ہماری نئی حکومت سے جڑی ایرانی سعودی غم اور خوشیاں
'کپتان کے وزیرِاعظم نہ رہنے سے ایران-پاکستان تعلقات ڈھلوان پر'، یہ سرخی ہے عرب دنیا کی مشہور نیوز سائٹ الشرق الاوسط کی۔ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف کو جلد ایران کا دورہ کرنا چاہیے ورنہ کپتان کے دور میں قائم ہوئے اچھے پاک-ایران تعلقات تحلیل ہوجائیں گے۔
ایرانی اس وقت اس بات پر تقسیم ہیں کہ کپتان کے نکالے جانے کا ذمہ دار امریکا ہے یا علاقائی حالات۔ ایرانی انقلابی گارڈ کے نیوز ہینڈل امریکا کو ذمہ دار بتاتے ہیں۔ باقی تفصیل آپ اسی نیوز سائٹ پر خود پڑھ لیں۔
یہ خبر دیکھ کر لازم تھا کہ دوڑ کر ایرانی میڈیا کو دیکھا جائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تہران ٹائم کی ہیڈلائن تھی کہ سعودی عرب نے وزیرِاعظم شہباز شریف سے رابطہ کیا ہے۔ اس خبر کی تفصیل میں خط کے جاری رولے کا ذکر بھی ہے۔ اس میں جہاں پاکستان کی معاشی بدحالی، 100 ارب ڈالر کے قریب قرض کا بوجھ اور سعودی عرب کی مستقل معاشی مدد کا ذکر ہے وہیں ایک دلچسپ بات لکھی ہوئی ہے کہ کپتان کے دور میں سعودی عرب کے ساتھ ایک بحران اس لیے پیدا ہوا تھا کہ پاکستان نے ترکی اور ایران جیسے اسلامی ملکوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات استوار کرلیے تھے۔
بندہ ادھر پوچھے کے ترکی کے ساتھ ہم پہلے پٹھو گرم کھیل رہے تھے؟ ہر دور میں تعلق اچھا ہی رہا۔ مطلب یہ کہ تہران ٹائم ایران سے قریبی تعلقات کو سعودیوں کے ساتھ بحران کی وجہ بتا رہا ہے۔
پاکستان میں سعودیہ کے سابق سفیر علی عواد الاسیری نے پاک سعودی تعلقات پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں پاکستان کی بہت ہی تعریف کی ہے، بہت پیار خیال سے ہمارے مسائل کا جائزہ لیا ہے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بیان کی ہے، ہر دہائی میں مل کر کیے گئے کاموں، سرد جنگ، افغان جنگ کے دوران مشترکہ مؤقف اور حکمتِ عملی کا بیان کیا ہے، شہباز شریف کے سعودی دورے کا انتظار ہونے کا بتایا ہے، ان کی وزارتِ اعلیٰ کی کارکردگی بتائی ہے، نواز شریف کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ سعودی پاکستان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ اس کے علاوہ ایران-عراق جنگ میں صورتحال نازک ہونے پر پاکستان کا سعودی دفاع کے لیے اپنی فوج بھیجنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اسیری کے مضمون کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ پاک-سعودی تعلقات کو سمجھنا ہے تو ایک پرانی کہانی یاد کرتے ہیں۔ محمد ال سعد نے سعودی گزٹ میں ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں امریکی صدر ریگن اور موجودہ صدر جو بائیڈن کا جائزہ لیا ہے۔ بائیڈن اور ان کی ٹیم کو ایسی ایسی سنائی ہیں کہ امریکا مخالفین کے دل ٹھنڈے ٹھار کردیے ہیں۔
سعد کہتے ہیں کہ ریگن نے بائیڈن کی نسبت بہت مشکل حالات میں امریکا کی صدارت سنبھالی تھی اور اس وقت افغانستان میں روس کو آئے 2 سال ہوچکے تھے۔ انہوں نے اپنا دور اچھا گزارا، ان کی ٹیم بہت سمجھدار لوگوں پر مشتمل تھی۔ صدر ریگن کے دور میں ہی امریکا، سعودی عرب کا سب سے بڑا سفارتی بحران پیدا ہوا تھا۔ یہ بحران بیلسٹک میزائل کی خریداری سے پیدا ہوا جو سعودی عرب نے چین سے خریدے تھے۔ اس بحران کو ریگن نے بہت عقلمندی سے حل کیا۔
بحران ہو اور ہم نہ ہوں یہ کیسے ہوسکتا؟ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا۔ ہر پنگے کے عین درمیان میں پاکستان کھڑا اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہوتا کہ لو پھر پھڑے گئے۔
ہوا یہ تھا کہ اسرائیل نے لبنان میں فلسطینی کیمپوں کے خلاف جارحانہ کارروائی کی۔ اس سے کچھ سال پہلے وہ عراق میں حملہ کرکے اس کی ایٹمی سائٹ تباہ کرچکا تھا۔ سعودی ٹینشن میں آگئے۔ انہوں نے سوچا کہ ایک جانب اسرائیل ہے دوسری طرف ایران۔ ہمارے لیے سنجیدہ دفاعی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
شاہ فہد نے اپنے بھائی وزیرِ دفاع سلطان بن عبدالعزیز السعود سے کہا کہ چین سے بیلسٹک میزائل حاصل کیے جائیں۔ وزیرِ دفاع نے امریکا میں اپنے 2 بیٹوں کی ڈیوٹی لگائی۔ ایک امریکا میں سفیر اور دوسرا ایئر ڈیفنس کا سربراہ تھا۔ تب چین اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بھی نہیں تھے۔
تو یہ سعادت بھی ہمارے حصے میں آئی۔ اسلام آباد میں چین سے سعودی رابطہ کروایا گیا۔ ایئر ڈیفنس کے سربراہ شہزادہ خالد نے چین کے 4 دورے کیے اور 50 چینی ساختہ سی ایس ایس 2 میزائل خریدے گئے۔ اس منصوبے کا کوڈ ایسٹ ونڈ رکھا گیا۔
سعودی جب میزائلوں کے لیے سائٹ تعمیر کر رہے تھے تو سی آئی اے کو پتا لگ گیا جس کے بعد ایک سفارتی بحران نے جنم لیا۔ سعودیوں نے امریکی سفیر کو ملک سے نکال دیا۔ کولن پاول صدر ریگن کے سیکیورٹی ایڈوائزر تھے۔ انہیں سعودی سفیر نے گارنٹی دی کہ اسرائیلیوں سے کہیں کہ یہ میزائل صرف دفاع کے لیے ہیں۔ کولن پاول بہت بعد میں صورتحال کو یاد کرتے یہی کہا کرتے کہ وہ بہت تناؤ والے حالات تھے۔
اسرائیلیوں نے پوچھا کہ بیلسٹک میزائل جو ایٹمی وار ہیڈ لے جاسکتے ہیں، 50 عدد اور دفاعی مقصد؟ پھر سب کا دھیان ظاہر ہے ہماری طرف جانا تھا۔ چین نے بتایا کہ ان میزائلوں میں تبدیلی کی گئی ہے اور یہ روایتی ہتھیار ہی لے جاسکتے ہیں۔
اس ساری کہانی میں آپ کو پاکستان کا کوئی خاص کردار محسوس نہیں ہوا یا ہوا؟ سعودی عرب نے 1988ء میں یہ میزائل حاصل کرنے کے بعد صرف ایک بار ان کی نمائش کی ہے۔ یہ قومی دن کے موقع پر تب کی گئی تھی جب 2014ء میں پاکستانی آرمی چیف نے دفاعی پریڈ میں شرکت کی تھی، ان پاکستانی آرمی چیف کا نام ہے جنرل راحیل شریف۔
پچھلے دنوں اچانک سی این این نے سعودی میزائل پروگرام کو یاد کرنا شروع کردیا تھا۔ کریں جتنا کرنا ہے کیا ہوسکتا۔ پاک-سعودی تعلقات بہت گہرے اور غیر روایتی ہیں۔ ایسے ہی ہمیں ادھار تیل نہیں مل جاتا۔ زلزلے کے دوران شاہ عبداللہ نے امداد کے لیے ایئر برج قائم کرنے کا کہا تھا۔ جب اناڑیوں کے ہاتھ حکومت آجائے اور تعلقات کی گہرائی اور نزاکت کا خیال تک نہ رکھ سکے تو پھر جو معاملات سمجھتے ہیں ان سب کو اکٹھا ہونا ہی ہوتا ہے۔
آپ بھلے کہتے رہیں کہ کوئی ایسا رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو۔ سرکار سب اکٹھے ہوگئے جو ملک کے حق میں ہیں اور نزاکتیں سمجھتے ہیں۔
تبصرے (10) بند ہیں