• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

رضا باقر کے دور میں مہنگائی مرکزی بینک کیلئے بڑا سردرد رہی

شائع May 6, 2022
ڈاکٹر رضا باقر نے مئی 2019 میں عہدہ سنبھالا اس وقت ماہانہ مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی — فائل فوٹو: رائٹرز
ڈاکٹر رضا باقر نے مئی 2019 میں عہدہ سنبھالا اس وقت ماہانہ مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی — فائل فوٹو: رائٹرز

ڈاکٹر رضا باقر نے مرکزی بینک میں اپنی مدت کے دوران متعدد نئے اقدامات کا آغاز کیا جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کووڈ رسپانس پیکجز، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جو اوورسیز پاکستانیوں کو مقامی بینکوں سے جوڑتا ہے، راست فوری اور فری ادائیگی سسٹم اور ڈیجیٹل بینکنگ پالیسی کو حتمی شکل دینا شامل ہے جس سے ڈیجیٹل بینکوں کے لیے راہ ہموار ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم مرکزی بینک کا اہم مقصد مقامی سطح پر قیمتوں میں استحکام اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے جو کہ ڈاکٹر رضا باقر کے دور میں ایس بی پی کے قابو میں نہ رہا، کورونا کا دورانیہ اس میں شامل نہیں ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اپریل میں مہنگائی بڑھ کر 13.4 فیصد ہوگئی جو کہ جنوری 2020 کے بعد سے اب تک کی بلند سطح ہے، اُس وقت مہنگائی 14.6 فیصد تھی جس کی وجہ جلد خراب ہونے والی اور دیر سے خراب ہونے والی مصنوعات کی قیمتوں میں مستقل اضافہ ہے۔

جب ڈاکٹر رضا باقر نے مئی 2019 میں عہدہ سنبھالا اس وقت ماہانہ مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اپریل میں مہنگائی 13.37فیصد کے ساتھ 2سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

اس کے بعد کئی ماہ تک مسلسل اضافہ ہوتے ہوئے مہنگائی کی شرح فروری 2020 میں 12.4 فیصد پر پہنچ گئی، جب پاکستان میں کووڈ 19 کا پہلا مریض رپورٹ ہوا۔

جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو کووڈ 19 اسٹیٹ بینک کے لیے تحفہ ثابت ہوا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اگلے مہینے سے پالیسی ریٹ کو کم کرنا شروع کیا اور مارچ 2020 میں دو بار پالیسی ریٹ کو کم کیا۔

پہلے 75 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے پالیسی ریٹ کو 12 اعشاریہ 5 فیصد کیا پھر 150 بیسس پوائنٹس کم کرکے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد کر دیا۔

مرکزی بینک نے قرضہ لینے کی لاگت کم کرنا جاری رکھا اور اگلے چند ماہ میں پالیسی ریٹ کو کم کرکے پچھلے سال جون میں 7 فیصد تک کردیا۔

یہ پانچواں موقع تھا جب مرکزی بینک نے شرح سود کو آخری 100 دنوں کے اندر کم کیا۔

ایس بی پی نے اپنے اس وقت کے زری پالیسی بیان میں کہا کہ مضبوط اور اعداد و شمار پر مبنی زری پالیسی کو شرح نمو اور روزگار میں اضافے کے لیے مددگار ہونا چاہیے۔ جبکہ مہنگائی کی توقعات متاثر نہ ہو اور مالیاتی استحکام حاصل ہو۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ستمبر 2021 میں اضافہ کرنے سے پہلے ایک سال سے زیادہ عرصے تک شرح سود میں تبدیلی نہیں کی۔

مارچ 2019 سے ستمبر 2021 کے درمیان مہنگائی کی شرح کم رہی حتیٰ کہ جنوری 2021 میں مہنگائی کی شرح 5.7 فیصد تک پہنچ گئی۔

مرکزی بینک نے ستمبر میں بینچ مارک شرح سود کو 25 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 7.25 فیصد کردیا اور آنے والے مہینوں میں شرح سود میں مزید اضافے کا عندیہ دیا کیونکہ کووڈ 19 بحران میں کمی آئی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو سپورٹ کی ضرورت تھی۔

اس کے بعد نومبر میں پالیسی ریٹ کو بڑھا کر 8.75 فیصد اور اگلے مہینے 9.75 فیصد کر دیا اس کے بعد تین ماہ کے لیے پالیسی ریٹ تبدیل نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: 'معیشت کیلئے مشکل دن آنے والے ہیں' وزارت خزانہ نے خبردار کیا

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 7 اپریل کو ہنگامی اجلاس میں پالیسی ریٹ میں 250 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرکے 12.25 فیصد کردیا، یہ سال کا سب سے بڑا اضافہ تھا۔

مرکزی بینک نے افراط زر کے آؤٹ لُک میں خرابی اور بیرونی استحکام کے خطرے میں اضافے کا حوالہ دیا جس میں روس۔یوکرین تنازع اور مقامی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی اضافہ ہوا۔

یہ اضافہ غیر طے شدہ تھا کیونکہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اگلا اجلاس اپریل کے آخر میں ہونا تھا تاہم مرکزی بینک نے خبردار کیا تھا کہ کمیٹی کا اگلا اجلاس توقع سے پہلے منعقد ہوسکتا ہے، تاکہ بیرونی خطرات اور قیمتوں میں استحکام کو تحفظ مل سکے۔

مرکزی بینک نے بتایا کہ مارچ میں افراط زر توقع سے زیادہ رہی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال سابق وزیر اعظم عمران خان اور اس وقت کی اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کے باعث اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے، جس نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

پالیسی ریٹ میں بڑے اضافے کے باوجود افراط زر میں اضافہ جاری رہا جو کہ اپریل میں 13.4 فیصد تک پہنچ گیا۔

23 مئی کو ہونے والے مانیٹری پالیسی کے اگلے اجلاس میں اسٹیٹ بینک ایک بار پھر پالیسی ریٹ میں 100 سے 150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرسکتا ہے۔

تاہم تمام تر چیزوں کے باوجود ڈاکٹر رضا باقر کی سربراہی میں مرکزی بینک کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔

پاکستان میں سیاسی افراتفری اور عالمی عوامل جیسا کہ روس کی یوکرین پر جارحیت کے باعث اشیا کی قیمتوں کو پَر لگ گئے، ان تمام عوامل نے تیزی سے بڑھتی مہنگائی پر اثر ڈالا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024