اس سلسلے کی گزشتہ قسط یہاں پڑھیے۔
مغل دربار کے حوالے سے ہمیں سب سے زیادہ مواد 2 مغل بادشاہوں کے متعلق ملتا ہے ایک اکبر اور دوسرا اورنگزیب۔ مطلب ایک کمال کی حد اور دوسری زوال کی حد۔ ہمارا یہ سفر ان زوال کی پگڈنڈیوں پر ہے، مگر یہ کمال کا سفر ہے کہ ہم وقت کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے ہمیں سب کچھ صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔
ہمیں مصنفوں میں ملا محمد صالح کمبوہ بھی ملتے ہیں تو مولوی احمد علی صاحب رامپوری بھی، ہمیں ڈاکٹر فرانسس برنیئر بھی ملتے ہیں تو ہمارے ساتھی نیکولاؤ منوچی بھی۔
اگر ہم ان کی تحریریں پڑھیں تو ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ کون صاحبِ قلم کہاں جانبدار رہا ہوگا اور کہاں نہیں۔ تحریریں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں، یہ کبھی آنکھیں نہیں موندتیں، اس وجہ سے آپ جب ان سے رجوع کرتے ہیں تو وہ آپ کے سوال کا جواب دیتی ہیں کہ وقت بڑا منصف ہے اور وہ سارے راز آپ پر وقت گزرنے کے ساتھ افشاں کردیتا ہے۔
یہاں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو دیکھنے یا سننے جیسا نہ ہو بس ہمیں دل کی آنکھوں سے دیکھنا اور دماغ کے کانوں سے سننا ہے۔ سب گزرے وقت کی وہ اینٹیں ہیں جس سے ہمارا آج بنا ہے۔ تو چلیے سورت کی گلیوں کو منوچی کی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں۔
منوچی کی تحریر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لارڈ بیلومانٹ کے پیچھے اولور کرامویل تھامس کے لوگ لگے ہوئے تھے جو وہ ہر جگہ اپنا تعارف مختلف طریقے سے کرواتا تھا۔ سورت پہنچ کر اس نے مشہور کیا کہ وہ شاہ انگلستان کا ایلچی ہے اور مغل دربار میں ایک سفیر کے طور پر بھیجا گیا ہے۔ یہ خبر جب سورت کے حاکم تک پہنچی تو لارڈ کو سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔ چونکہ منوچی اس کے ساتھ تھا تو اس نے بھی بڑے موج میلے کیے۔ وہ سورت کی بندرگاہ پر ہوتے ہوئے بیوپار سے متعلق ہمیں تفصیل سے بتاتا ہے، ساتھ میں اس نے پہلی بار یہاں کے لوگوں کو پان کھاتے دیکھا۔
وہ تحریر کرتا ہے کہ ’میں نے دیکھا کہ ہر شخص سرخ تھوک رہا ہے، چنانچہ میں نے ایک انگریز لیڈی سے پوچھا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ جب بہت دیر کے بعد میری بات اس کو سمجھ میں آئی تب اس نے جواب دیا کہ یہ کوئی بیماری کی وجہ سے نہیں ہو رہا بلکہ یہاں کے لوگ ایک خوشبودار پتے کو چباتے ہیں جس کو پان کہا جاتا ہے۔ سورت بندرگاہ کی آمدنی شاہجہان نے اپنی بیٹی بیگم صاحبہ کو پان خرچ کے لیے دے رکھی ہے'۔
منوچی اور لارڈ سورت میں ڈھائی ماہ تک رہے اور مغل دربار میں پیش ہونے کی تیاریوں میں لگے رہے۔ ان کے پاس پیسے تقریباً ختم ہوگئے تھے، مسٹر ہنری نیگ نے ان کی مدد کی اور وہ ساری اشیا جو بادشاہ کے حضور میں تحفے کے طور پر پیش کرنی تھیں وہ مہیا کردیں۔ ان اشیا میں کپڑے، ایک گھڑی، ایک عربی گھوڑا، کچھ تلواریں، پستول، بندوقیں اور انواع و اقسام کے یورپ کے کھلونے شامل تھے۔ ان کو وہ پروانہ راہداری بھی سورت کی حکومت سے مل گیا جس کے بغیر کوئی غیر ملکی سفر نہیں کرسکتا تھا۔ 15 دنوں کی مسافت کے بعد وہ برہانپور پہنچے جہاں شہزادہ اورنگزیب کا دربار تھا مگر ان دنوں وہ اورنگ آباد میں تھے۔
منوچی برہانپور کے صاف پانی کے کاریزوں، کئی قسم کے کپڑوں اور سفید رنگ کے برقعوں کا ذکر بھی کرتا ہے۔ اپریل کے آخر میں وہ برہانپور سے روانہ ہوئے اور 9 مئی تک وہ سرونج پہنچے۔
منوچی راستوں میں بنے کاروان سرائے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’مسافروں کے آرام کے لیے تمام مغلیہ سلطنت میں راستوں میں سرائے بنی ہوئی ہیں جو مسلح قلعوں کی طرح اینٹوں یا پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ ہر ایک سرائے میں ایک افسر رہتا ہے جس کا فرض یہ ہے کہ شام ہوتے ہی سرائے کے دروازوں کو بند کردے اور دروازے بند کرکے وہ پکار کر کہتا ہے کہ ہر شخص اپنی اشیا سنبھال لے، گھوڑوں کو اگاڑی پچھاڑی ڈال لے اور نیز اپنے کتوں کی خبر لے۔ صبح 6 بجے دروازے کھولنے سے پیشتر چوکیدار 3 بار اونچی آواز میں پکار کر کہتا ہے کہ ہر شخص اپنی اشیا کی دیکھ بھال کرے۔ جس کے بعد اگر کسی کو اپنی چیز کی گمشدگی کا شک ہو تو دروازے اس وقت تک نہیں کھولے جاتے جب تک گمشدہ چیز مل نہ جائے۔ یہ سرائیں صرف مسافروں کے لیے مخصوص ہیں۔ سپاہی اس میں نہیں رہ سکتے۔ ایک سرائے میں 800 سے لے کر ایک ہزار مسافر اپنے اونٹ، گھوڑوں اور گاڑیوں وغیرہ کے ساتھ آسکتے ہیں۔ ان میں کئی کمرے، ہال، برآمدے ہوتے ہیں اور صحن میں سایہ دار درخت ہوتے ہیں۔ کئی اشیائے خوردنی وغیرہ کی دکانیں اور سرائے کے نوکروں کے لیے علیحدہ مکانات ہوتے ہیں'۔
10 دن کے سفر کے بعد وہ گوالیار پہنچے، وہ تاریخ کے صفحات میں مشہور قلعہ گوالیار سے متعلق لکھتا ہے کہ 'قلعہ پہاڑی پر بنا ہوا ہے اور یہ مشہور و معروف قلعہ اس لیے ہے کہ مغل بادشاہ شہزادوں اور بلند رتبہ شخصیتوں کو اس میں قید کرتے ہیں'۔
منوچی یہاں اعلیٰ معیار کے چنبیلی کے تیل بننے کا ذکر کرتا ہے اور ساتھ میں لوہے کی کانوں کا بھی۔ اس لوہے سے مغل دربار کے لیے ہتھیار تیار کرنے کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ ڈھولپور راجستھان پہنچے، وہ لکھتا ہے کہ ’3 دن کے سفر کے بعد ہم چمبل پہنچے جس کے کنارے ڈھولپور قصبہ ہے جہاں اورنگزیب کی اپنے بھائی دارا کے ساتھ 1658ء میں لڑائی ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں، میں بھی شامل تھا'۔
چمبل سے 4 دنوں کے سفر کے بعد وہ 2 جون کو آگرہ پہنچے، منوچی کے مطابق اس نے سورت سے آگرہ 460 میل کا فاصلہ طے کیا۔ آگرہ کی سخت گرمی نے لارڈ کو بہت پریشان کیا اس لیے چند دن رہنے کے بعد وہ دہلی کے لیے نکل پڑے۔ وہاں ان دنوں شاہجہان کا دربار تھا۔ آگرہ سے 3 دن کے فاصلے پر لارڈ کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ 20 جون 1656ء شام 5 بجے فوت ہوگئے۔ وہ فوراً لاش کو قریبی سرائے میں لے گئے، اور سرائے کے آفسر نے اس جگہ کے حاکم دیوانی کو اس واقع کی اطلاع دی اور اس نے فوراً موقع پر پہنچ کر، تمام مال اسباب پر اپنی مہر لگا کر اسے روک دیا کہ جب تک دربار سے کوئی حکم نہ آئے تب تک یہ سارا مال ان کے پاس رہے گا۔
منوچی لکھتا ہے کہ ’ایلچی (لارڈ بلومانٹ) کو دفن کرنے کے بعد تمام نوکر غائب ہوگئے۔ میں اکیلا سخت اداس اور غمگین اس جگہ پر رہ گیا جسے نہ تو کوئی تسلی دینے والا تھا اور نہ ہی میں اپنی اشیا کے بغیر کسی جگہ پر جاسکتا تھا کیونکہ میرے سامان کو بھی افسر نے ایلچی کے مال و اسباب کے ساتھ مہر کر رکھا تھا، گو چابیاں میرے پاس ہی تھیں'۔
اس سامان کے حصول کے لیے جس طرح منوچی نے تگ و دو کی تھی اس سے ایک تجزیاتی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بہت تیز تھا۔ وہ اپنے فائدے کے لیے اپنے آپ کو بہت حد تک تبدیل کرسکتا تھا، اب چونکہ وہ حیوان ناطق تھا تو زمانے نے بہت کچھ سکھایا بھی تھا اور وہ وفاداری بھی کرنا جانتا تھا۔ ساتھ ان دنوں ہم یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ متوسط طبقے کی پہنچ وزیرِاعظم اور بادشاہ تک تھی، وہ الگ بات ہے کہ وزیر اور بادشاہ تک پہنچنے کے لیے مقرر کارندوں کی ہتھیلی سکوں سے گرم کرنی پڑتی تھی مگر وہ ان تک پہنچ جاتے تھے۔ پھر دربار میں ہوتے ہوئے بادشاہی فیصلوں کو اگر تحریر کے دائرے میں لایا جائے تو ان فیصلوں کی ایک الگ تاریخ ترتیب دی جاسکتی ہے اور ساتھ میں ان فیصلوں کے دوران فریادی اور مجرم کی تُو تُو، میں میں کے درمیان ہنسی مذاق کا بھی بہت سامان موجود ہوتا تھا۔ خاص کر شاہجہان اور دارا شکوہ اس حوالے سے بڑے مشہور رہے۔
دونوں باپ بیٹوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ہم جان سکتے ہیں کہ وہ بہت سارے معاملات میں انتہا پسند نہیں تھے۔ خاص کر فنکاروں چاہے وہ گانے بجانے والا ہو یا کوئی بھانڈ ہو یا کوئی کھیل تماشہ دکھانے والا جادوگر ہو۔ وہ دربار میں ان کو بلاتے، ان کا کھیل تماشہ دیکھتے، ان کو انعام و اکرام دے کر رخصت کرتے۔ بہت سارے فیصلے وہ خود دربار میں کرتے یا قاضیوں کے کیے ہوئے فیصلے سنتے۔ اگر کوئی غیر ملکی ہو تو دربار میں اس کو تھوڑی زیادہ نرمی برتی جاتی، خاص کر دارا یورپ کے لوگوں کو کچھ زیادہ ہی زبردست سمجھتا تھا۔ تو اس حوالے سے نیکولاؤ منوچی خوش نصیب رہا۔
وزیرِاعظم وزیر خان نے منوچی کی درد بھری کہانی سنی، چونکہ منوچی کو تب تک ترکی، عربی اور فارسی زبانیں آگئی تھیں تو سمجھنا سمجھانا کوئی مشکل نہیں تھا۔ کہانی سننے کے بعد وزیرِاعظم نے اسے تسلی دی اور شہنشاہ کو دربار میں حاضر ہونے کا کہا، ساتھ میں کورنش (انتہائی جھک کر شاہی سلام کرنا) بجا لانے سے متعلق پوچھا تو منوچی نے ہاں کی۔ وزیر نے کہا کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے۔
منوچی تحریر کرتے ہیں کہ ’میں بالکل سیدھا کھڑا ہوگیا اور اپنے سر کو اس قدر جھکایا کہ زمین تک پہنچ گیا، اس کے بعد میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی پشت کو زمین کی طرف کرتے ہوئے اپنا سر اُٹھا لیا اور سیدھا کھڑا ہوگیا، 3 دفعہ میں نے ایسا کیا۔ یہ طریقہ فقط بادشاہ سلامت کو سلام کرتے ہوئے برتا جاتا ہے'۔
منوچی جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو شہنشاہ کے سامنے سب وزیر اور انتظامیہ کے دیگر لوگ کھڑے تھے، صرف ایک شخص جو تخت کے ایک طرف نیچی جگہ پر بیٹھا تھا۔ یہ بادشاہ کا بڑا لڑکا دارا تھا۔
شاہجہان کے احکامات کے مطابق منوچی کو اپنا سامان واپس ملا، بادشاہ کی دربار سے وابستہ ایک فرانسیسی کلاڈیو میلیر نامی آدمی بھی منوچی کو مل گیا۔ یہ منوچی کی خوش قسمتی تھی۔ اس کی وساطت سے وہ دارا شکوہ سے ملا اور دونوں نے فارسی میں گفتگو کی اور دارا نے اسے اپنے نزدیکی آدمیوں میں شامل کرلیا۔
شہزادے نے حکم جاری کیا کہ 'اسے 80 روپیہ ماہوار ملا کریں اور اسی وقت اپنی موجودگی میں اسے ایک سراپا، 30 روپیہ اور ایک عمدہ گھوڑا عنایت کرکے اپنے ایک معتبر خواجہ سرا خواجہ مسکین کو حکم دیا کہ ’اس چھوٹے سے فرنگی کی خبر گیری رکھو اور خیال رکھو کہ اس کو کوئی تکلیف نہ ہو'۔
دارا کی طرف سے یہ ایک سرٹیفکیٹ تھا جو منوچی کو مغل بادشاہوں کے محل محلاتوں تک لے گیا۔ چونکہ یہ توپچی کے ساتھ ایک اچھا حکیم بھی تھا تو مغل شہزادیوں کے محلوں تک اس کی رسائی آرام سے ہوجاتی اور یہ سہولت منوچی کو اس زمانے کا ایک حقیقت پسند اور آنکھوں دیکھا مصنف بنانے میں مدد کرتی ہے۔
منوچی کو ایک اندازے کے مطابق ستمبر 1656ء میں نوکری ملی ہوگی۔ اگر دیکھا جائے تو اس سال سے ہی مغلیہ سلطنت میں ایک سنجیدہ اور خطرناک کیفیت نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔ یہ کیفیت دھیرے دھیرے اپنے عکس کو واضح کرتی جا رہی تھی۔ اگر شاہجہان کو ایک طرف رکھ کر سیاست کی بساط کو دیکھیں تو 8 مہرے تھے جو مغلیہ سلطنت پر اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی کامیابی چاہتا تھا۔ نیکولاؤ منوچی نے جو ان مہروں کا تعارف اپنی تحریر میں کرایا ہے، وہ تعارفی خاکے حقیقت سے اس لیے قریب ہیں کہ منوچی نے ان کے متعلق کوئی سنی سنائی بات بہت کم ہی کی ہے زیادہ تر اس نے وہی تحریر کیا ہے جو اس نے دیکھا۔
شاہجہان نامہ میں محمد صالح کمبوہ کی یہ تحریر کہ ’ملک میں ہرطرف امن و امان تھا، رعایا اطمینان سے زندگی بسر کر رہی تھی کہ یکایک فلک کج رفتار نے رنگ بدلا، اچانک 7 ذی الحج 1067ھ (16ستمبر 1657ء بروز اتوار) میں شہنشاہ بیمار ہوا' کی کتابت کرنے میں ابھی پورا ایک برس پڑا ہے۔ تب تک مغلیہ سلطنت کے سیاسی حالات کیا تھے تھوڑا اس کا جائزہ لے لیں اور ان مہروں کا تعارف بھی ابھی باقی ہے کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق ان مہروں کا تعارف اگر ستمبر 1657ء تک مؤخر کریں تو شاید مناسب رہے گا۔
1656ء میں اورنگزیب دکن میں تھا اور ان کوششوں میں لگا ہوا تھا کہ خراج اور ٹیکس کس طرح زیادہ وصول کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ جنوبی ہند اور شمالی ہند کا اپنا الگ الگ منظرنامہ ہے اور شمال ہند والے جنوب کو خراج کے لیے ایک زرخیز علاقہ سمجھتے۔ اس زرخیزی پر طاقت کے زور میں شاہجہان نے دکن کو فتح کرنے کے لیے کئی برسوں تک جنگ و جدل کرکے احمد نگر کو فتح کیا۔ پھر بیجاپور میں معرکہ ہوا، بیجاپور کا سلطان بڑی بہادری سے لڑا مگر آخر مغلوب ہوا اور صلح ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے مشرقی ساحل پر مدراس کی زمین خرید کر قلعہ سینٹ جارج 1644ء میں تعمیر کیا تھا۔ بنگال میں بھی کمپنی نے اپنی کوٹھی بنالی تھی۔ یہ کوٹھی دریائے گنگا کے دہانے پر کلکتہ سے کوئی 25 میل شمال کو ہگلی میں واقع تھی۔
چونکہ بادشاہ اپنی سلطنتوں کی سرحدوں کو بڑھانے کے لیے سب کچھ تباہ کرنے اور اپنی تسکین کے لیے جشن میں مگن تھے اور ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کمپنی کے یہ بیج جو ان صورتوں میں جڑیں پکڑ رہے ہیں وہ جب برگد کی طرح گھنے پیڑ کی صورت لے لیں گے تو ان کی لٹکتی ہوئیں جڑوں کی خوراک ان شہنشاہوں کا یہ سارا طمطراق ہوگا۔ مگر تب تک وقت گزرچکا ہوگا اور یہ جو برس گزرنے کی خوشی منانے کے لیے اپنے آپ کو سونے میں تولتے ہیں آنے والے وقتوں میں ان کے لیے 2 وقتوں کی روٹی ملنا تک مشکل ہوجائے گا۔ کاش کہ وقت کسی بہانے یہ بات ان مدہوش دماغوں تک پہنچا دیتا تو شاید آج کل کا منظرنامہ الگ ہوتا۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہی وقت کی چال اور یہی فلک کج رفتار کا چلن ہے۔
جب شاہجہان کو اور مقامات فتح کرنے کا چسکا لگا تو دکن سے خراج آنا کم ہوگیا۔ تب اورنگزیب کو دکن بھیج دیا گیا۔ دکن میں آمدن کا ایک ذریعہ زراعت تھی، جس کی ان دنوں کوئی اچھی حالت نہیں تھی۔ دوسرا ذریعہ خراج تھا اور اس میں بھی دام نہیں وعدوں کے بھنڈار ملنے لگے تھے۔ خراج میں اہم گولکنڈہ کی دکنی ریاست تھی جس سے خراج آتا تھا۔ بیجاپور تو ایک بادشاہی معاہدے کے تحت خراج سے مستثنیٰ تھا، مگر گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت نے سالانہ 2 لاکھ مہر دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا جو اس زمانے کے مروجہ حساب سے 8 لاکھ چاندی کے روپیوں کے برابر تھا۔
حالانکہ گولکنڈہ کی ریاست مالدار تھی، مگر چونکہ حاکم خراج وعدے کے مطابق نہ دیتا تو رقم بڑھتی رہتی۔ مغل بادشاہوں کا یہ وطیرہ تھا کہ ان کو ایسے اسباب بہانہ فراہم کرتے کہ وہ ریاستوں پر حملہ آور ہوں اور وہ اپنی سلطنت کی حدود اور وسائل میں اضافہ کرلیں۔ قطب شاہی سلطنت بھی خراج میں آنا کانی کرتی رہی، اسی دوران مہر کی قیمت 4 روپے سے بڑھ کر 5 روپے ہوگئی۔ وہ خراج دینے کے بجائے کرناٹک پر قبضہ جماتے جا رہے تھے۔ کرناٹک کے ہندو راجہ نے شاہجہان کو مدد کی درخواست کی اور 50 لاکھ مہر دینے کو تیار ہوگیا۔
کرناٹک سے دوستی مغلوں کے لیے فائدے مند تھی کہ جنوب میں فوجی چھاؤنیاں قائم ہوتیں جس کی وجہ سے بیجاپور اور گولکنڈہ پر ان کی گرفت اور مضبوط ہوجاتی۔ اورنگزیب یہی چاہتا تھا جس کے لیے جنگ ضروری تھی مگر شاہجہان جنگ کا مخالف تھا، البتہ اس نے دکن کی ریاستوں کو کرناٹک سے دستبردار ہونے کے لیے کہہ دیا تھا۔ مگر دکنی ریاست اندر سے مغلوں سے جان چھڑانا چاہتی تھی اس لیے اس نے ایک طرف کرناٹک پر اپنی گرفت بڑھانے کی رفتار تیز کردی اور دوسری طرف شاہجہان کو بھاری تحفے تحائف بھی بھیجتے رہے کہ بادشاہ کا غصہ بگولے کی صورت اختیار نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرناٹک کئی حصوں میں بٹ گیا اور راجا نے اپنی حیثیت گنوادی۔ دارا کی تمنا یہ تھی کہ دکنی ریاستیں اور مضبوط ہوں تاکہ اورنگزیب کی پیش قدمی کو اپنی طاقت سے زنجیریں پہنا سکیں کہ وہ آگے بڑھنے کی تمنا ہی چھوڑ دے۔
اس سارے منظرنامے میں دکن کا حاکم چاہے اورنگزیب تھا مگر دہلی میں بیٹھے ہوئے شاہجہان نے اس کے پَر اس طرح کاٹ دیے تھے کہ وہ تخت و تاج پر تو شان سے بیٹھ سکتا تھا مگر کسی بڑی پیش قدمی کے لیے پَر نہیں تول سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گولکنڈہ اور بیجاپور کے حکمران مرکز سے سیدھی خط و کتابت کرسکتے تھے جو بات اورنگزیب کو یقیناً اچھی نہیں لگنی تھی۔ اس خط و کتابت سے اورنگزیب کو بالکل بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ شہنشاہ اور ان سلطنتوں کے بیچ میں کیا لین دین ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔ سب کچھ ہونے کے بعد بھی اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ اس کے متعلق ایک دو دفعہ اورنگزیب نے شاہجہان کی توجہ بھی مبذول کروائی مگر بادشاہ نے اس کی دلیل کو قبول نہ کیا۔
اورنگزیب آنے والے دنوں کی تیاری میں مصروف تھا، اسے دکن کو اپنی ایک مضبوط سلطنت بنانا تھا کہ وہ دہلی کے تخت طاؤس پر بیٹھ سکے، وہ گولکنڈہ پر حملہ کرکے اپنے اوپر قندھار اور بلخ والی ناکامی کا لگا ہوا داغ دھونا چاہتا تھا۔ ساتھ میں اچھی خاصی رقم مل جانے کی امید بھی تھی کہ جس سے وہ اسلحہ اور بارود کے ڈھیر لگا سکے گا جس کی وجہ سے شہنشاہ بننے کی مشکل ترین پگڈنڈی ایک آسان راستے میں تبدیل ہوجائے۔ تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ اورنگزیب کے بھاگ اچھے نہیں تھے۔ وہ دُور سے جس درخت کو پیپل کا گھنا پیڑ سمجھتا جب وہاں پہنچتا تو پیپل کی جگہ ٹنڈ منڈ درخت ہوتا جس میں حالات کی گرمی روکنے کے لیے کوئی ہرا پتہ نہ اگتا۔ اس حوالے سے میں آپ کو میر جملہ کی چھوٹی سی حقیقی کہانی سناتا ہوں، جس سے یہ خوب اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی میں منصوبہ بندی کم اور اتفاقات سے زندگی کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔
میر محمد سعید ’میر جملہ‘ کے نام سے مشہور تھے۔ یہ شخص 30 برس پہلے فارس سے گولکنڈہ آیا تھا اور اتنے عرصے میں وہ جواہرات کا ایک کامیاب بیوپاری بنا اور بہت ناموری کمائی، یہاں تک کہ گولکنڈہ کے عبداللہ قطب شاہ کا منظورِ نظر ہوگیا اور وزیرِاعظم مقرر کردیا گیا۔ کچھ عرصہ میں اس نے کرناٹک کے ہندو راجا سری رنگا رایل سے اس کا علاقہ چھین کر اپنی طاقت بڑھالی مگر کچھ وقت کے بعد قطب شاہ اور میر جملہ کے راستے الگ ہوگئے۔ یہ راستے جدا ہونے ہی تھے کہ ایک جنگل میں 2 شیر اور ایک میان میں 2 تلواروں کا رہنا ممکن نہیں ہے۔ میر جملہ جذباتی کم اور حالات کو پرکھنے والا انسان زیادہ تھا۔ اس نے حالات کو بھانپ کر اورنگزیب اور شاہجہان سے رابطے شروع کیے۔ دوسری طرف اس عمل کا ردِعمل یہ ہوا کہ قطب شاہ نے میر جملہ کے بیٹے اور اس کے خاندان کو اپنی حراست میں لے لیا۔ اب میر جملہ نے سوچا کہ حالات اورنگزیب کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اس لیے اس نے دہلی کا رُخ کیا۔
منوچی لکھتا ہے کہ ’جس وقت میر جملہ دہلی آیا تو ان دنوں میں وہیں تھا، دربار میں اسے سب سے اعلیٰ رتبہ دیا گیا اور شاہجہان نے اسے وزیراعظم کا عہدہ اور ’معظم خان‘ کا خطاب عنایت کیا اور ساتھ میں قندھار پر حملہ کرنے کے لیے لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔ چونکہ میر جملہ اور شاہ فارس کے ایک دوسرے سے رابطے تھے تو کیسے ممکن تھا کہ میر جملہ قندھار پر حملہ کرتا اس لیے انکار کا ایک زبردست طریقہ نکالا۔ میر جملہ نے شہنشاہ کو ایک بہت بڑا ناتراشیدہ لعل پیش کیا جس کا وزن 360 قیراط تھا۔ یہ لعل پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’اگر قندھار کی سلطنت میں اس جیسے بیش بہا لعل پیدا ہوتے ہیں تو بلاشک حضور وہاں جانے یا اپنے کسی وفادار خادم کو اس جگہ بھیجنے کی تکلیف گوارہ کریں، لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ حضور کسی جان نثار کو ان ممالک کی فتوحات کے لیے روانہ کریں جہاں ایسے بیش بہا رتن سچ مچ پیدا ہوتے ہیں اور ان میں بیجاپور، گولکنڈہ اور جزائر سیلون کی بادشاہتیں شامل ہیں'۔
یہ کہہ کر اس نے ایک دفعہ پھر اپنا ہاتھ آگے کیا جس میں 2 بڑے بڑے لعل تھے جو پہلے جیسے بڑے نہیں تھے تاہم بہت قیمتی تھے اور بولا کہ ’اگر حضور مجھے اجازت دیں تو میں بہت تھوڑے عرصے میں حضور کو تمام ساحل، کارو منڈل گنجلی (جنوبی ہندوستان کی مشہور بندرگاہ) کا مالک بنادوں گا'۔
شاہجہان کے اور بھی خبط تھے مگر ہیرے جواہر جمع کرنے کا جنون کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس لیے اس کے پاس ان ہیرے جواہرات کی بہت زیادہ تعداد تھی۔ شاہجہان کی بیماری کے بعد کا احوال جب ہم سنیں گے تو شاہجہان کی بیماری سے متعلق کم اور ہیرے جواہرات سے متعلق لوگ زیادہ پوچھتے تھے۔ مگر ابھی محمد صالح کمبوہ کی تحریر میں کچھ ماہ باقی ہیں!
حوالہ جات:
’تاریخ ہند‘۔ ای۔مارسڈن۔2021ء (ترجمہ)۔ بُک ہوم، لاہور
’ہندوستان عہد مُغلیہ میں‘۔ نیکولاؤ منوچی۔ ملک راج شرما۔ لاہور
’تاریخ کے مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2020ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
’مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال‘۔ رام پرساد ترپاٹھی۔2018ء۔ کتاب میلہ، لاہور
’شاہجہان نامہ‘۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں