شروع کرنے یا جائیداد خریدنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ رقوم خرچ کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے سمجھ بوجھ ہوتی ہے اس وجہ سے ان کاموں میں کرپشن کی وجہ سے نقصان کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معیشت کو مقامی اور بعض اوقات بیرونی دھچکوں سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کورونا وبا کے دوران ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘
مستقبل میں بننے والی دیگر جماعتوں کی حکومتیں اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کے جذبات کا احترام نہیں کرتیں تو یہ ان کی غلطی ہوگی کیونکہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی توجہ اور جذبات کسی بھی حکومت کے استحکام کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوں گے۔ درحقیقت ترقیاتی فنڈز کی بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے لوگوں کے لیے دنیا بھر میں ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقعوں کے حصول کی کوششیں کریں۔
جب پاکستانی ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے تو پاکستان کے لیے اپنی خودمختاری کی حفاظت بھی آسان ہوجائے گی۔ موجودہ عالمی طاقتیں جیسے امریکا اور چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں عالمی مالیاتی اداروں پر زور نہیں ڈال سکتیں کہ وہ سبسڈی اور امداد کو روک کر پاکستان کی سرزمین اور سیکیورٹی معاملات تک رسائی کے بدلے پاکستان کی درخواست منظور کریں۔
بیرون ملک مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس پاکستانیوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں طبقاتی فرق بڑھ چکا ہے۔ اب یہاں یا تو انتہائی غریب طبقہ ہے جو بمشکل زندگی گزار رہا ہے یا پھر بہت ہی امیر طبقہ ہے جسے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ یہاں متوسط طبقے کے جتنے لوگ بھی ہیں وہ بھی بیرون ملک جانے کی کوششوں میں ہیں۔
مستقبل کی کوئی بھی سیاسی جماعت جو حال یا مستقبل میں ایک مستحکم حکومت بنانا چاہتی ہے اسے اس رجحان پر توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان ان لوگوں کو ناراض نہیں کرسکتا جو یہاں 30 ارب ڈالر بھیجتے ہیں۔
یہ مضمون 20 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (6) بند ہیں