سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم پر پہلا قدم (پہلی قسط)
ایک سیاح کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے فوراً سیاحت کر لیتا ہے، خواہ سواری کوئی بھی ہو۔ جہاز، ریل گاڑی، بس، ٹرک، کار، موٹر سائیکل یا صرف سائیکل ہی کیوں نہ ہو۔
میں بھی سیاح ہوں چنانچہ ہر دستیاب سواری پر سیاحت کرلیتا ہوں۔ چند سال پہلے کی بات ہے میں اسلام آباد سے اپنی موٹر سائیکل ٹور پر جی ٹی روڈ کے راستے لاہور جا رہا تھا۔ روات، مندرہ، سوہاوہ، گوجر خان، دینہ، جہلم اور سرائے عالمگیر سے گزر کر اب میری موٹر سائیکل کھاریاں کی طرف دوڑے جا رہی تھی۔
پبی فاریسٹ کے گھنے درختوں میں سے گزرتا ہوا میں جیسے ہی آگے بڑھا، میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے بائیک ایک درخت کے نیچے روکی اور ہیلمٹ اتار کر بجتا ہوا موبائل فون جیب سے نکالا۔ کسی اجنبی نمبر سے کال آ رہی تھی۔
‘ہیلو۔۔۔’، میں فون کان سے لگا کر بولا۔ ‘السلام علیکم’
‘وعلیکم السلام۔ آپ عبیداللہ کیہر بات کر رہے ہیں؟’، دوسری طرف کوئی خاتون تھیں۔
‘جی میں عبیداللہ کیہر بات کر رہا ہوں ‘، میں بولا۔
‘عبیداللہ صاحب میں سی پیک اتھارٹی آفس سے بات کر رہی ہوں۔’
‘جی فرمائیے’، میں کچھ حیران ہوا۔
‘ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ نے سی پیک کے حوالے سے کوئی کتاب لکھی ہے،’ وہ بولیں۔
‘جی میں نے کچھ کتابیں ضرور لکھی ہیں لیکن سی پیک کے موضوع پر تو کوئی کتاب نہیں لکھی،’ میں بولا۔
‘تو ہوسکتا ہے آپ نے کوئی ایسی کتاب لکھی ہو جو ان علاقوں کے بارے میں ہو جہاں سے سی پیک کو گزرنا ہے؟'، خاتون نے استفسار جاری رکھا۔ ویسے انہیں یہ بالکل بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ میں بائک ٹور پر ہوں اور یہاں گجرات کی سرزمین پر جرنیلی سڑک کے کنارے پبی کے جنگل میں کھڑا بات کر رہا ہوں۔
‘جی پاکستان کے شہروں پر میری ایک کتاب ضرور ہے، ’شہر کہانیاں‘، لیکن اس کے مضامین میں سی پیک کے حوالے سے تو کوئی تخصیص نہیں’، میں نے جواب دیا۔
‘یعنی آپ نے سی پیک کے مجوزہ راستے کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں لکھا؟’، خاتون کچھ مایوس ہو کر بولیں۔
‘جی میں نے خاص سی پیک کا حوالہ دے کر تو کبھی کچھ نہیں لکھا’، میں بولا۔ ‘ہاں البتہ میری ایک کتاب ہے ’قراقرم کے پار’، یہ آج سے 30، 35 سال پہلے میرے اس سفر کی روداد ہے جس میں مَیں بذریعہ سڑک کراچی سے کاشغر تک گیا تھا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں سے گزرتے ہوئے، شاہراہِ قراقرم پر گلگت و ہنزہ سے ہوتا ہوا چینی صوبے سنکیانگ کے پہلے شہر کاشغر تک کا سفر اور یہ تقریباً وہی روٹ ہے کہ جو آج سی پیک کا مجوزہ راستہ ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ میری یہ کتاب ماضی کے اس راستے پر لکھی گئی ہے کہ جس پر مستقبل میں سی پیک (چائنا پاکستان اکانومک کاریڈور (China Pakistan Economic Corridor – CPEC بننا ہے’، میں نے تفصیل سے انہیں بتایا۔
‘جی ایگزیکٹلی، اب خاتون کھلکھلائیں، بالکل یہی بات۔ بس مجھے یہی پوچھنا تھا’، وہ بولیں۔
’ہم آپ سے جلد دوبارہ رابطہ کریں گے، بہت شکریہ۔ خدا حافظ۔’
یہ کہہ کر خاتون نے تو کال ختم کرلی البتہ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ انہوں نے مجھ سے یہ کیوں پوچھا؟
‘ہوسکتا ہے کوئی ایوارڈ شیوارڈ کا سلسلہ ہو؟’، میرا دل یکبارگی تیز دھڑکا مگر پھر نارمل ہوگیا۔
ابھی مجھے لاہور پہنچنا تھا، لہٰذا میں نے بائیک اسٹارٹ کی اور دوبارہ رواں دواں ہوگیا۔
اس کال کو آئے ہوئے اب تو 3 سال گزر گئے ہیں، مگر دوبارہ سی پیک والوں کی طرف سے کوئی کال نہیں آئی، ہاں البتہ سی پیک کے مجوزہ راستوں سے، شاہراہِ قراقرم سے، گلگت و ہنزہ سے، دریائے سندھ کی پہاڑی گزر گاہوں سے اور چین و پاکستان کے درمیان دنیا کے بلند ترین راستے، 16 ہزار فٹ بلند درّہ خنجراب سے مجھے بارہا کال آتی رہی ہے اور میں ہر بار اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے ان عجیب اور سحر انگیز راستوں کی طرف کشاں کشاں لپکتا چلا جاتا ہوں کہ جو اب سی پیک تلے آنے والے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم سے میرا پہلا تعارف اتفاقاً ہی ہوا۔ میں 1985ء میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ پہلی بار سوات گیا۔ میری عمر اس وقت 20 سال تھی اور میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اس سے پہلے میری زندگی کا سب سے طویل سفر صرف کراچی سے لاہور تک ہی تھا، چنانچہ جب میں نے پہلی بار پاکستان کے شمالی علاقے دیکھے تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ بلند و بالا پہاڑ، سرسبز و شاداب وادیاں، شور مچاتے پہاڑی دریا، شفاف پانی کی ندیاں، چشمے، جھرنے اور وہ سارے مناظر جو اب تک صرف تصویروں یا فلموں میں ہی دیکھے تھے۔
ہم چند دن سوات میں گزار کر کراچی واپس تو آگئے لیکن دل وہیں اٹکا رہ گیا۔ چنانچہ چند ہی مہینوں کے بعد میں نے اپنے کچھ دیگر دوستوں کو دوبارہ سوات چلنے کے لیے آمادہ کرلیا۔
وہ 1986ء کی گرمیاں تھیں۔ ہم کراچی سے ریل گاڑی میں سوار ہوکر پہلے لاہور پہنچے اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر اسلام آباد آگئے۔ اب ہمیں سوات جانا تھا۔ سوات کے لیے جو معروف راستہ تھا وہ تو وہی تھا جس پر راولپنڈی سے براستہ جرنیلی سڑک ٹیکسلا، واہ کینٹ اور اٹک سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ کو عبور کرکے پہلے نوشہرہ پہنچنا ہوتا تھا اور پھر وہاں جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر دائیں طرف کی سڑک پر مردان کی مڑنا ہوتا تھا۔
یہ راستہ دریائے کابل کو عبور کرکے رسالپور، مردان، تخت باہی اور درگئی سے ہوتا ہوا مالاکنڈ کے پہاڑوں تک پہنچتا تو پہاڑوں کی بلندیوں پر پیچ در پیچ چڑھنا شروع ہوجاتا تھا۔ انہی بلندیوں پر پہلے بٹ خیلہ کا مصروف قصبہ آجاتا اور تھوڑا مزید آگے بڑھنے پر اچانک وادی کھل جاتی، ٹھنڈی ہوائیں استقبال کرتیں اور آنکھوں کے سامنے دریائے سوات کی میلوں وسیع وادی پھیل جاتی جس کے درمیان دریا کا پانی کروٹیں لیتا اور شور مچاتا بہہ رہا ہے اور سرسبز و شاداب کنارے نگاہوں کو سکون و سرخوشی دے رہے ہیں۔
اب اگلا سارا سفر اسی دریا کے کنارے کنارے ہوتا تھا جس پر پہلے وادئ سوات کا مرکزی شہر مینگورہ آتا تھا اور پھر یہی دریا کنارے راستہ مزید آگے بڑھتے ہوئے خوازہ خیلہ، مدین، بحرین اور کالام تک چلا جاتا تھا۔ میں پچھلی بار انہی راستوں سے سوات گیا تھا لیکن چند ہی ماہ بعد یہ دوبارہ سوات آنے کا پروگرام بنا تو میں نے اپنا روٹ کچھ تبدیل کیا۔
پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے نقشوں کا جائزہ لینے پر مجھے سوات جانے کے لیے ایک اور راستے کا بھی پتہ چلا جو شاہراہِ قراقرم پر بشام کے قصبے سے نکلتا تھا۔ شاہراہِ قراقرم پر حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بٹگرام سے ہوتے ہوئے تھاکوٹ کے قصبے پہنچیں تو یہاں پہاڑوں میں بہتا ہوا دریائے سندھ سامنے آجاتا ہے جسے ایک پُل سے عبور کرتے ہی آپ ضلع سوات (اب ضلع شانگلہ) میں داخل ہوجاتے ہیں۔
تھاکوٹ پُل سے چند کلو میٹر آگے دریا کنارے بشام کا مصروف قصبہ ہے جہاں سے سوات کے لیے ایک راستہ نکلتا ہے جو 11 ہزار فٹ بلند درّہ شانگلہ کو عبور کرکے دوسری طرف وادئ سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے بحرین اور کالام قریب ہی ہیں۔ میں نے اس بار سوات جانے کے لیے یہی راستہ منتخب کیا۔
اس راستے میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ ہم شاہراہِ قراقرم پر پہلی بار سفر کرنے کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کا پہاڑی روپ بھی دیکھ سکیں گے۔ میں اس سے پہلے شاہراہِ قراقرم کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکا تھا اور گلگت، ہنزہ اور اسکردو کے بارے میں بھی خاصا کچھ جانتا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے مستنصر حسین تارڑ کا شمالی علاقوں کے حوالے سے پہلا سفرنامہ ‘ہنزہ داستان’ بھی شائع ہوا تھا جو میں پڑھ چکا تھا لیکن ان سب تحریروں کو پڑھ کر جو بات سب سے زیادہ سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہ راستے بہت خطرناک ہیں اور پہاڑوں سے چمٹی بلند و بالا اور موڑ در موڑ تنگ سڑکوں پر کسی بھی وقت کوئی جان لیوا حادثہ پیش آسکتا ہے، چنانچہ دل اس طرف رخ کرنے سے ڈرتا تھا۔
سوات چونکہ میں دیکھ چکا تھا اس لیے وہاں دوبارہ جانے میں کوئی انجانا خوف لاحق نہیں تھا، چنانچہ ہم نے راولپنڈی پہنچ کر پیر ودھائی بس اڈے کی طرف رخ کیا جہاں سے ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو) کی بسیں گلگت جاتی تھی۔ ہمیں گلگت تو نہیں جانا تھا، بشام میں اترنا تھا، اس لیے بشام کے 4 ٹکٹ خرید لیے۔
اگلے دن صبح سویرے نیٹکو کی بس پیر ودھائی اڈے سے نکلی اور جی ٹی روڈ پر دوڑنے لگی۔ حسن ابدال پہنچ کر ہم نے جی ٹی روڈ چھوڑ دیا اور دائیں طرف ہری پور، حویلیاں اور ایبٹ آباد جانے والی سڑک پر مڑ گئے۔
گھنٹے بھر میں ہم ہری پور اور سرائے صالح سے گزر کر حویلیاں پہنچ گئے۔ حویلیاں شہر کے پہلو سے لگا کہ ‘دریائے دوڑ’ گزر رہا ہے جو نتھیا گلی کے پہاڑوں سے بہتا آرہا ہے۔ دریائے دوڑ کو عبور کرتے ہی آپ شاہراہِ قراقرم پر آجاتے ہیں، جو یہاں سے چین تک جاتی ہے۔ یہ حویلیاں سے آگے ایبٹ آباد، مانسہرہ، شنکیاری اور بٹگرام سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے تھاکوٹ کے قصبے تک پہنچتی ہے اور تھاکوٹ پُل سے دریائے سندھ کو عبور کرتی ہے تو دوسری طرف ضلع سوات کی حدود میں بشام کا قصبہ آجاتا ہے۔ بشام سے آگے شاہراہِ قراقرم کی اصل خطرناکیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین، شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہِ قراقرم کے دامن میں دنیور، نگر، کریم آباد، ہنزہ، شیش کٹ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دُور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔
سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور شاہراہِ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوجاتی ہے۔
چینی حدود میں مزید آگے بڑھتے ہوئے یہ دنیا کے بلند ترین علاقے پامیر میں داخل ہوجاتی ہے اور پھر پیر علی، تاشقرغان، بلونگول اور اوپال کے قصبوں سے ہوتی ہوئی چین کے پہلے شہر کاشغر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وہ شہر ہے جس کا حوالہ علامہ اقبال نے اپنی طویل نظم خضر راہ میں یوں دیا ہے:
ربط و ضبطِ مِلّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حِفظِ حرم کا اک ثمر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
شاہراہِ قراقرم اس ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کا آٹھواں عجوبہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر سے پہلے ایک عام آدمی کے لیے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں میں چھپی، دُور افتادہ وادیوں تک پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ آج شاہراہِ قراقرم نے ان ناممکنات کو دلفریب حقیقتوں کے روپ میں سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے۔
شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے پہلے گلگت جانے کا ایک ہی راستہ تھا جو مانسہرہ یا مظفر آباد سے ہوتے ہوئے دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ بالاکوٹ اور وادیٔ کاغان سےگزرتا ہوا 14ہزار فٹ بلند برفانی درّے بابو سر سے گزر کر جاتا تھا۔ درّہ بابو سر بھی صرف گرمیوں میں 2، 4 ماہ کے لیے ہی کھلتا تھا۔ وہ راستہ درّہ بابوسر کی بلندیوں سے دوسری طرف اتر کر دریائے سندھ کے کنارے چلاس پہنچتا تھا اور چلاس سے آگے گلگت تک دریا کے کنارے کنارے ایک نسبتاً آسان راستہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن درّہ بابوسر والے راستے میں سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ یہ سال کے صرف 5 مہینے یعنی مئی، جون جولائی، اگست اور ستمبر کے لیے کھلتا تھا۔ باقی 7 مہینوں میں یہ راستہ دبیز برف سے ڈھکا رہتا تھا چنانچہ سردیوں میں اس راستے سے گلگت جانا ناممکن ہوتا تھا۔
دوسرا ممکنہ راستہ دریائے سندھ کا کنارا تھا جس پر ایک طرف تو چلاس کا قصبہ تھا اور دوسری طرف سوات کا قصبہ بشام تھا، مگر ان دونوں قصبوں کے درمیان تقریباً 150 میل کے فاصلے میں کوئی باقاعدہ راستہ موجود نہیں تھا۔ اکا دکا راستوں کے نام پر صرف وہ دشوار گزار پگڈنڈیاں تھیں جو گڈریوں، بھیڑ بکریوں، گھوڑوں اور خچروں کی آمد ورفت سے بن گئی تھیں۔
بشام وادی سوات میں درّہ شانگلہ کے راستے منگورہ سے مربوط تھا اور منگورہ مردان کے راستے جی ٹی روڈ سے منسلک تھا۔ چنانچہ بشام اور چلاس کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے کنارے ایک سڑک کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کاغان کے علاوہ سوات کے راستے بھی گلگت تک پہنچنا ممکن ہوسکے۔ یوں پہلے 1959ء میں شاہراہِ سندھ طاس کے نام سے اس سڑک کی تعمیر شروع ہوگئی۔ پھر1967ء میں شاہراہِ سندھ طاس کی توسیع کرتے ہوئے چین کے تعاون سے ایک ایسی سڑک کی تعمیر شروع ہوئی جو ایک طرف تو بشام سے مانسہرہ اور ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے حویلیاں تک اور دوسری طرف چلاس، گلگت اور ہنزہ سے گزرتے ہوئے پاک چین سرحد پر 16 ہزار فٹ بلند درّہ خنجراب تک پہنچ گئی۔ یہی شاہراہِ قراقرم تھی جس کی تعمیر میں 25 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی اور چینی جوانوں سے حصہ لیا۔
1978ء میں جب اس انوکھی سڑک کا افتتاح ہوا تو کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ واقعی بن گئی ہے۔ 804 کلومیٹر طویل اس کوہستانی شاہراہ کی تعمیر میں جہاں 20 سال کا عرصہ لگا وہاں 804 انسانوں کو بھی اپنی جان عزیز سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 804 کلومیٹر، 804 انسان۔ فی کلومیٹر فی انسان قربانی سے وجود پانے والی اس سڑک پر آج بے شمار گاڑیاں، ٹرک اور بسیں دندناتی ہوئی گزر جاتی ہیں، اور ان گاڑیوں میں سوار کسی شخص کے ذہن میں شاید ہی یہ خیال آتا ہو کہ قدیم بے ہنگم پگڈنڈیوں کی جگہ لینے والی اس شاندار، ہموار اور سیاہ چمکدار سڑک کے وجود میں 804 انسانوں کے لہو کی سرخی بھی پوشیدہ ہے۔
یہ شاہراہِ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں چین تک پھیلے ہوئے علاقے کے باسیوں کی نسلوں کا خواب تھا۔ کوئی مربوط راستہ نہ ہونے کے سبب یہاں کے لوگ مہذب دنیا سے بالکل کٹے ہوئے اور قطعاً ناواقف تھے۔ اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کردیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بننا ناممکنات میں سے تھا مگر پاکستان اور چین نے مل کر اس کو ممکن بنایا۔
شاہراہِ قراقرم، جسے قومی شاہراہ 35 یا مختصراً N35 بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ یہ چونکہ دنیا کے بلند ترین اور انتہائی دشوار گزار پہاڑوں میں تعمیر کی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے۔
شاہراہِ قراقرم کو ‘شاہراہِ ریشم’ بھی کہا جاتا ہے۔ اصل شاہراہِ ریشم دنیا کی ایک قدیم تجارتی شاہراہ ہے جس کے ذریعے چین کا خاص مالِ تجارت دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتا تھا۔ ان چینی اشیا میں سب سے معروف چیز چونکہ ریشم تھا، اس لیے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہِ ریشم پڑ گیا تھا۔ بعد میں جب چینی مالِ تجارت کی ترسیل زیادہ تر سمندری راستوں سے ہونے لگی تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ متروک ہوتی چلی گئی اور اس کا نام صرف داستانوں میں ہی رہ گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب چین اور پاکستان میں دوستی کا آغاز ہوا تو اس قدیم شاہراہ کی ازسرِ نو تعمیر کا منصوبہ بھی زیرِ غور آیا۔ 1962ء میں دونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رُو سے 1969ء میں شاہراہِ ریشم کا وہ حصہ بحال ہوگیا جو چین کے پہلے شہر کاشغر سے سطح مرتفع پامیر سے گزرتا ہوا پاکستان کی انتہائی شمالی سرحد تک آتا تھا۔
کاشغر سے حویلیاں تک شاہراہِ قراقرم کی کُل طوالت 1300 کلومیٹر ہے جس کا تقریباً 900 کلو میٹر حصہ پاکستان میں اور 400 کلومیٹر چین میں ہے۔ اس شاہراہ کے افتتاح کے بعد جیسے ہی پاک-چین سرحد کھلی، دنیا بھر کے سیاحوں نے اس راستے پر یلغار کردی۔ اس شاہراہ کی وجہ سے پاکستان سے بذریعہ سڑک چین جانا بھی ممکن ہوگیا۔
لیکن شاہراہِ قراقرم اور شاہراہِ ریشم سے متعلق یہ ساری معلومات تو میں نے بعد میں حاصل کیں، اس وقت تو بس ہم بشام اور شانگلہ کے راستے صرف سوات جانے کے لیے اس بس میں سفر کر رہے تھے اور بس اس وقت ایبٹ آباد کی طرف دوڑے جا رہی تھی۔ راستہ رفتہ رفتہ بلند ہوتا جا رہا تھا اور بس کے انجن کو زور لگانا پڑ رہا تھا۔ دو طرف پہاڑوں کے بیچ میں سینڈوچ بنی سڑک پر انجن کی آواز بپھرے شیر کی طرح گونج رہی تھی۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔