حکومت، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان غیر معینہ مدت تک جنگ بندی پر اتفاق
حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس بار جنگ بندی کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے اور قبائلی سرحدی علاقے میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے واقف ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ شب ختم ہونے والی جنگ بندی میں توسیع افغان دارالحکومت کابل میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت کی نشاندہی کرتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ فریقین نے 'اسلامی امارات افغانستان (آئی ای اے)' کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند کے ساتھ ان کے دفتر میں علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد جنگ بندی میں توسیع اور امن مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ دونوں فریقین کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں نرم گو اور عمر رسیدہ رہنما نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بات چیت اور جنگ بندی کو بغیر کسی حتمی تاریخ کے جاری رہنے دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کردی
اس کے بعد ہونے والے مشترکہ اجلاس میں فریقین نے جنگ بندی کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے اور اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا جس کے سبب پاکستان کے قبائلی علاقوں اور ملک میں بڑے پیمانے پر ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی اور ہلاکتیں ہوئیں۔
ترجمان آئی ای اے ذبیح اللہ مجاہد اور ترجمان ٹی ٹی پی محمد خراسانی نے رواں ماہ کے آغاز میں جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کا اعلان کیا تھا۔
جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کے حوالے سے ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے، لیکن ڈان اس اہم پیش رفت کی تصدیق حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
یہ پیشرفت افغان دارالحکومت میں دونوں فریقین کے اعلیٰ سطح کے وفود کی موجودگی میں پیچیدہ اور جامع مذاکرات کے سلسلے کے بعد ہوئی ہے جو کہ ایک موقع پر ٹوٹنے کے قریب لگ رہا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے ٹی ٹی پی سے کامیاب مذاکرات کے امکانات ’محدود‘ ہیں، اقوام متحدہ
ذرائع نے بتایا کہ مرکزی ثالث اور آئی ای اے کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے مذاکرات کو دوبارہ بحال کرنے میں معاونت کی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی کے کچھ مطالبات مان کر اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور آئی ای اے کی تجویز کے بعد اعتماد سازی کے لیے ابتدا سے باضابطہ اور منظم مذاکرات کی جانب جانا اہم ہوگا۔
ٹی ٹی پی سوات کے ترجمان مسلم خان سمیت 2 اہم عسکریت پسند کمانڈروں کی رہائی اور صدارتی معافی بھی ان مطالبات میں شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ جاں بحق اور زخمیوں کے لیے معاوضہ، ملاکنڈ میں شرعی ضابطے کا نفاذ، سرحدوں سے فوج کا انخلا اور فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام واپس لینا ٹی ٹی پی کی جانب سے اہم مطالبات تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں لیکن معاہدہ نہیں ہوا، افغان وزیر خارجہ
ملاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن 2009 اب بھی نافذ العمل ہے، یہ قانون مولانا صوفی محمد مرحوم کے ساتھ مذاکرات کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت پاکستان کو ٹی ٹی پی کے کچھ مطالبات سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن 2 بڑے مسائل چیلنج رہے جن میں فاٹا کے انضمام کی واپس تبدیلی اور ٹی ٹی پی کو ایک مسلح عسکریت پسند گروپ کے طور پر ختم کرنا شامل ہے۔
حکومت پاکستان کے مذاکرات کاروں نے واضح کیا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے ہونے والا انضمام قابل بحث نہیں اور قبائلی لوگ اس کے اصل اور اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے ایسی دستاویزات لائی گئیں جو کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قبائلی عوام کے ساتھ ایک آزاد پاکستان میں ان کی خودمختاری کی ضمانت کے وعدے پر مشتمل تھیں۔
مزید پڑھیں: حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے، فواد چوہدری
انہیں بتایا گیا کہ جس انضمام کو وہ اپنے رواج کے خلاف سمجھتے ہیں اسے تبدیل کرنے کا مطلب فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کی جانب واپسی ہوگا جو برطانوی سلطنت کا ایک حصہ تھا اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے 'اسلامی' سمجھا جا سکتا ہو۔
علاوہ ازیں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق 25ویں آئینی ترمیم مارچ 2022 سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بڑے بینچ کے سامنے اس کی مخالفت میں کچھ قبائلی عمائدین کی جانب سے درخواست پر زیر التوا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کا خاتمہ ایک اور اہم مسئلہ ہے، حکومتی وفد نے واضح کیا کہ کسی بھی مسلح گروپ کو پاکستان کی حدود میں داخل ہونے یا اس طرح کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اختیارات پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے اور آئی ای اے اس حوالے سے مکمل آگاہ ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایک قبائلی جرگہ کابل میں ٹی ٹی پی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے جس کا اگلا دور جون کے دوسرے ہفتے میں متوقع ہے۔