ایک بار پھر طبل جنگ بج گیا، اب کیا ہوگا؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوکر اقتدار سے محروم ہونے والے سابق وزیرِاعظم عمران خان کے بیانیے اور بیانات کے سبب ایک مرتبہ پھر قومی سطح پر بھونچال آیا ہوا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر وہ عوامی جلسوں، ذاتی انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں میں ایسے ‘آتش فشاں‘ بیانات دے رہے ہیں جس کے بعد جوابی ‘شعلہ بیانی’ سے آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ مئی کے اس شدید گرم مہینے میں اس مرتبہ وطنِ عزیز کے سیاسی ماحول میں وہ حِدّت پیدا ہوئی ہے کہ الاماں!
سابق وزیرِاعظم عمران خان کی صحافیوں سے ایک حالیہ ملاقات میں ان کی تمام توپوں کا رخ ایک ہی جانب تھا۔ کہا گیا ’ہماری حکومت کے دوران ہمیشہ ایسے فیصلے ہوتے رہے کہ ہماری حکومت کمزور رہے’۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’نیب اور عدلیہ پر ہمارا اثر نہیں تھا لیکن جن کا اثر تھا، اگر وہ چاہتے تو 8 سے 10 لوگوں کو سزائیں ہوجاتیں، یوں ملک میں احتساب کا عمل مضبوط ہوجاتا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اور شوکت ترین نے نیوٹرلز کو متنبہ کیا تھا کہ اگر سازش کامیاب ہوئی تو ہماری نحیف معیشت ڈوب جائے گی، یہی سب اب ہوچکا ہے‘۔
انہیں یہ شکایت بھی تھی کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور سابق ڈی جی ایس آئی کے معاملے پر ڈکٹیشن دی جارہی تھی۔ عمران خان کی اس گفتگو نے پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمٰن کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت کردی جو انہوں نے اس وقت کہی تھی جب اقتدار کے ابتدائی ‘ہنی مون‘ میں عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی مقتدر حلقوں کے قصیدے پڑھتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ‘ہم ایک پیج پر ہیں’۔
انہی دنوں جب وہ اپوزیشن پر نشانے لگارہے تھے تو شیری رحمٰن نے کہا تھا ‘عمران خان کو بہت جلد اسٹیبلشمنٹ کی سمجھ آجائے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے‘۔
آج عمران خان وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو ماضی میں اپوزیشن کہتی رہی لیکن وہ اکیلے کھڑے ہیں، یہی پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیں تو ہر صفحے پر قیامِ پاکستان کے ابتدائی ایّام سے لے کر آج کے دن تک مختلف کرداروں اور نئی تکنیک کے ساتھ ایک ہی کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے۔
ماضی قریب میں 2، 2 مرتبہ برطرف ہونے والے وزرائے اعظم، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے بیانیے ملاحظہ کیجئے۔
بے نظیر بھٹو
1999ء میں جب بے نظیر کو کرپشن کے الزم میں 5 سال قید اور 50 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کا فیصلہ سنایا گیا تو تو محترمہ نے عدالتوں کو ‘کنگرو کورٹس’ قرار دیا تھا یعنی انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے، کنگرو کی طرح کودتے ہوئے جلد بازی میں ناقص فیصلے سنانے والی عدالتیں۔
بے نظیر بھٹو جب 2 مرتبہ اپنی برطرفی کے لیے عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر نام دھرتی تھیں تو اس وقت ان کے صف اوّل کے سیاسی مخالف نوازشریف محترمہ کو سیکورٹی رسک قرار دیتے تھے۔
بے نظیر بھٹو نے بحیثیت سابق وزیرِاعظم ہمیشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی اور ان کا انداز ایک شکوہ کناں کا رہا۔ بے نظیر نے عدالتوں کے فیصلوں پر سوال اٹھانے کے لیے بھی وہ اصطلاح چُنی جو دنیا میں رائج ہے لیکن بے نظیر جیسی صورتحال کا سامنا جب نواز شریف کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں کرنا پڑا تو ان کے تیور مختلف اور جارحانہ تھے۔
نواز شریف
1997ء کے آخر میں جب وزیرِاعظم نواز شریف نے عدلیہ سے ٹکر لی تو انہیں توہین عدالت کا ملزم قرار د یا گیا تھا جس پر وہ خود عدالت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس موقع پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ججوں کی توہین کی تھی اور سپریم کورٹ کی عمارت میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔
اس بحران کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ چیف جسٹس کی برطرفی کے نوٹیفیکیشن پر دستخط نہ کرنے کے جرم میں صدر فاروق احمد لغاری کے ساتھ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو بھی گھر جانا پڑا تھا اور فاتح وزیرِاعظم نواز شریف ٹھہرے تھے جن کے پاس اس وقت بھاری مینڈیٹ تھا۔ تاہم عدالتوں سے ٹکرانے اور زبان لڑانے کا جو سلسلہ اس وقت شروع ہوا وہ آج تک رک نہ سکا۔
نوازشریف دوسری مرتبہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مدت پوری کرنے سے قبل ہی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے۔ اس موقع پر جمہوریت کی علمبردار پیپلز پارٹی کا ردِعمل ملاحظہ ہو کہ اپنی مخالف سیاسی جماعت کے منتخب وزیرِاعظم کی فوج کے ہاتھوں برطرفی پر مٹھائیاں بانٹی گئیں تھیں۔
نواز شریف نے پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں اٹھائے اس صدمے کو قید و جلاوطنی کے دوران کبھی تند و تیز اور کبھی نرم انداز کی تنقید کرتے ہوئے جھیلا تاہم وزارتِ عظمیٰ سے دوبارہ برطرفی کے بعد نواز شریف خم ٹھونک کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میدان میں آگئے، اور اس مرتبہ صاحبزادی مریم نواز ان کے ہمراہ تھیں اور سیر پر سوا سیر ثابت ہوئیں۔
قارئین کو یاد ہوگا جب ڈان لیک کے بعد اور پانامہ کیس کا سامنا کرتے ہوئے مریم نواز پہلی مرتبہ عدالت سے نکلیں تو میڈیا کا سامنا کرتے ہوئے کہا تھا ‘نواز شریف کے پاس بہت کچھ کہنے کو ہے، ہمارا منہ نہ کھلوائیں تو بہتر ہے‘۔ لیکن مریم اور ان کے والد کا منہ زیادہ عرصہ بند نہ رہ سکا اور جوں جوں کرپشن کے الزامات اور مقدمات کی تعداد بڑھتی گئی ان کے منہ کھلتے چلے گئے۔
2018ء کے الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ(ن) کی پوری انتخابی مہم ‘ووٹ کو عزت دو’ پر مرکوز تھی۔ جلسوں میں ‘خلائی مخلوق’ کا ذکر عام ہوا، وردی کے خلاف نعرے لگنے شروع ہوئے، مریم اور نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر میں وزیرِاعظم کی برطرفی کے خلاف عدلیہ اور مقتدرہ کے خلاف آگ اُگلی جاتی تھی۔ رہی سہی کسر بعد میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران قید و مقدمات نے پوری کردی۔
نواز شریف آرمی چیف کا نام لے کر الٹی میٹم دیتے رہے، مریم نواز سمیت بیشتر مسلم لیگی رہنما عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹہراتے رہے۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن بھی عمران حکومت میں اداروں پر نشانے لگانے سے نہیں چوکتے تھے۔ اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی رہنما الطاف حسین کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہرزہ سرائی معمول رہی تاہم اپنی حدیں عبور کرنے پر سزا پانے کی مثال بھی ان کی صورت میں موجود ہے۔
مبیّنہ طور پر مقتدرہ کے ہاتھوں اٹھائے ‘مشترکہ دُکھوں‘ نے تاریخی ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے بھی کیا، میثاق جمہوریت اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا قیام حالیہ تاریخ کی مثالیں ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اقتدار سے بار بار محرومی سے سبق سیکھا اور جمہوری قوتوں کے آپس میں اشتراک کا ڈول ڈالا۔
پیپلز پارٹی کا اس ضمن میں کردار نمایاں رہا ہے جس نے آئین اور قانون کے دائرے میں کوششوں کو ترحیح دی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں میثاق جمہوریت کا جو معاہدہ کیا تھا اس کے ثمر دیکھنے کے لیے وہ جی نہ سکیں، اور ان کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی عملداری میں چلی گئی۔
زرداری صاحب نے اپنی سیاست کو ‘دبے پاؤں آکر دبوچ لینے’ کا انداز دیا۔ اسی انداز سے جنرل مشرف کی وردی اتروائی جسے وہ اپنی کھال قرار دیتے تھے اور انہیں اقتدار کے ایوان سے رخصت کرکے صدرِ مملکت کے عہدے پر فائض ہوئے۔ صدر کو اسمبلیاں توڑنے سے متعلق 58 (2) بی کی شق کا خاتمہ اور 18ویں ترمیم کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر بندھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے 13ویں ترمیم کے ذریعے بھی 58 (2) بی کا خاتمہ کیا تھا جس میں پیپلز پارٹی نے اس کا ساتھ دیا تھا مگر جنرل مشرف نے اسے ختم کردیا تھا)۔
18ویں ترمیم کی منظوری سے متعلق پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کو ہم نے صحافیوں کی ایک تقریب میں یہ کہتے سُنا کہ یہ کارروائی چھاپہ مار انداز میں کی گئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی۔ بلاشبہ 18ویں ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا جس کے تصرف میں سندھ آگیا، البتہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں بلا شرکت غیر حکمرانی کے مزے 2018ء کے انتخابی نتائج نے کرِکِرے کردیے۔
تازہ ترین صورتحال میں جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کو موردِ الزام ٹہراتے ہوئے طبل جنگ بجا دیا ہے تو آئی ایس پی آر کی جانب سے کسی بھی قسم کی جانبداری کی تردید کی جارہی ہے۔
پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی قیادت کو انتخابی اصلاحات کی تجویز دے رہی ہے جس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ روکا جائے گا، اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ مبیّنہ طور پر اپنے راستے ہموار کرنے کے لیے اداروں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں اور ملک کے معاشی حالات بد سے بدتری کی جانب گامزن ہیں۔
پاکستانیوں کی بے چینی، پریشانی اور بے بسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں خاص طور پر اُن ہم وطنوں کا جو دنیا کی صف اوّل میں شمار افواج پاکستان کو مضبوط و پُروقار اور ملک میں کرپشن سے پاک جمہوریت کا قیام، اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کم از کم بنیادی ضروریات کی فراہمی پر مشتمل معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں۔ کاش سیاسی اشرافیہ اور مقتدرہ قوتیں، ان کروڑوں بے زبانوں کا بھی خیال کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں