بہتر ہے ہم روز سیاسی جیت ہار کا جشن منانے کے لیے تیار رہیں
عدالت کے لمبے روٹ سے آکر چوہدری پرویز الہٰی وزیرِ اعلی پنجاب بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے حمزہ شہباز کچہری چڑھے رہے ہیں۔ وزیرِ اعلی بننے کی ہیٹرک کرچکے ہیں۔ 2 بار حلف اٹھایا اور ایک بار ٹرسٹی وزیرِ اعلی رہے۔ ویسے اس ٹرسٹی کو اگر انگریزی والا تھرسٹی پڑھیں تو زیادہ مزہ آئے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بہت تیزی کے ساتھ پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق سے واقف ہو رہی ہے۔ عالمی سازش کا بیانیہ جھاڑ پونچھ کر کبھی کبھی دوبارہ پیش کردیتی ہے لیکن اپنا سیاسی مؤقف تبدیل کر رہی ہے اور اب انتخابات پر توجہ دے رہی ہے۔ گلے شکوے کچھ عدالت نے دُور کردیے ہیں اور کچھ ووٹر نے آسرا کرا دیا ہے۔
پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ساری پارٹیوں کے لیے حیران کن تھے۔ نہ پی ٹی آئی کو اس جیت کی امید تھی اور نہ مسلم لیگ (ن) ایسی ہار کی توقع رکھتی تھی۔ یہ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ روایتی سیاست کو ڈینٹ پڑ چکا۔ ووٹر نے برادری سے دُور جاکر ووٹ دیا ہے۔
مزید پڑھیے: 'عدالت کا حالیہ فیصلہ مزید تنازعات کی وجہ بنا ہے'
مسلم لیگ (ن) کو سزا دی ہے کہ کیوں لوٹوں پر انحصار کیا اور اپنے زورِ بازو پر کیوں نہیں کیا۔ مشکل میں ساتھ دینے والوں کو کیوں نظر انداز کیا۔ پی ٹی آئی کو انعام دیا ہے کہ مؤقف پر کھڑے ہو اور ڈٹ گئے ہو تو ہماری طرف سے کسر نہیں ہے یہ لو ووٹ اور اپنی گیم اب خود بناؤ۔
انتخابی نتائج اور وزیرِاعلیٰ کے انتخاب تک 5 دن میں جو کچھ ہوا اس نے سب کو انتخابی نتائج بھلا دیے۔ پی ٹی آئی سیاست کے سبق پڑھ گئی کہ صرف ووٹ کافی نہیں۔ جو کچھ خود کیا تھا 4 مہینے پہلے وہ سب چکھنا پڑا۔ حمزہ شہباز حلف نہ لے سکے تو چوہدری پرویز الہٰی کو گورنر نے انکار ہی کیا۔
یہ سب کچھ ہوتا رہا اور اگر کوئی خاموش رہا، لاتعلق رہا تو وہ میاں نواز شریف تھے۔ محض ایک ٹوئیٹ کے سوا کس نے ان کا کوئی بیان سنا؟ ان کی پاور بیس میں الیکشن ہو رہا تھا، اس لیے وہ لاتعلق ہوں تو ہضم نہیں ہوتا۔ ان کی پارٹی کو کمبل کٹ لگے اور ان کا بیان تک نہ آئے، یہ کچھ عجیب ہے۔ نواز شریف گھر بیٹھ کر رٹائر ہوکر بھی پاکستان سے انتہائی متعلق ہی رہیں گے۔ جب تک ہیں ان کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔
80 کی دہائی شروع ہوتی ہے تو نواز شریف اقتدار کی راہداریوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پنجاب کے وزیرِ خزانہ اور سینیئر وزیر تھے۔ تب آرمی چیف جنرل باجوہ کیا آرمی میں کمیشن لے چکے تھے؟ کیا چیف جسٹس اپنا کیریئر شروع کرچکے تھے؟ یہ دونوں پاکستان کے اہم ترین عہدے ہیں۔
مزید پڑھیے: ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف عدالتی کارروائی کی اندرونی کہانی
ہمارے خطے میں جو لیڈر ہیں ان کو نواز شریف نے کیسے دیکھا؟ افغان طالبان تحریک نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا جب یہ پہلی بار وزارتِ عظمیٰ سے نکالے گئے۔ چینی صدر کہاں تھے؟ سعودی ولی عہد کو میاں صاحب نے کیسے دیکھا ہوگا؟ شاہ سلمان گورنر ہوتے تھے اور میاں صاحب شاہی مہمان، ولی عہد کی کیا عمر ہوگی وہ اب 40 کے بھی نہیں ہیں۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی 90ء میں کیا سیاسی پوزیشن رکھتے تھے؟ بطور ملک ہم نوازشریف کا تجربہ اپنے حق میں زیادہ استعمال نہیں کرسکے۔ اس کا ہمیں نقصان زیادہ ہوا ہے۔ شاید خود نواز شریف بھی جس بلندی سے معاملات کو دیکھ رہے تھے وہاں سے وہ یقینی طور پر پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ نظر انداز شدہ یہ لوگ اب کپتان کے حمایتی ہیں۔
نواز شریف کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر پنجاب تک محدود ہوگئے ہیں۔ خیبر پختوانخوا میں مولانا فضل الرحمٰن، بلوچستان میں بلوچ پختون قوم پرست، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ان کے نرم گرم اتحادی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) پیپلز پارٹی کے ساتھ چل رہی ہے۔ نوازشریف نے اپنی سیاسی سپیس تو بڑھا لی ہے لیکن 3 صوبوں میں جو سیاسی خلا چھوڑا ہے وہ کپتان نے پُر کیا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی نہ پی پی کے بس میں آیا نہ کوئی (ن) لیگی وہاں گیا۔ کپتان ادھر دکھائی دیتا ہے۔
اس کراچی سے آپ کپتان پنڈی اتحاد کی وجوہات سمجھیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو کس نے ڈنڈے سے فارغ کیا اور اس کا سیاسی ساتھ کپتان کے علاوہ کون دے سکا؟ جن ووٹوں پر اعتراض ہے وہ نکال بھی دیں تو بھی کپتان کی حمایت 2013ء میں بھی الطاف حسین کو بے چین کر رہی تھی۔ پختوانخوا ہو یا فاٹا وہاں ساری سیاسی پارٹیاں مل کر کوئی دال دلیہ کرسکتی ہیں۔ اکیلے پی ٹی آئی ان سب سے سیکڑوں کلومیٹر آگے ہے۔
مزید پڑھیے: معاملہ شجاعت، زرداری اور پرویز الٰہی کا: کب اور کیا کچھ ہوا؟
نوازشریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھ کھڑے پی ڈی ایم کے اتحادیوں کو دیکھیں۔ کیا سمجھ آتی ہے؟ یہی کہ روایتی پاکستانی سیاست اپنے تجربے اور تعلقات کے ساتھ تبدیلی کو چلنے نہیں دے گی۔ کپتان نے ان سب کو چیلنج تو کیا مگر ڈیلیور نہیں کیا۔ کپتان کو نکال کر پی ڈی ایم بھی ڈیلور نہیں کرسکی۔ دونوں اک جیسے حال اور حشر کو پہنچے کھڑے ہیں۔
میڈیا، سوشل میڈیا اور ڈرائینگ روموں میں ہر جگہ یہ سب باتیں سرگوشیوں میں ہوتی ہیں کہ پنڈی کیا سوچ رہا ہے، کس کے ساتھ ہے، وہاں تقسیم ہے یا یکسو ہیں۔ سب ڈرتے ہیں نام نہیں لیتے، ویگو ڈالے کا سوچتے ہیں جن میں تیل ڈالنے کو پیسے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
پنڈی کا حساب بہت ہی سادہ ہے۔ وہ سارے افسر جن کا تعلق واسطہ بیرونی امور سے پڑتا ہے وہ یکسو ہیں کہ ہمیں حکومتی معاملات سے دُور رہنا ہے۔ سیاست کو اپنا راستہ خود بنانا ہے، ورنہ سفارت و معیشت میں ہم کسی جگہ نہیں رہیں گے۔ سیاست میں ابھی جنگ جاری ہے اور لمبا چلے گی۔ تب تک ہمیں پیناڈول پاس رکھ کر کبھی ایک کی جیت اور کبھی دوسرے کی ہار کا جشن منانا ہے۔